گھر کو کسی حد تک محفوظ بنا دیا لگ رہا تھا جیسے کھلے آسمان تلے آ بیٹھے ہیں،  اللہ نے دل سے لالچ ختم کیا، ساری رقم گاؤں کی مسجد میں جمع کروا دی

 گھر کو کسی حد تک محفوظ بنا دیا لگ رہا تھا جیسے کھلے آسمان تلے آ بیٹھے ہیں، ...
 گھر کو کسی حد تک محفوظ بنا دیا لگ رہا تھا جیسے کھلے آسمان تلے آ بیٹھے ہیں،  اللہ نے دل سے لالچ ختم کیا، ساری رقم گاؤں کی مسجد میں جمع کروا دی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:محمد سعید جاوید
قسط:346
صبح صبح وزیر اعلیٰ پنجاب شہبازشریف تشریف لے آئے اور دھماکے سے متاثر ہونے والے ہر گھر میں گئے، افسوس کیا اور کہا کہ”ہم ہر متاثرہ شخص کو 3دن کے اندر معقول معاوضہ دیں گے“۔سب نے شکوہ کیا کہ آپ کے دفتر میں اس تفتیشی مرکز کی کہیں اور منتقلی کی درخواست بھی دی گئی تھی، فرمایا کہ”انھیں اس کا کچھ علم نہیں ہے“۔
3 دن تو نہیں ہاں 3 مہینے بعد معاوضہ کا چیک آیا جو صرف چورانوے ہزار روپے کا تھا جب کہ نقصان اس سے 10 گنا زیادہ کا ہوا تھا، بے بسی اور بے کسی کی انتہا کہ یہ چیک بھی بینک سے بغیر ادائیگی کے واپس آ گیا کہ بجٹ کی پیچیدگیوں کی وجہ سے حکومت کے کھاتے میں پیسے ہی نہیں تھے، پھر ستمبر میں جا کر کہیں یہ رقم ملی۔  اللہ نے توفیق دی اور دل سے لالچ کو ختم کیا اور ساری رقم میں نے اپنے گاؤں کی مسجد کے تعمیری فنڈ میں جمع کروا دی۔
تباہ ہونے والی عمارت سے ملحق پاکستان کے نامور سکالر اور عالم محترم ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کی قرآن اکیڈمی بھی تھی جس میں ان کی اپنی سکونت کے علاوہ دوسرے منتظمین اور ملازمین کی رہائش بھی تھی۔اس دھماکے میں اس عمارت کوبھی بری طرح نقصان پہنچا۔ ڈاکٹر صاحب زندگی بھر طالبان کے نظریات کی حمایت میں بیان دیتے رہے تھے، مجھے نہیں علم کہ شام کو جب طالبان نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی تو ان کے کیا احساسات رہے ہونگے۔اس دھماکے کے تقریباً ایک مہینے بعد وہ بھی انتقال کر گئے۔اللہ ان کی مغفرت کرے۔
ان سارے حالات کے پیش نظر پہلے سوچا کہ عمرے کی روانگی کو ملتوی کر دیا جائے اور گھر کی مرمت اور حالات کے معمول پر آنے کے بعد تسلی سے روانہ ہوا جائے۔ لیکن سب عزیزوں اور دوستوں نے مشورہ دیا کہ آپ منصوبے کے مطابق اپنے سفرِ مقدس پر جائیں، جو ہونا تھا، وہ تو ہو چکا۔ وہاں جا کر اللہ سے اپنی لغزشوں کی معافی بھی مانگیں اور اس کا شکر بھی ادا کریں کہ آپ کو نئی زندگی عطا ہوئی تھی۔ بات سمجھ میں آ گئی۔ صفدر نے انتہائی مستعدی سے اگلے چند روز میں سارے گھر کی ضروری مرمت کروا دی اور نئے شیشے اور دروازے وغیرہ نصب کروا کے گھر کو کسی حد تک محفوظ بنا دیا ورنہ تو ایسے لگ رہا تھا جیسے ہم سڑک پرکھلے آسمان تلے آ بیٹھے ہیں۔
گھر کی زیادہ تر کراکری ٹوٹ پھوٹ چکی تھی لیکن خوش قسمتی سے ابھی کچھ سامان کارٹنوں میں بند پڑا تھا، جو اچھی پیکنگ کی وجہ سے بچ گیا تھا اور ابھی استعمال بھی نہیں ہوا تھا۔ اسے وہاں سے نکال کر استعمال کرنا شروع کیا اور ایک ہفتے میں حالات قدرے بہتر ہو گئے اور محلے میں ہر طرف گھروں کی مرمت شروع ہو گئی۔زندگی آہستہ آہستہ معمول پر آ تی جا رہی تھی۔
اس طرف سے بے فکر ہو کر18مارچ 2010کو ہم اپنے پروگرام کے مطابق اپنی حاضری کے لیے مکہ روانہ ہو گئے۔(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -