آج اگر انڈو چائنا وار چھڑ جائے؟ (2)
جہاں تک میں نے انڈین ملٹری ہسٹری کا مطالعہ کیا ہے اس کے تناظر میں کہا جا سکتا ہے کہ انڈیا، چین کے ساتھ کسی بھی جنگ (War)، لڑائی (Battle) یا جھڑپ (Skirmish)کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ وہ گزشتہ 73برسوں میں پاکستان کے ساتھ ہی دوبدو ہوتا رہا ہے۔ میں نے اپنے گزشتہ کسی کالم میں بھی یہ عرض کیا تھا کہ انڈو پاک ملٹری تقابل میں جو نسبت ہے وہی نسبت انڈو چائنا ملٹری تقابل میں بھی ہے لیکن اس کے ساتھ یہ مساوات معکوس ہے۔ جس طرح پاکستان، انڈیا سے تگنا کمزور ہے اسی طرح چین، انڈیا سے تگنا طاقتور ہے اور ہندو کمزور کو تو آنکھیں دکھاتا ہے لیکن طاقتور کے سامنے یا تو آنکھیں جھکا لیتا ہے یا آنکھیں چرا لیتا ہے!
جہاں تک جوہری اہلیت کا تعلق ہے تو جس طرح انڈیا اور پاکستان دونوں جوہری اور میزائل قوتیں ہیں اسی طرح چین اور انڈیا بھی دونوں جوہری اور میزائلی قوتیں ہیں۔ جوہری فیلڈ میں جوہری وارہیڈز کی تعداد کا تقابل بے معنی ہے۔ اگر کسی ملک کے پاس 8،10 جوہری بم بھی ہیں تو وہ باہمی خودکشی کے لئے کافی ہیں۔
گزشتہ پون صدی (1945ء تا 2020ء) نے یہ ثابت کیا ہے کہ جوہری اہلیت فقط ڈیٹرنس ہے، اس کا استعمال ناقابلِ تصور ہے۔ انڈیا نے 1999ء میں کارگل کی لڑائی میں جوہری آپشن کا سوچا تک نہیں تھا۔ لیکن گزشتہ برس 26اور 27فروری کی شب انڈیا نے بالاکوٹ پر جو فضائی حملہ کیا تھا وہ نہ صرف مودی بلکہ مودی کی ساری ملٹری قیادت کے ذہنی افلاس کا ثبوت تھا۔ اگر 27فروری کو ابھی نندن کا طیارہ پاکستان نہ گرا لیتا اور اس کو گرفتار نہ کر لیتا تو پاک بھارت ٹیکٹیکل نیوکلیئر ویپن وار کے امکانات نوشتہ ء دیوار تھے۔ ہمارے وزیراعظم نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں جا کر بھی ساری دنیا کو اسی خطرے سے خبردار کیا تھا۔ لیکن وہ (مغربی) دنیا تو چاہتی تھی کہ یہ دونوں نیو کلیئر ملک اوورآل جنگ کی طرف جائیں تاکہ آنے والے عشروں میں ان کی تعمیرِ نو کی شکل میں اپنے جوہری اور غیر جوہری ترکش کی تزئین و آرائش کا سلسلہ جاری رکھا جا سکے۔
مودی حکومت نے گزشتہ برس 26فروری کے واقعہ سے کوئی سبق نہ لیا اور 6ماہ بعد 5اگست کو جموں و کشمیر کا خصوصی آئینی سٹیٹس ختم کرکے اس کو اپنے یونین علاقوں کی مین سٹریم میں شامل کر لیا۔ پاکستان چیختا رہا لیکن انڈیا نے اس پر کوئی کان نہ دھرا۔ دوسری طرف چین نے چیخنے کی بجائے انڈیا کو صرف ’ایک بار‘ خبردار کیا کہ لداخ کا علاقہ متنازعہ ہے لیکن مودی نے اس پر کوئی توجہ نہ دی۔ ناچار چین کو (15جون کو) انڈین آرمی کے 20سپوتوں کی لاشیں بھارتی حکومت کے حوالے کرنا پڑیں اور دو روز بعد 10مزید زندہ قیدی بھی واپس کئے جن میں انڈین آرمی کے کمیشنڈ آفیسر بھی تھے۔ تب سے لے کر اب تک انڈیا، چین کے ایک بیان کو بار بار انٹرنیشنل میڈیا پر کوٹ کئے چلا جا رہا ہے کہ بھارتی سینا نے بھی PLA کے کئی آفیسرز اور جوان مار ڈالے تھے۔ واقفانِ حال جانتے ہیں کہ چین نے اپنے ٹروپس کے زخمی یا لاپتہ یا ہلاک ہونے کا ڈرامہ کیوں رچایا تھا۔ لہٰذا میرے نزدیک یہ سوال ہی درست نہیں کہ آج انڈوچائنا وار چھڑ سکتی ہے یا نہیں …… ہاں 15جون 2020ء سے پہلے انڈو پاک وار چھڑ سکتی تھی لیکن اب وہ بھی نہیں چھڑ سکتی۔
انڈیا کو معلوم ہو چکا ہے کہ چین نے لداخ میں وادیء گلوان پر جوابی حملہ کیوں کیا تھا اور جھیل پاگونگ میں فنگر 4سے آگے فنگر8تک کسی انڈین پٹرول کو آگے بڑھنے سے کیوں روکا تھا۔
انڈیا نے مشرقی لداخ کے علاقے میں سڑکوں کا جال بچھانے کی کوشش کی اور ایک بڑی سڑک تو لیح (Leh) سے دولت بیگ اولدی تک بچھا دی۔ آس پاس کے علاقے میں چند ائر فیلڈز بھی بنا دیئے جن پر سے بڑے ٹرانسپورٹ طیارے آپریٹ کر سکتے تھے۔ چین ان بھارتی حرکات کو چپ چاپ دیکھتا رہا۔ اسے معلوم تھا کہ یہ سڑکیں اور ائر فیلڈز تبت پر حملے کے لئے نہیں بنائی جا رہیں بلکہ ان کا مقصد درۂ قراقرم سے سکردو اور وہاں سے قراقرم ہائی وے (KKH) کو زیر خطر لانا ہے۔ امریکہ بھی انڈیا کو شہ دے رہا تھا لیکن اس کے مقاصد تو تاجرانہ تھے۔ وہ چاہتا تھا کہ انڈیا، امریکہ سے ایسے طیارے، ٹینک اور توپیں خریدے جو براہِ راست پاکستانی شمالی علاقوں کو کاٹنے کا کام کر سکیں۔
اس کے لئے امریکی C-17، C-1305 اور چنوک ہیلی کاپٹر ”حاضر“ تھے۔ لیکن مجھے حیرانی اس بات پر ہے کہ جب 26،27فروری 2019ء کو انڈین ملٹری کے ناخداؤں کو معلوم ہو گیا تھا کہ پاکستان بھارتی ہتھکنڈوں سے غافل نہیں تو پھر مودی سرکار نے یہ اقدامات کیوں اٹھائے؟…… 15جون کے بعد انڈیا نے بظاہر مشرقی لداخ میں ٹینکوں، ہیلی کاپٹروں، بکتر بند گاڑیوں، کوہستانی مارٹروں اور پہاڑی توپوں کی ایک بڑی تعداد لیح اور دولت بیگ اولدی میں جمع کرنی شروع کر دی۔ اس کا میڈیا دن رات یہ خبریں منظر عام پر لانے لگا کہ انڈیا، چین کے ساتھ گویا کسی بڑی لڑائی یا جنگ کی تیاریوں میں مصروف ہے۔ لیکن اس کی پبلک اتنی گاؤدی اور احمق نہیں کہ ان باتوں کو سمجھ نہ سکے۔ سوشل میڈیا پر ان بھارتی خبروں پر بھارتی عوام کے جو تبصرے آ رہے ہیں ان کو پڑھ کر دیکھیں۔ انہوں نے اپنے وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کی جو درگت بنائی ہے، چیف آف ڈیفنس سٹاف جنرل بپن راوت کی جو بے عزتی کی ہے اور نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر اجیت دوول کی جس طرح گوشمالی کی ہے، وہ بی جے پی کے کرتا دھرتاؤں کی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہے۔
فرانس میں بنے رافیل طیاروں کا نصف سکواڈرن ابھی کل (28جولائی) ہی انڈیا پہنچا ہے اور انڈین میڈیا نے منادی شروع کر دی ہے کہ ان کو فوری طور پر لداخ جانے کا حکم دے دیا گیا ہے، ان کے لئے گراؤنڈ سپورٹ ساز و سامان اور ہینگرز پہلے سے تیار کر رکھے ہیں اور یہ طیارے ایسے ہیں کہ ایک طرف مشرق میں تبت کے علاقے میں دور دور تک دیکھ سکتے ہیں اور دوسری طرف پاکستان میں گلگت، دیامیر بھاشا ڈیم اور چلاس تک کے علاقوں کی ’نگرانی‘کر سکتے ہیں …… یہ اور اس قسم کی خبروں کی نشر و اشاعت اور ترسیل و ترویج کا ایک سلسلہ ہے جو انڈین پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر پھیلایا جا رہا ہے۔ اگر آپ دی ہندو،NDTV، انڈیا ٹوڈے، زی نیوز، ہندوستان ٹائمز، کشمیر ٹائمز اوز ٹریبیون (انڈیا) کو دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے انڈیا لداخ کے علاقے میں جنگ کی بھرپور تیاریاں مکمل کر چکا ہے۔ ٹینکوں کی گھن گرج، طیاروں کی گونج اور توپوں کی فائرنگ انڈین میڈیا پر عام دکھائی اور سنائی جا رہی ہے۔ لیکن دوسری طرف چین بالکل خاموش ہے۔ البتہ کبھی کبھی گلوبل ٹائمز اور ساؤتھ چائنا مارننگ پوسٹ پر یہ خبریں نشر کی جاتی ہیں کہ چین تبت کے مشرقی علاقوں (لداخ سے دور) معمول کی جنگی مشقوں میں مصروف ہے۔ یہ مشقیں کوئی نئی بات نہیں اور نہ ہی چین، انڈیا سے کسی قسم کی مڈبھیڑ چاہتا ہے۔ اس کا ٹارگٹ انڈیا نہیں امریکہ ہے۔ امریکہ نے اپنے دو طیارہ بردار بیڑے مغربی بحرالکاہل میں (ساؤتھ چائنا سی) میں بھیج رکھے ہیں۔ چین ان کی مانیٹرنگ کی طرف متوجہ ہے۔
وہ لداخ میں اپنا کام مکمل کر چکا ہے۔ جہاں اس نے موسم سرما (اکتوبر تا مئی) گزارنا ہے وہاں پکے بنکر اور دوسری تنصیبات تعمیر کر چکا ہے۔ اسلحہ اور گولہ بارود بھی جمع کر چکا ہے۔ اگر لیح میں انڈیا کے دوچار ہوائی اڈے(ائر فیلڈز ہیں) تو چین کے تبت کے علاقے میں تو وسیع و عریض ہوائی مستقروں (Bases) کا جال بچھا ہوا ہے۔ انڈیا کو بھی ان تمام تیاریوں کا علم ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اگر ایسا ہے تو پھر انڈیا دن رات اپنی جنگی تیاروں کا ڈھنڈورا پیٹ کر کسے ڈرانا دھمکانا چاہتا ہے؟…… جہاں تک پبلک کھپت کا تعلق ہے تو یہ انڈیا کی ایک دیرینہ اور بچگانہ حرکت ہے۔
ایک زمانہ تھا ہم پاکستانی بھی یہی کیا کرتے تھے…… انڈیا کی طرف سے کسی حربی موبلٹی کی خبر جونہی ملتی تھی ہم پاکستانی میڈیا پر جنگی ترانے بجانا شروع کر دیتے تھے۔ ہمارے نام نہاد ”دانشور“ جہاد بالقتال کی دہائیاں دینے لگتے تھے اور مولانا حضرات باقاعدہ قرآنی آیات، احادیث اور تاریخِ اسلام سے مثالوں کا ایک لامتناہی سلسلہ صبح و شام شروع فرما دیا کرتے تھے۔ اسی کیفیت کو ”تھوتھا چنا باجے گھنا“ کی ضرب المثل میں واضح کیا گیا ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ وہ دور اب ختم ہو گیا ہے……
اگر آپ کسی دشمن سے جنگ کرنا چاہتے ہیں تو پوشیدگی اور اخفاء پیشگی شرائط ہیں۔ ابلاغیات کے اس متعددی دور میں جو کچھ کرنا ہے وہ منہ پر ’ماسک‘ چڑھا کر اور ’فاصلہ‘ رکھ کر کیجئے! (ختم شد)