ایران پر عائد مغرب کی پابندیاں
قبل اس کے کہ مَیں سڑک کے ذریعے اپنے ایران کے دورے کا آغاز کرتا۔مَیں تہران کے ایک شاپنگ پلازے میں رُک گیا، تاکہ کمپیوٹرکا سامان خریدسکوں۔مَیں آئی پیڈز اور آئی فون سے لبالب بھرا ہوا تھا۔یہ بات بتانے کی ضرورت نہیں کہ مَیں اس وقت سٹیوجابز کا مجسمہ لگ رہا تھا۔ایک سٹور(دکان)کی کھڑکی میں سے دکاندار نے مجھے دیکھ کر لطف لینے کے لئے بے ہودہ انداز میں میرے لیب ٹاپ کی طرف دیکھا۔تمہارے پاس بہت بہت پرانا کمپیوٹر ہے، اس نے میرا تمسخر اُڑایا،کیا یہ مجھ سے زیادہ بوڑھا نہیں ہے؟ اس طرح کا جملہ ایک طرح کی یاد دہانی تھی کہ ایران نسبتاً ایک مہذب اور امیر ملک ہے، اپنے بہت سے ہمسایوں کے مقابلے میں ،مَیں نے ایران میں جو 1700 کلومیٹر کی ڈرائیوکی، اس میں ایک سبق یہ حاصل کیا کہ مغربی پابندیوں کی بدولت کارخانے بند ہورہے ہیں اور کارکن اپنی ملازمتوں سے محروم ہورہے ہیں۔تجارت سکڑ رہی ہے اور چیزوں کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں ، اس صورت حال کے باعث عام ایرانی کے معاشی حالات خراب ہورہے ہیں کہ اس کا فخر متاثر ہورہا ہے۔
منہ پھٹ ہو کر اگر بات کی جائے تو پابندیوں سے اسی طرح کے نتائج برآمد ہورہے ہیں، جن کی توقع کی جا رہی تھی۔ان پابندیوں کی وجہ سے ایرانیوں کی معاشی مشکلات میں غیر معمولی اضافہ ہورہا ہے اور ان میں بے اطمینانی بڑھ رہی ہے۔ایک کارخانے کے مالک حسن گمباری نے مجھے بتایا جو الیکٹریکل پینل بناتے ہیں کہ انہیں اپنے15کارکنوں میں سے 12کو فارغ کرنا پڑا۔ایک اور کارخانے کے مالک مسعود فاطمی نے بتایا(جن کا کاٹن کے دھاگوں اور ٹیکسٹائل کا کام ہے) کہ مغربی پابندیوں نے پہلے سے موجود معاشی مسائل میں گھمبیر اضافہ کردیا ہے۔چیزوں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں تو اس طرح پیداوار کے اہداف حاصل کرنا تقریباً ناممکن ہوچکا ہے۔مسعود فاطمی نے بتایا کہ ہر چیز اب بہت مشکل ہوچکی ہے۔پابندیوں کی وجہ سے اب ہمیں زیادہ وقت اور زیادہ پیسے خرچ کرکے چیزیں تیار کروانا پڑتی ہیں۔ فاطمی نے کہا کہ ڈیڑھ سال قبل ایک برقی انوائر خراب ہوگیا،جس کی وجہ سے ان کے کارخانے کی ایک لائن بند ہوگئی اور انہیں 500ڈالر یومیہ کا خرچ پڑگیا۔
چونکہ ہمیں پابندیوں کا سامنا ہے، اس لئے مَیں مغرب سے اس کا متبادل نہیں منگوا سکتا،اگرچہ انہیں اس بات کی امیدہے کہ وہ مغرب سے جلد ہی ایسی کوئی چیز منگوا سکیں، جو ان کے لئے مددگار ثابت ہوسکے۔مَیں نے ایک سٹور کے مالک سے بھی بات چیت کی جو کہ نائیک،ایڈی ڈرس اور سوکونی کی اشیاءبیچتا ہے۔یہ برانڈ معاشرے میں ایک بڑے سماجی مرتبے کے حصول کے لئے لوگ پہنتے ہیں، اگر آپ ایک نوجوان ہیں اور آپ کو خاتون دوست کی تلاش ہے، دکان دار نے وضاحت کرتے ہوئے بتایا تو پھر بہترین طریقہ یہ ہے کہ آپ نائیک کی اشیاءاستعمال کریں،لیکن گزشتہ سال سے ہماری فروخت میں دوتہائی کمی واقع ہوچکی ہے۔اس نے اپنی حالت زار بیان کی، اس نے مزید بتایا کہ کچھ ایرانی ایسے خستہ حال ہوچکے ہیں کہ وہ تقریبات میں چین کی بنی ہوئی جعلی نائیک کی اشیاءاستعمال کرتے ہیں۔مارچ کے مہینے میں ایران کو سو فٹ کے نظام سے باہر کردیا گیا۔یہ بینکوں میں ادائیگی کا بین الاقوامی نظام ہے،جس کی وجہ سے ایران کے تاجر آج مجبور ہیں کہ وہ اپنی رقوم روایتی حوالے کے نظام سے بھجوائیں،جو دنیا میں استعمال ہونے والا رقوم کو بھجوانے کے لئے ایک غیرقانونی نیٹ ورک ہے۔آپ رقم سے بھرے ہوئے ایک بریف کیس کسی ایرانی بازارمیں حوالے کے دفتر میں لے جائیں اور پھر اس کے بارے میں پتہ کروائیں کہ یہ آپ کو لاس اینجلس یا بیجنگ میں مل جائے گا؟یہ طریقہ کار بہت مہنگااور کم قابل اعتماد ہے،کسی بھی بینک کے ذریعے بھیجی گئی رقم کے مقابلے میں ،لیکن یہی اب سب سے بڑا متبادل ہے۔
ہم پابندیوں کے بیچ میں کوئی نقص تلاش کررہے ہیں۔ایک حوالے کے تاجر نے مجھے بتایا، ایرانی قوم کے پاس کوئی دوسرا متبادل نہیں ہے۔معاشی تناﺅ اب لوگوں کا گھیراﺅ کررہا ہے، کیونکہ صدر محمود احمدی نژاد ہرچیز پر، یعنی روٹی سے لے کر گیسولین تک تمام اشیاءپر سبسڈی کا خاتمہ کررہے ہیں، اگرچہ یہ ایک مضبوط معاشی حکمت عملی کی جانب ایک قدم ہے، لیکن انتہائی غیر مقبول ہے۔مغربی پابندیاں ایک اور انداز میں اپنا اثر دکھاتی نظر آتی ہیں۔معاشی خرابیوں کے لئے زیادہ مورد الزام ایران کے اپنے رہنماﺅں کو ٹھہرایا جارہا ہے اور بے اطمینانی سارے سیاسی نظام سے متعلق پھیل رہی ہے۔مَیں بہت سے ایسے ایرانیوں سے ملا، جو اپنے رہنماﺅں پر سخت برہم تھے، کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ بجائے مغربی دنیا کے ان کے اپنے رہنما چیزوں کی قیمتیں بڑھانے کے ذمہ دار ہیں۔ہم اب ایسا کاروبار نہیں کرسکتے، جیسا کہ ہم ماضی میں کرتے تھے اور ہمارا طرز زندگی بد سے بدتر ہوتا جارہا ہے۔ایسا کہنا تھا اس شخص کا جو بطور سیلز مین کام کرتا تھا اور اس کی نوکری ختم ہوگئی تھی۔ہم اپنے حکمرانوں کو اس صورت حال کا ذمہ دار سمجھتے ہیں نہ کہ مغربی دنیا کو۔
معاشی مسائل لوگوں کی توجہ دیگر قومی مسائل سے ہٹانے کا سبب بن رہے ہیں۔مثال کے طور پر بہت سے عام ایرانی شہری نیوکلیائی معاملات پر حکومت کے ساتھ ہیں اور ایرانی سائنس دانوں کی ہلاکتوں پر سخت برہم ہیں، لیکن لوگوں کی زیادہ توجہ اپنی ملازمتوں کے نقصان اور چیزوں کی بڑھتی ہوئی قیمتوں پر ہے۔معاشی حالات نے لوگوں کی کمرتوڑ کر رکھ دی ہے۔مغربی ایران میں مجھ سے بات چیت کے دوران ایک نوجوان نے کہا ....مجھے ان افسوسناک حالات پر افسوس ہے اور ایک بات واضح رہے کہ مغربی پابندیاں عام ایرانیوں کو سرکاری حکام کی بہ نسبت زیادہ متاثر کررہی ہیں....تاہم ان حیران کن ایرانی شخضیات سے معذرت کے ساتھ، جن کی مہربان میزبانی کا شرف مَیں نے حاصل کیا۔مَیں ایران پر پابندیوں کی حمایت کرتا ہوں، کیونکہ مَیں یہ سمجھتا ہوں اس کا متبادل کوئی اور موجود نہیں ہے،جس کی بدولت ایرانی حکومت کو نیوکلیائی ہتھیاروں کے معاملے میں دباﺅ میں لایا جا سکے۔
میرا خیال یہ ہے کہ پابندیاں بہت احسن انداز میں کام کررہی ہیں۔ان پابندیوں کی بدولت ایران پر کسی قسم کے عسکری حملے یا اس کے نیوکلیائی مقامات پرحملوں کی بات کو غیر ذمہ دارانہ قرار دیا جارہا ہے۔اس بات سے قطع نظر کہ جنگ انسانوں کے محصول کا باعث بنتی ہے،اس کی بدولت قوم پرست ڈھیلے پڑ سکتے ہیں اور موجودہ حکمرانوں کو استحکام مل سکتا ہے اور مستقبل میں بھی ان کے برسراقتدار رہنے کے آثار پیدا ہو سکتے ہیں۔ایک ایسے وقت میں جب معاشی پابندیاں ملک کی سالمیت کو درپیش خطرات کو بڑھا رہی ہیں ، وقت کے بارے میں کوئی پیش گوئی نہیں کی جا سکتی۔لوگ روٹی کو ٹیبل پر رکھ کر دباﺅ برداشت کررہے ہیں، لیکن ان کی ایک حد ہے۔ایسا کہنا تھا اس کاروباری شخصیت کا،جس سے مَیں سمندر کے ساحل پر ملا جلدجلا یا بدیر حد کو آخر کار ختم ہونا ہے اور چیزوں کو تبدیل ہونا ہے ،انشاءاللہ(بشکریہ:”نیویارک ٹائمز“)