لاکھوں طلبہ و طالبات سرکاری کالجوں میں ادخلے سے محروم رہ جائیں گے

لاکھوں طلبہ و طالبات سرکاری کالجوں میں ادخلے سے محروم رہ جائیں گے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 گزشتہ ہفتے پنجاب بھر کے تعلیمی بورڈز نے میٹرک کے نتائج کا اعلان کر دیا ہے جس کے ساتھ ہی پورے پنجاب کے خواتین اور بوائز کالجز میں سال اول کے داخلوں کے شیڈول کا اعلان کر دیا گیا ہے۔پنجاب کے بیشتر کالجوں میں فارم داخلہ جمع کروانے کی آخری تاریخیں اواخر جولائی یا اوائل اگست میں رکھی گئی ہیں۔
پنجاب بھر کے تعلیمی بورڈز اور وفاقی بورڈز کے میٹرک کے نتائج کے بعد لائق ترین طلباء و طالبات کا رجحان اور رخ لاہور کے تعلیمی کالجوں کی طرف ہوتا ہے لیکن ان تعلیمی اداروں میں نشستوں کی تعداد محدود ہے۔چونکہ سرکاری کالجوں کا میٹرک پرائیویٹ کالجوں سے بلند اور بہتر ہے اس لئے محتاط اندازے کے مطابق ایک لاکھ کے قریب طلباء و طالبات ان اداروں میں داخلے سے محروم رہیں گی اور ان کو نجی تعلیمی اداروں اور پرائیویٹ اکیڈمیوں کا رخ کرنا پڑے گا۔
پنجاب میں اعلیٰ نمبر حاصل کرنے والے طلباء گورنمنٹ کالج یونیورسٹی، ایف سی کالج، اسلامیہ کالج سول لائنز، گورنمنٹ کالج آف سائنس وحدت روڈ پنجاب گروپ آف کالجز، سپرئیر یونیورسٹی جبکہ طالبات کنیرڈ کالج، لاہور کالج یونیورسٹی اور کوئین میری کالج کی طرف رجوع کر رہے ہیں۔ ان کالجوں پر داخلے کا دباؤ بڑھ جانے کے باعث صرف انتہائی اعلیٰ نمبروں والے طلباء و طالبات ان میں داخلہ لے سکیں گے۔ اس دفعہ سرکاری شعبے میں گورنمنٹ کالج آف سائنس وحدت روڈ کے پرنسپل پروفیسر اعزاز احمد خان اور گورنمنٹ کالج ٹاؤن شپ کے پرنسپل پروفیسر محمد اعجاز بٹ نے لائق ترین طلباء کے لئے خصوصی سیکشن بنانے کی ہدایات جاری کی ہیں اور ان طلباء کو دیگر طلباء کے مقابلے میں زیادہ مراعات اور سہولیات حاصل ہوں گی۔
روزنامہ پاکستان کی جانب سے داخلے کے حوالے سے حاصل کی گئی تفصیلات کے مطابق پنجاب کے سرکاری کالجوں میں داخلوں کی سفارشوں کے لئے جوڑ توڑ شروع ہوگیاہے۔ 54کالجوں میں45ہزار سیٹوں پر،پاس ہونے والے لاہور بورڈ کے1لاکھ 53ہزار478طلبہ کی اکثریت داخلے کی خواہش کے باوجود نجی کالجوں کارخ کرنے پر مجبور ہو گی جبکہ نجی کالجوں میں فیس ادا نہ کرنے والے طلبہ کی ایک بڑی تعداد اعلی تعلیم سے محروم ہوجائے گی۔
یہ بھی کہا جارہا ہے کہ بعض نجی تعلیمی ادارے اپنے مطلوبہ اہداف پورے کرنے اور طلبہ و طالبات کی تعداد بڑھانے کے لئے با اثر اساتذہ ،ماہرینِ تعلیم اور محکمہ تعلیم کے کارپردازان سے اس ڈیلنگ میں مصروف ہیں کہ وہ اُن کے اداروں میں جس قدر بچے داخل کروائیں گے فی داخلہ انہیں دو ہزار روپے ملیں گےُ ۔
میٹرک کے سالانہ امتحانات2016ء کے رزلٹ کے بعد پنجاب کے تمام سرکاری و نجی کالجوں میں داخلوں کا سلسلہ شروع ہے۔لاہور بورڈ آف انٹر میڈیٹ اینڈ سکینڈری ایجوکیشن کے نتائج کے مطابق1لاکھ 53ہزار478 طلبہ نے میٹرک2016کا امتحان پاس کیا ہے جبکہ ڈسٹرکٹ لاہور کے اندر سرکاری کالجوں کی تعداد54ہے جن میں20بوائز اور34گرلز کالجز ہیں ۔ان سرکاری کالجز میں صرف45ہزار 180طلبہ کی سیٹیں موجود ہیں۔گزشتہ سال 1لاکھ 35ہزار طلبہ پاس ہوئے تھے جبکہ اس سال طلبہ کی تعداد18ہزار زیادہ ہے اور نئے کالجوں کی تعداد میں کوئی خاص اضافہ دیکھنے میں نہیں آرہا جبکہ ہر سال پاس ہونے والے طلبہ کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ ان سیٹوں کے برعکس لاہور بورڈ میں گریڈ اے پلس کی تعداد21ہزار122بنتی ہے اور ان اچھے نمبرز حاصل کرنے والوں کے لئے بھی سرکاری کالجز کے اندر سیٹیں موجود نہیں ہیں دوسری جانب سرکاری کالجز میں گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کے علاوہ اچھے نمبر حاصل کرنے والے طلبہ کے لئے کوئی بہتر ادارہ موجود نہیں ہے۔لاہور ڈویژن کے اندر جس میں ننکانہ صاحب، شیخوپورہ، قصور اور ڈسٹرکٹ لاہور شامل ہے میں سرکاری کالجز کی تعداد89بتائی جاتی ہے اور ان کالجز سے اے اور اے پلس گریڈ کے طلبہ کی شدید خواہش ہوتی ہے کہ وہ لاہور کے سرکاری تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کریں اور اس طرح مذکورہ شہر تو دور کی بات پنجاب بھر کے نو تعلیمی بورڈز کے بچوں کی خواہش یہی ہوتی ہے کہ وہ بھی لاہور کے اعلی تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کریں مگر مذکورہ سیٹوں کی تعداد سے طلبہ مایوس نظر آرہے ہیں۔ اب اچھے نمبرز حاصل کرنے والے طلبہ تو نجی کالجز سے سکالر شپ حاصل کرکے فری تعلیم حاصل کرلیں گے مگر کم نمبرز حاصل کرنے والے طالب علم نجی کالجز میں فیس ادا نہ کرسکنے کے باعث تعلیم حاصل کرنے سے قاصر رہیں گے ایسے طلبہ کی تعداد بھی ہزاروں میں بتائی جاتی ہے اب غریب طالب علم ہائر ایجوکیشن حاصل کرنے کی بجائے فیکٹریوں میں مزدوری کی طرف راغب ہوں گے اس کی دو بڑی وجوہات سامنے آئی ہیں ،ایک ان کے میرٹ پر نمبرز نہیں ہیں دوسرا وہ نجی سیکٹر میں فیس ادا کرنے کے قابل نہیں ہیں ۔ان کے لئے محکمہ ہائریجوکیشن اور پنجاب گورنمنٹ نے ایسی کوئی پلاننگ نہ کی ہے جس سے ان طلبہ کو بھی اعلی تعلیم حاصل کرنے کے مواقع مل سکیں۔
جنرل پرویز مشرف کے دور میں گورنمنٹ کالج لاہور کو ،یونیورسٹی کا درجہ دینے اور اسے خود مختار ادارہ بنانے کے بعد طلبا کی فیسوں میں اضافہ کر دیا گیا۔ اس ناانصافی کے خلاف ملک کی اعلیٰ ترین شخصیات جن میں جناب ڈاکٹر مجید نظامی اور ایس ایم ظفر کے علاوہ ممتاز اولڈ راونیز کی ایک بڑی تعداد بھی شامل ہے، یہ مطالبہ کیا کہ فیسوں میں اضافہ نہ کیا جائے اس پر جی سی یو میں ایک انڈومنٹ فنڈ قائم کیا گیا اسی طرح جناب مجید نظامی نے ایک فنڈ قائم کیا جس کی طرف سے اولڈ راونیزایسوسی ایشن (شہباز احمد شیخ) کی مرتبہ فہرست کے مطابق طلباء کو وظائف ملتے تھے۔ اب یہاں طلباء داخلے کے لئے رجوع کرتے ہیں تو بعض احباب انہیں پنجاب گروپ آف کالجز کی طرف بھجوانے کی کوشش کرتے ہیں جہاں نمایاں پوزیشن حاصل کرنے والے طلباء کے لئے فیس معافی اور دیگر تمام سہولیات موجود ہیں۔ ہم توقع کرتے ہیں کہ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کے موجودہ وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر حسن امیر شاہ طلباء کی فیسوں میں کمی کرنے کے لئے اقدامات کریں گے۔
صوبائی دارالحکومت لاہور میں گزشتہ پندرہ بیس سالوں میں طالبات کے بہت سے کالجز قائم کئے گئے ہیں لیکن طلباء کے لئے نہ تو نئے کالجز قائم کئے گئے اور نہ ہی موجودہ کالجوں کی سہولیات میں اضافہ کیا گیا۔ گورنمنٹ ایف سی کالج کی امریکن چرچ کو واپسی کے بعد سرکاری شعبے میں گورنمنٹ کالج ٹاؤن شپ قائم کیا گیا جس کے اساتذہ نے اب بھی درس و تدریس اور نظم و ضبط کا اعلیٰ معیار قائم کر رکھا ہے اسی طرح گورنمنٹ فزیکل ایجوکیشن کالج کو گورنمنٹ کالج گلبرگ بنا دیا گیا اس کالج کی عمارت میں توسیع ہو چکی ہے اور سٹاف میں بھی کافی اضافہ ہوا ہے ۔پرنسپل پروفیسر شفقت رسول اس ادارے میں اعلیٰ روایات اور نظام و ضبط قائم رکھنے میں کوشاں رہتے ہیں۔ اس مرتبہ میٹرک کے نتائج میں ایسے طلباء و طالبات نے پوزیشنز حاصل کیں جن کے والدین کے مالی حالات اچھے نہیں تھے۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے ان طلباء و طالبات کے تعلیمی اخراجات کے لئے پنجاب ایجوکیشن انڈومنٹ فنڈ (PEEF) کو ہدایت کی ہے کہ وہ ان کی کارکردگی کے مطابق ان کی اعلیٰ تعلیم کے اخراجات برداشت کریں۔
رواں سال میں پنجاب گروپ آف کالجز کی طرف سے اے پلس (+P) اور اے (A) گریڈ حاصل کرنے والے طلباء و طالبات کو مفت تعلیم مہیاکرنے کا اعلان کیا گیا ہے بلکہ ان طلباء کو طالبات کو بیرون ملک تعلیم دلانے کا بھی اہتمام کیا جائے گا۔ اسی طرح پاکستان ریڈ کراس نے نمایاں پوزیشن اور اچھے نمبر حاصل کرنے والے طلباء و طالبات کو ایف اے اور ایف ایس سی میں تعلیم کے علاوہ خصوصی سکالرشپ اور بیرون ملک اعلیٰ تعلیم دلوانے کا بھی اعلان کیا ہے۔ ریڈ کریسنٹ سکالر کالج میں اے اور اے پلس گریڈ حاصل کرنے والے طلبہ و طالبات کو داخلے سمیت تمام تر تعلیمی سہولیات مفت فراہم کی جائیں گی۔
ضرورت ہے کہ فروغ تعلیم کے لئے اٹھائے گئے اقدامات کو مزید بہتر بنانے کے لئے سرکاری کالجوں کے پرنسپل صاحبان اور اساتذہ کرام ایک مشینری جذبے سے کام کریں اور قوم کے نونہالوں کی کردار سازی اور کیرئیر پلاننگ کے ساتھ ساتھ ان کی تعلیمی مشکلات کو بھی پوری لگن اور محنت کے دور کریں۔ بدقسمتی سے سرکاری کالجوں کے بعض مضامین کے اساتذہ کرام نہ صرف پرائیویٹ اکیڈمیوں میں پڑھاتے ہیں بلکہ انہوں نے اپنے اعزہ و اقارب کے نام پر ان اکیڈمیوں کے فرنچائز بھی خرید رکھے ہیں۔ ایک طرف جہاں حکومت پنجاب فروغ تعلیم کے لئے اقدامات کر رہی ہے تو دوسری طرف تعلیم کو تجارت بنانے والا مافیا اپنی تجوریاں بھر رہا ہے اور اپنے بینک بیلنس میں اضافہ کر رہا ہے۔ اس سلسلے میں حکومت پنجاب کی توجہ کے لئے ہم کچھ تجاویز تعلیمی ایڈیشن کے آئندہ شماروں میں پیش کریں گے۔
تعلیمی شعبے میں سہولیات کے لئے منصوبہ بندی کی بے پناہ ضرورت ہے اسی طرح پرنسپل صاحبان اور اساتذہ کو دوران ملازمت ٹریننگ اور ریفریشر کورسز کے ذریعے درس و تدریس کے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لئے تعلیمی شعبے میں سیاسی مداخلت کا خاتمہ کرنا ہوگا اور تمام تقرر و تبادلے میرٹ، سینارٹی اور اہلیت کی بنیاد پر کرنا ہوں گے۔
تعلیمی شعبے میں داخلوں کی میرٹ پالیسی جو 1986ء میں نافذ کی گئی تھی اس کا کریڈٹ میاں محمد نوازشریف اور میاں شہباز شریف کی حکومت کو جاتا ہے۔ اس پالیسی پر اب تک کامیابی سے عملدرآمد ہو رہا ہے۔
تعلیمی شعبے کی مزید ٹرانسپرنسی اور اسے شفاف بنانے کے لئے ہمیں مزید اقدامات کرنا ہوں گے جن پر آئندہ شماروں میں تجاویز شامل کی جائیں گی۔

مزید :

ایڈیشن 2 -