شریعت کورٹ کی جج اشرف جہاں جمالی کی تعیناتی لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج
لاہور(نامہ نگار خصوصی )چیف جسٹس پاکستان انور ظہیر جمالی کی اہلیہ اور شریعت کورٹ کی جج اشرف جہاں جمالی کی تعیناتی کو لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کر دیا گیاہے۔یہ آئینی درخواست مولوی اقبال حیدر فواد مسعود چوہان اور شیخ ناصر ایڈووکیٹس کی طرف سے دائر کی گئی ہے جس میںآئینی نکتہ اٹھاتے ہوئے موقف اختیار کیا گیا ہے کہ چیف جسٹس پاکستان کی اہلیہ اشرف جہاں جمالی کو سندھ کی چار خاتون سیشن ججز کی سنیارٹی کو نظرانداز کرتے ہوئے 30اگست 2013ء کو سندھ ہائیکورٹ کا ایڈیشنل جج تعینات کیا گیا اور چند ماہ بعد جسٹس اشرف جہاں جمالی کا تبادلہ کر کے انہیں وفاقی شریعت عدالت کا جج تعینات کر دیا گیا اور اس اقدام کے لئے پارلیمانی کمیٹی برائے ججز کے روبرو پیش بھی نہیں کیا گیا، درخواست میں کہا گیا ہے کہ یکم ستمبر کو 2014ء کو صدر مملکت نے جسٹس اشرف جہاں جمالی کی بطور سندھ ہائیکورٹ جج تعیناتی میں ایک سال کی توسیع کا نوٹیفکیشن جاری کیا جبکہ اس وقت اشرف جہاں جمالی شریعت کورٹ میں فرائض سرانجام دے رہی تھیں، درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ 31اکتوبر 2014ء کو جسٹس اشرف جہاں جمالی کو واپس سندھ ہائیکورٹ کا ایڈیشنل جج لگا دیا گیا اور یہیں پر 26اگست 2015ء کو جسٹس اشرف جہاں جمالی کی بطور مستقل جج سندھ ہائیکورٹ کی تعیناتی کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا، مستقل ہونے کے بعد 28اگست 2015ء کو جسٹس اشرف جہاں جمالی کو دوبارہ شریعت کورٹ کی جج تعینات کر دیا گیا، درخواست میں کہا گیا ہے کہ اشرف جہاں جمالی کی بطور جج شریعت کورٹ تعیناتی آئین کے آرٹیکل 203کی خلاف ورزی ہے، آئین کے آرٹیکل 203میں شریعت کورٹ کے جج کی تعیناتی کا طریقہ ہائیکورٹ کے ججز کی تعیناتی کے طریقہ کار سے مختلف ہے لیکن اس کے باوجودہ چیف جسٹس پاکستان مسٹر جسٹس انور ظہیر جمالی نے اپنا اثر رسوخ استعمال کرتے ہوئے اپنی اہلیہ کو غیرآئینی طریقہ سے شریعت کورٹ کا جج بنوایا، درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ جسٹس اشرف جہاں جمالی کی تعیناتی کو غیرآئینی قرار دیا جائے۔