لاہور پولیس کی غیر جانبدار تفتیش
پنجاب اسمبلی کے سامنے پی ٹی آئی کا بھوک ہڑتالی کیمپ جاری تھا کہ اس دوران مسلم لیگ (ن) کے کلچر ونگ کے صدر گاڑی سواراداکار طاہر انجم کے وہاں پر گزرنے کے دوران انیلہ ریاض کے ان پر حملہ آور ہونے،کپڑے پھاڑنے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے جس میں وہ شور شرابہ کرتے ہوئے اسے برا بھلا کہہ رہی تھیں اورخود بانی پی ٹی آئی کی ہمدردی حاصل کرنے کے لیے اس کے خلاف ویڈیو بنانے کا الزام لگارہی ہیں۔ایسے واقعات جہاں عوام کی بڑی دلچسپی کے حامل ہوتے ہیں وہاں پولیس کے لیے بھی کسی بڑی آزمائش سے کم نہیں ہوتے تاہم پولیس نے طاہرانجم کی درخواست پر تھانہ قلعہ گجرسنگھ میں مقدمہ درج کیا یہ مقدمہ انیلہ ریاض اور ان کے نامعلوم ساتھیوں کے خلاف درج کیا گیا اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حامی انیلہ ریاض گرفتار بھی ہوئیں۔لاہور پولیس کے سربراہ نے اس مقدمے میں انصاف اور قانون کو مدنظر رکھتے ہوئے میرٹ کو یقینی بنانے کی ہدایت کی جس پردوران تفتیش معلوم ہوا کہ پی ٹی آئی کارکن انیلہ ریاض اور لیگی کارکن طاہر انجم نے ذاتی مفاد کیلئے یہ ڈرامہ رچایاہے لیکن وہ دونوں یہ بات ماننے کو تیارنہ تھے۔تاہم سی سی پی او کی ہدایت پرلاہور پولیس نے انیلہ ریاض اور طاہر انجم کے موبائل فون کی سی ڈی آر حاصل کیں جس پر رابطے ثابت بھی ہوگئے۔پولیس نے وقوعہ کے متعلق طاہر انجم سے پو چھ گچھ کی تو وہ جھوٹ بولتے رہے تاہم کلوزسرکٹ فوٹیجز میں انیلا ریاض کو طاہر انجم کے گھر آتا دیکھا یا گیا تووہ سب کچھ مان گئے اور بتایا کہ دونوں نے وقوعہ سے پہلے مل کر منصوبہ بنایا ہے۔دوران تفتیش معلوم ہوا کہ انیلا ریاض طاہر انجم کے گھر سے رکشہ پر بیٹھ کر پنجاب اسمبلی آئی تھیں۔انیلہ ریاض اور طاہر انجم کے موبائل رابطوں اور کلوزسرکٹ فوٹیج کا ریکارڈ پولیس نے حاصل کیاتو پتہ چلا کہ انیلا ریاض پی ٹی آئی کی مخصوص نشست کی خواہش مند تھی جبکہ طاہر انجم مسلم لیگ ن میں اپنا گراف بہتر بنانا چاہتے تھے۔ لاہور پولیس کا کہنا ہے کہ ’نیلی پری‘ اور طاہر انجم کا واقعہ پلانٹڈ تھا۔ پولیس ذرائع کے مطابق واقعے سے قبل طاہر انجم اور انیلہ ریاض عرف نیلی پری کے درمیان ٹیلیفونک گفتگو بھی ہوئی اور وہ طاہر انجم کے گھر بھی گئی تھی۔اس میں کوئی شک نہیں کہ مقدمے کے اصل حقائق عوام کے سامنے لانے پر لاہور پولیس بالخصوص سی سی پی او لاہورمبارکباد کے مستحق ہیں۔شاہ جی فرماتے ہیں کہ ہماری موجودہ سیاست میں امانت، دیانت، صداقت اور شرافت کی گنجائش بہت کم رہ گئی ہے، شرم و حیا اور اصولوں کا دور لد گیا، تنقید برائے اصلاح ماضی کا قصہ بن کر رہ گئی ہے، اب مفادات کی سیاست رائج ہو چکی ہے جہاں مخالفت برائے مخالفت کے ذریعے سستی شہرت حاصل کرنے اور پارٹی قیادت کی نظروں میں نمایاں ہونے کا رواج بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ بحیثیت پاکستانی‘ جب ہم اپنے اردگرد سیاسی ماحول کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں اپنی سیاسی اقدار دم توڑتی دکھائی دیتی ہیں، جمہوری روایات ختم ہو رہی ہیں، سیاستدانوں کی اکثریت کو اس بات کی پروا نہیں کہ انہیں عوام نے کس مقصد کے لیے ووٹ دے کر منتخب کیا ہے بلکہ انہیں تو محض ذاتی مفادات کا تحفظ عزیز ہے۔ اچھے لوگ یقینا ہر جگہ اور ہر شعبے میں موجود ہوتے ہیں، سیاست میں بھی انتہائی ایماندار، محب وطن، فرض شناس، اعلیٰ تعلیم یافتہ، بااخلاق اور بے لوث افراد کی کمی نہیں لیکن اس وقت نظر آنے والے سیاستدانوں کی اکثریت ایسی ہے جس کا مقصد اور منزل صرف اقتدار کے ایوان ہیں، ان لوگوں کو ہر حال میں اور کسی بھی قیمت پر حکومتِ وقت میں اپنے لیے کوئی اہم عہدہ چاہئے ہوتا ہے۔ ایسے سیاست دانوں کے نظریات صرف اور صرف اپنی موجودہ جماعت کی مرکزی قیادت کی خوشنودی حاصل کرنے کے گرد ہی گھومتے ہیں۔ آج کل سیاسی منظر پر چھائے ایسے افراد کی اکثریت ہے جن کا کوئی نظریہ نہیں، کوئی منشور نہیں، کوئی سوچ یا سیاسی رائے نہیں، عوام جائے بھاڑ میں انہیں صرف اور صرف پروٹوکول چاہیے۔ انیلہ ریاض اورطاہر انجم بھی انہی میں سے ایک ہیں۔دیگر واقعات کی اگر بات کی جائے مسلم لیگ ن کی خواتین رہنماؤں نے وزیر اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری کی جعلی تصویر لگا کر ویڈیو وائرل کرنے کے واقعے کی مذمت کی ہے۔عظمیٰ بخاری نے یوٹیوبر کے خلاف وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے کو درخواست جمع کروادی ہے۔عظمیٰ بخاری نے اپنی درخواست میں مؤقف اختیار کیا کہ یوٹیوبرنے اپنے وی لاگ میں وزیر اعلیٰ پنجاب اور خواتین اینکرز کی کردار کشی کی ہے۔درخواست میں یوٹیوبر کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔اس طرح کے واقعات کی روک تھام کے لیے فوری اور سخت کارروائی ہونی بھی چاہیے۔جمعہ کے روزپی ٹی آئی اور جماعت اسلامی نے ملک بھر میں احتجاج کی کال دے رکھی تھی جماعت اسلامی کا یہ احتجاج آج بھی اسلام آباد میں جاری ہے جبکہ اس سے قبل تحریک لبیک نے بھی کئی روز تک وہاں دھرنا دیے رکھا۔احتجاج کرنے والوں کے خلاف مقدمات کی سمجھ تو آتی ہے جبکہ پی ٹی آئی کی رکن قومی اسمبلی میڈم زرتاج گل سمیت درجنوں کارکنوں کے خلاف احتجاج نہ کرنے کے باوجود مقدمات درج کرلینا پولیس کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔آئی جی پولیس پنجاب نے ڈی ایس پی سے ایس پی عہدے پر ترقی کے لیے 36ڈی ایس پیز کے نام طلب کرلیے ہیں۔ڈیپارٹمنٹل بورڈ کا اجلاس اگلے مہینے اگست میں ہونے کا امکان ہے۔ لاہور پولیس کے سربراہ بلال صدیق کمیانہ کی جانب سے ہر ہفتے ”کی پرفارمنس انڈیکیٹرز“پر پیش رفت کے جائذہ اجلاس کے پیش نظر ڈویڑنل افسران کی کارکردگی میں نمایاں بہتری آئی ہے جبکہ لاہور میں 15 کالذ ڈیٹا کے مطابق جرائم کی شرح میں نمایاں کمی بھی واقع ہوئی ہے۔ لاہور پولیس کے سربراہ نے تمام افسران کو اپنی کارکردگی میں مزید بہتری لانے اور ڈرگ مافیاز کے خاتمے کے لیے آرگنائزڈ کرائم یونٹ کی کاوشوں کو سراہا ہے۔سی سی پی او کی ذاتی کاوشوں سے آئی جی پولیس نے انہیں گاڑیوں کے لیے پٹرول کے لیے فنڈزبھی جاری کردئیے ہیں۔امید ہے کہ اس سے لاہور پولیس کی کارکردگی میں مزید اضافہ ہو گا۔