پاک۔ روس ریل لنک اَپ
تین روز قبل (26جولائی) بعض اخباروں میں یہ خبر شائع ہوئی کہ ”پاکستان“ روس کے ساتھ ریل لنک قائم کرنے کے پلان بنا رہا ہے۔اس کے ساتھ جو ’ڈیک‘ شائع ہوا وہ بھی حیران کن تھا جس میں کہا گیا تھا کہ پاکستان ایک سٹرٹیجک اہمیت کا روڈ میپ بھی بنانے کا ارادہ رکھتا ہے۔یہ ایک محفوظ تجارتی راہداری ہو گی جس میں بین الاقوامی پابندیوں سے گریز کی راہ نکالی جائے گی۔
یہ خبر پڑھ کر میرے ذہن میں جو چند سوال اُبھرے وہ یہ تھے:
(1) اس ریل لنک کا روٹ کیا ہو گا؟
(2) کیا امریکہ، پاکستان کو ایسا کرنے کی اجازت دے دے گا؟
(3) CPEC کا مسئلہ پہلے ہی اتنا اُلجھا ہوا ہے کہ اس نے بین الاقوامی سیاسی منظر نامے کو تبدیل کر کے رکھ دیا ہے۔خنجراب کے راستے گوادر اور پھر وہاں سے دنیا کے دوسرے ممالک تک بحری تجارت کی آمدورفت ایک ایسا موضوع ہے جس پر کئی برسوں سے غور و خوض کیا جا رہا ہے اور گلوبل کشیدگی میں اضافہ ہو رہا ہے۔کیا ایسے میں چین ا س ریل لنک پر اعتراض کی انگلیاں نہیں اٹھائے گا؟
(4) روس اور چین دونوں سٹرٹیجک پارٹنرز (Parters) ہیں۔ دونوں کا مشترکہ حریف ایک ہی ہے۔ اگر پاکستان نے روس تک ریل لے جانی ہے یا روس نے پاکستان میں بذریعہ ریل آنا اور تجارت کرنا ہے تو اس کے لئے پاکستان میں حویلیاں تک تو پہلے ہی ریل موجود ہے۔حویلیاں سے خنجراب تک براستہ گلگت ریل کی پٹڑی بچھائی جا سکتی ہے اور پھر وہاں سے روس کتنا دور رہ جائے گا؟
(5) کیا پاکستان،امریکہ کو ناراض کرنے کا متحمل ہو سکتا ہے؟ اس ناراضگی نے پہلے ہی ”سائفر“ کی شکل میں ایک تنازعہ کھڑا کیا ہوا ہے۔ فروری 2022ء کے تیسرے ہفتے میں اُس وقت کے وزیراعظم پاکستان نے جو ماسکو کا دورہ کیا تھا، اس کا خمیازہ وہ آج تک بھگت رہا ہے۔کیا اس ریل لنک کے قیام کی خبر سے موجودہ پاکستانی سیاسی فضاء میں ایک اور ہلچل پیدا نہیں ہو گی؟
اس طرح کے بہت سے سوال میرے ذہن کے دروازوں پر دستک دینے لگے۔میں نے اس خبر کی مزید تفصیل جاننے کی کوشش کی تو اس میں لکھا تھا:
”پاکستان نے فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ روس کے ساتھ ایک سٹرٹیجک روڈ میپ قائم کرے گا اور دونوں اقوام (روس اور پاکستان) کو ریل کے ذریعے ایک دوسرے سے پیوست کر دے گا۔اور ایک ایسا محفوظ تجارتی راستہ بھی تلاش کرے گا جو امریکی پابندیوں سے پہلو تہی کرے گا۔بتایا جاتا ہے کہ پاکستان اس سلسلے میں ایک سہ شاخہ (Three-prenged) سٹرٹیجی ترتیب دے رہا ہے جس میں اول ”گورنمنٹ تا گورنمنٹ“، فریم ورک اور پراجیکٹ ہوں گے، پھر ”بزنس تا بزنس“ کو آپریشن شامل ہو گا تاکہ تجارت اور سرمایہ کاری کا راستہ کھولا جائے اور پھر ایک ایسا تیسرا میکانزم تشکیل دیا جائے گا جس میں محفوظ تجارتی اور کاروباری آپریشنوں کا تعاون شامل ہو گا…… پاکستان کی وزارتِ خارجہ نے اس کی تائید کر دی ہے۔“
دوسرے لفظوں میں کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان اِس منصوبے پر یکایک عمل پیرا نہیں ہو رہا بلکہ ایک طویل عرصے سے اس پر کام ہو رہا ہے(طویل عرصے سے میری مراد چند عشرے نہیں بلکہ چند مہینے ہیں)۔
یہ بات سمجھ میں آنے والی ہے کہ آئی ایم ایف کا شکنجہ ایک عرصے سے پاکستان کے لئے ”گلو افشار“ بنا ہوا ہے۔اس گلو افشاری کے اثرات پاکستانی عوام پر جو پڑ رہے ہیں،اس سے پوری پاکستانی معیشت ڈانواں ڈول ہو چکی ہے۔ مہنگائی اور بے روز گاری کا ایک طوفانِ بدتمیزی مچا ہوا ہے۔گزشتہ دو سالوں میں ملک کا لکھا پڑھا نوجوان طبقہ بیرونی ممالک کا رخ کر رہا ہے۔یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ اب تک کتنے ہزار نوجوان نو کریوں کی تلاش میں باہر جا چکے ہیں اور جو بچے کھچے رہ گئے ہیں وہ دن رات کوشش میں ہیں۔ وزارتِ خارجہ کے دفاتر کے سامنے نوجوانوں کے ٹھٹ کے ٹھٹ لگے اخباروں کی زینت بن رہے ہیں۔
امریکہ اور چین سے پاکستان کو جو امیدیں تھیں وہ بَر نہیں آ رہیں۔ان کی شرائط پاکستان کی موجودہ سیاسی فضاء میں ناقابل ِ قبول بتائی جا رہی ہیں۔اس موضوع پر ایک طویل عرصے سے میڈیا پر نقد و نظر کیا جا رہا ہے لیکن پاکستان کی بگڑی بات کے سنورنے کے امکانات بہت کم ہیں۔
اگر پاکستان اور روس کے درمیان کوئی ریل لنک قائم بھی ہوتا ہے تو اس کے لئے کم از کم کئی عشرے تو درکار ہوں گے…… اور جب تک عراق سے تریاق آئے گا،مار گزیدہ مر چکا ہو گا!……اس خبر میں آگے چل کر بتایا گیا ہے:
”سٹیٹ بینک آف پاکستان نے خبردار کیا ہے کہ روسی کمپنیوں اور تجارتی اداروں کے ساتھ کاروبار کرنے پر پہلے ہی پابندیاں عائد ہیں اور اگر اب اس سلسلے میں کوئی پیش رفت کی بھی جاتی ہے تو پاکستان کے چیلنجوں میں اضافہ ہو جائے گا۔کئی دوسرے ممالک مثلاً ترکی، روس سے جو تجارت کر رہے ہیں، وہ مقامی کرنسی میں کر رہے ہیں۔“
جیسا کہ آغاز کی سطور میں سوال کیا گیا تھا کہ اگر پاکستان اور روس کے درمیان ریل کا رابطہ قائم کرنا ہے تو اس کے لئے کون سا روٹ ہو گا۔پاکستان ریلوے کے سیکرٹری نے درج ذیل تین راستوں (Routes) کی طرف اشارہ کیا ہے:
(1) کوئٹہ۔ تفتان ریلوے نیٹ ورک کو اپ گریڈ کرنا۔اس پر ابھی حال ہی میں (جون2024ء) ایک یاداشت (Mou) پر دستخط ہو چکے ہیں۔اسی ماہ اس پر مزید گفت و شنید ہو گی۔
(2) کوہاٹ۔خرلاچی ریل نیٹ ورک کو ڈویلپ کرنا جو افغانستان سے ہوتا ہوا، وسط ایشیائی ریاستوں تک جائے گا اور پھر وہاں سے روس پہنچے گا۔
(3) ریکوڈک (بلوچستان) سے گوادر اور پھر وہاں سے آذربائیجان اور روس تک پہنچنا۔
یہ تینوں روٹ میری نظر میں دیوانے کا خواب ہیں۔ہاں اگر کوئی مغربی ملک (یا چین یا جاپان) ہوتا تو شاید وہ ایک دو عشروں میں یہ کام کر سکتے۔لیکن پاکستان ریلوے تو ان تینوں روٹوں کو وسعت دینے یا ان کو تعمیری مراحل سے گزارنے کا سہانا سپنا نہیں دیکھ سکتی۔ اسی خبر میں آگے چل کر یہ بھی بتایا گیا ہے کہ:
”وزیر پلاننگ اور ڈویلپمنٹ جناب احسن اقبال نے روس کو برآمدات بڑھانے کے بہت سے منصوبوں پر اظہار خیال کیا۔“دیکھیں یہ منصوبہ خیال سے نکل کر عمل کی طرف کب گامزن ہوتا ہے۔جناب احسن اقبال کوCPEC کی ڈویلپمنٹ کی دشواریوں کا خاصا تجربہ ہے۔اس تجربے میں کئی تلخ اور ترش مقامات بھی آتے رہے ہیں لیکن شیریں مقامات بہت کم تھے۔CPEC نے ابھی تک پاکستان ریلوے کی اَپ گریڈیشن کی طرف بھی وہ توجہ نہیں دی کہ جو ایک عرصے سے معرضِ التواء میں چلی آ رہی ہے۔ حال ہی میں اس منصوبے کے بارے میں ”خوشگوار“ خبریں بھی پڑھنے کو ملتی رہی ہیں۔کہا جا رہا ہے اس کا پہلا مرحلہ کراچی سے شروع ہو کر ملتان تک جائے گا اور پھر دوسرا ملتان سے براستہ لاہور، پشاور تک جائے گا۔
برطانیہ کو یہ شرف حاصل تھا کہ اس نے ہماری لیبر کو کام میں لا کر برصغیر میں ریلوں کا جال بچھا دیا۔ انڈین ریلوے کی ترقی و توسیع ایک بالکل دوسرا موضوع ہے۔وہاں سے جو خبریں آتی ہیں وہ تلخ نہیں ہوتیں لیکن ان میں بھی شیرینی کا پہلو کم کم نکلتا ہے۔ انگریز نے یہاں 90برس تک 1857)ء1947ء (کی قلیل مدت میں جو عظیم منصوبے تکمیل کو پہنچائے ان کو جان اور پڑھ کر حیرت ہوتی ہے۔ ہم پاکستانی اور قسم کے کاموں میں طاق ہیں …… تفصیل کیا عرض کروں۔
ہم سے تو اپنے سیاسی حالات ہی نہیں سنبھالے جا سکتے۔یہ پاکستان۔روس ریل لنک اپ کا منصوبہ شاید کسی مستقبل کے مستحکم پاکستان کا منصوبہ ہو جو 22ویں صدی میں پروان چڑھ جائے۔ اس صدی میں اس کی تکمیل اگر دیوانے کا خواب نہ بھی ہو تو سیانے کی عقلی رسائی سے ماوراء ایک سوچ گردانی جانی چاہئے۔
٭٭٭٭٭