جماعت اسلامی کا چھکا
جماعت اسلامی کے بارے میں میرا ہمیشہ سے یہ تاثر رہا ہے کہ کسی بھی اننگ کا آغاز اچھا کرتی ہے، لیکن آخر میں کلین سویپ کئے بغیر آؤٹ ہو جاتی ہے۔جب قاضی حسین احمد امیر جماعت بنے تھے تو وہ اسے کہاں سے کہاں لے گئے تھے مگر اس کے باوجود عوامی سطح پر جماعت اسلامی کوئی بڑا بریک تھرو نہیں کر سکی تھی۔ سراج الحق اگرچہ بہت متحرک رہے تاہم جماعت اسلامی کی واضح سمت کا تعین نہ ہونے کی وجہ سے وہ بھی دو انتخابات میں جماعت کو اتنی بھی کامیابی دلانے میں ناکام رہے جس کا ذکر ہی کیا جا سکے۔اب آتے ہیں حافظ نعیم الرحمن،اُن کا کراچی کے حوالے سے پس منظر بتاتاہے وہ عملی جدوجہد کرنے وال آدمی ہیں،مگر کیا وہ جماعت اسلامی کو تِنگنائے سے نکال کر سمندر میں لا سکیں گے؟ایک عام خیال یہ ہے جماعت اسلامی اپنے ہدف کا تعین تو کر لیتی ہے،اُس کے لئے حکمت عملی نہیں بناتی۔ جماعت اسلامی تن تنہا کوئی بڑی تبدیلی نہیں لا سکتی،اُسے اپنی ہم خیال جماعتوں سے اتحاد و تعاون کی ضرورت پڑے گی، مگر پچھلے چند برسوں سے جماعت اسلامی تنہا پرواز کے موڈ میں نظر آتی ہے،جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اس وقت اسمبلیوں میں جماعت اسلامی کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے،مگر اس کے باوجود حیرت انگیز بات ہے،اِس وقت ملک میں جماعت اسلامی کا ڈنکا بج رہا ہے۔وہ لوگ بھی جو کبھی جماعت اسلامی کے ساتھ نہیں رہے،اس دور میں اُس کی حمایت کر رہے ہیں۔ اسے حافظ نعیم الرحمن کی حکمت عملی قرار دیا جا سکتا ہے کہ انہوں نے ایک ایسے وقت میں اسلام آباد کی طرف مارچ اور دھرنے کی کال دی جب عوام کا بجلی کے بلوں اور مہنگائی کی وجہ سے بُرا حال ہو چکا ہے۔پورے منظر نامے پر دوسری کوئی جماعت نہیں جو خالصتاً بجلی کے بلوں،آئی پی پیز معاہدوں اور بیروز گاری کے خلاف اس طرح احتجاج کر رہی ہو،جیسے جماعت اسلامی کر رہی ہے۔یہی وجہ ہے سیاسی وابستگی سے بالاتر ہو کر عوام جماعت اسلامی کے لیاقت باغ راولپنڈی میں دھرنے کی حمایت کر رہے ہیں۔حافظ نعیم الرحمن کارکنوں اور لوگوں میں بیٹھ کے اُن کا حوصلہ بڑھا رہے ہیں،مجھے کل جماعت اسلامی کے ایک رہنماء نے فون کر کے کہا حافظ نعیم الرحمن اور جماعت اسلامی عام آدمی کی جنگ لڑ رہے ہیں،آپ کو اُن کی حمایت ضرور کرنی چاہئے۔میں نے اُنہیں کہا آج کل کون ہے جو جماعت اسلامی کی اس حوالے سے حمایت نہیں کرے گا۔میں نے انہیں بتایا مسلم لیگ(ن) کے حامی بھی بجلی بلوں اور آئی پی پیز کے معاملے پر جماعت اسلامی کے امن احتجاج کی حمایت کر رہے ہیں۔میں نے کہا بس ضرورت اس بات کی ہے،جماعت اسلامی اس مرتبہ اپنے احتجاج کو نتیجہ خیز بنائے، کسی وعدہئ فردا کے سہارے اپنا دھرناختم نہ کرے،جب تک بڑے مطالبات مان نہیں لئے جاتے اپنا احتجاج جاری رکھے۔ انہوں نے کہا یہی ہو گا اور حافظ نعیم الرحمن بالکل اس بات پر پُرعزم ہیں کہ مطالبات منوائے بغیر واپس نہیں جائیں گے۔
جماعت اسلامی نے لوہا گرم دیکھ کر ضرب لگائی ہے اس وقت پوری قوم مہنگی، بجلی، سلیب سسٹم اور مہنگائی کے ہاتھوں زچ ہو چکی ہے۔دوسری طرف سیاسی جماعتوں سے بددل ہے۔پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن) تو حکومت میں ہونے کی وجہ سے اس معاملے میں لائن کے دوسری طرف ہیں جہاں تک تحریک انصاف کا معاملہ ہے تو وہ صرف اپنی سیٹوں اور عمران خان کی رہائی میں الجھی ہوئی ہے،حالانکہ وہ اپنی توجہ مہنگائی اور بجلی کے بلوں پر دیتی تو آج عوام زیادہ اُس سے متاثر ہوتے۔اس خلاء کو جماعت اسلامی نے بڑی مہارت سے پرکیا ہے۔آج ہر کوئی اِس حقیقت کو تسلیم کر رہا ہے کہ حافظ نعیم الرحمن کسی اور کی نہیں،عوام کی جنگ لڑ رہے ہیں۔رفتہ رفتہ یہ تاثر بھی دور ہو رہا ہے کہ جماعت اسلامی کا احتجاج فرینڈلی ہے اور چند روز کے بعد بلا نتیجہ خیز ختم ہو جائے گا۔ جماعت اسلامی سے رابطے کے لئے جو کمیٹی بنائی گئی اس میں مسلم لیگ (ن) یا حکومت کے بڑے نام نظر نہیں آئے۔سوال یہ ہے یہ کمیٹی کتنی با اختیار ہے۔ جماعت اسلامی نے جو دس مطالبات پیش کئے ہیں،وہ کسی چھوٹی موٹی حکومتی کمیٹی کے بس کا روگ نہیں اِس کے لئے اعلیٰ سطحی بااختیار کمیٹی بنانی ہو گی، مثلاً ان دس مطابات میں سب سے اہم مطالبہ یہ ہے کہ ا ٓئی پی پیز کو کیپسٹی چاجز اور ڈالروں میں ادائیگی بند کی جائے،اگرچہ یہ اُس مطالبے کے مقابلے میں ایک کمتر مطالبہ ہے،جو آج کل عوامی مطالبہ بنا ہوا ہے کہ آئی پی پیز کے ساتھ معاہدے ختم کئے جائیں، تاہم اِس کے باوجود یہ مطالبات بہت اہم ہیں اور حکومت آسانی سے نہیں مانے گی۔ان مطالبات کا متبادل حکومت یہ پیش کرنا چاہتی ہے کہ مفت بجلی دینے کا سلسلہ بند کر دیا جائے، اگرچہ حکومت کے لئے یہ کام بھی آسان نہیں، کیونکہ اِس ملک کی اشرافیہ آسانی سے ایسا نہیں ہونے دے گی تاہم حکومت کی طرف سے ہی یہ خبر جاری کی گئی ہے کہ اس تجویز پر غور کیا جا رہا ہے اگر جماعت اسلامی صرف ایسی تجاویز کا سن کر اپنا دھرنا ختم کر دیتی ہے تو یہ بات نماز کے وقت وضو توڑنے کے مترادف ہو گی، اس معاملے پر بھی ایک تحریری معاہدے کی ضرورت ہے جس پر کوئی اور نہیں وزیراعظم شہباز شریف دستخط کریں۔ جماعت اسلامی پر فرینڈلی اپوزیشن کی چھاپ تو ہر دور میں لگتی رہی ہے۔اس بار بھی یہ چھاپ موجود ہے اور مبصرین اِس بات پر حیرانی کا اظہار کر رہے ہیں کہ ایک طرف تحریک انصاف کے صرف اعلان پرگرفتاریاں شروع ہو جاتی ہیں اور دوسری طرف جماعت اسلامی آزادانہ راولپنڈی میں دھرنا دیئے ہوئے ہے،حتیٰ کہ ڈپٹی کمشنر راولپنڈی نے میونسپل کارپوریشن کوایک چٹھی جاری کر کے یہ ہدایت کی ہے کہ دھرنے کے شرکاء کو ہر سہولت اور تحفظ فراہم کیا جائے۔
حافظ نعیم الرحمن نے جب سے جماعت اسلامی کی امارت سنبھالی ہے یہ غالباً اُن کا پہلا بڑا امتحان ہے۔وہ اس امتحان میں اس حد تک تو کامیاب رہے ہیں کہ انہوں نے ایک ایشو کو لے کر پوری قوم کو اپنی طرف متوجہ کر لیا ہے۔وہ ایک بڑا دھرنا دینے میں بھی کامیاب رہے ہیں،اگرچہ انہیں ڈی چوک نہیں جانے دیا گیا تاہم اس کے باوجود اُن کے دھرنے نے راولپنڈی سے اسلام آباد داخل ہونے والوں کے لئے خاصی مشکلات کھڑی کر رکھی ہیں۔ظاہر ہے حکومت اِس صورتحال کو زیادہ تر برقرار نہیں رکھ سکتی۔اُس کی کوشش ہو گی جماعت اسلامی اپنا شو وائنڈ اپ کر کے چلی جائے اور بعد میں مذاکرات ہوتے رہیں۔یہاں یہ امر بھی پیش نظر رہنا چاہئے کہ اِس بار اگر جماعت اسلامی کا یہ شو ناکام ہو گیا،یعنی اُس کا کوئی مطالبہ تسلیم نہ کیا گیا اور دھرنا بھی ختم ہو گیا تو پھر بجلی بلوں کے مسئلے پر ایک لمبے عرصے تک کوئی آواز بلند نہیں ہو سکے گی۔اگر تو واقعی اندر خانے کوئی ڈیل نہیں اور جماعت اسلامی اسٹیبلشمنٹ کے لئے تحریک انصاف کے خلاف سہولت کاری کا کوئی کردار ادا نہیں کر رہی تو پھر جماعت اسلامی کا دھرنا کچھ لئے بغیر،کوئی بڑا مطالبہ منظور کئے بنا ختم نہیں ہو گا۔ جماعت اسلامی کے لئے یہ بڑا اچھا موقع ہے کہ وہ صحیح معنوں میں قوم کی آواز بن جائے۔عوام کو ریلیف دلانے میں اگر اب 50 فیصد کامیابی بھی ملی ہے تو یہ سیاسی حوالے سے اُس کے لئے بہت بڑا چھکا ثابت ہو گا جس کے بعد حافظ نعیم الرحمن کی شخصیت متبادل قیادت کے لئے عوام میں جگہ بنائے گی۔ میدان سجا ہوا ہے، نتیجے کا انتظار ہے۔
٭٭٭٭٭
