قرآن کریم .... ایک مسلسل معجزہ
یونیورسٹی آف سرگودھا کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد اکرم چودھری کو ہم عربی زبان و ادب کے ایک سکالر کے طور پر جانتے ہیں اور اس میدان میں وہ اس وقت سے ہمارے ممدوح ہیں جب وہ اوری اینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ عربی ، درس و تدریس و زبان و ادب کے سربراہ تھے، آج کی طرح اس زمانے میں بھی وہ صاحب سپید سروریش و بروت تھے مگر خواہشات و عزائم کے اعتبار سے آج کی طرح اس زمانے میں بھی وہ شعلہ ساں، بے تاب و بے قرار نظر آتے تھے مگر اپنی تمام توانائی غالباً عربی زبان و ادب کی ترویج و فروغ و تعارف پر صرف کرتے رہنا چاہتے تھے خاص طور سے قرآن مجید کی تعلیمات کو عام کرنے کے لئے وہ آج بھی اپنے آپ کو وقف کئے ہوئے ہیں چنانچہ مارچ2011ءمیں انہوں نے ” قرآن کریم، ایک مسلسل معجزہ“ کے عنوان سے جو کتاب شائع کی وہ ہماری استدعا پر انہوں نے اب ہمیں بھیجی ہے حالانکہ کئی سال پہلے جب بطور وائس چانسلر یونیورسٹی آف سرگودھا ان کا پہلا دور اختتام پذیر ہونے کو تھا تو انہوں نے نوائے وقت کے حمید نظامی ہال میں اس جامع موضوع پر کہ ” قرآن کریم ایک مسلسل معجزہ ہے“ ایک بھرپور لیکچر دیا تھا، ہم اس زمانے میں پابندی کے ساتھ ”نوائے وقت“ میں ”لاہوریات“ رقم کرتے تھے اور اس اجتماع میں بھی موجود تھے ڈاکٹر عیص محمد بھی جو سرگودھا میڈیکل کالج کے پرنسپل ہیں اس تقریب میں تشریف فرما تھے۔ چنانچہ ڈاکٹر محمد اکرم چودھری نے اس موقع پر اپنے مبسوط لیکچر میں اپنے علم و مطالعہ کی حد تک قرآن کریم کو ایک مسلسل معجزہ ثابت کرنے کی کامیاب کوشش کی، اپنے اس لیکچر کو غالباً وسعت دے کر اور کئی موضوعات و ابواب میں تقسیم کر کے انہوں نے اپنے اس نہایت جامع موضوع کو کہ ” قرآن کریم ایک مسلسل معجزہ“ ہے کتاب کی صورت میں لوگوں تک پہچانے کی نہایت وقیع کاوش کی ہے اور اپنے اس عزم میں وہ اس اعتبار سے بھی واشگاف نظر آتے ہیں کہ اپنی میٹھی عمر ہی میں انہوں نے اپنے والد گرامی چودھری محمد ثناءاللہ سے عربی زبان سے محبت کا تحفہ وصول کر لیا تھا اور آج وہ اپنے آپ کو اتنا عالم و فاضل گردانتے ہوئے عربی زبان کو بھی بجا طور پر قرآن کریم اور اہل جنت کی زبان سمجھتے ہیں چنانچہ انہوں نے 1984ءمیں جب وہ ام القری یونیورسٹی مکہ مکرمہ میں ڈاکٹریٹ کر رہے تھے، اپنے پی ایچ ڈی کے سپروائزر پروفیسر ڈاکٹر حسن محمد باجودہ سے قرآن مجید کی جامعیت و ہدایت پر ایسی موثر گفتگو کی کہ ان کے سپروائزر ان کو بازو سے پکڑ کر حیرت و استعجاب کے عالم میں ام القریٰ یونیورسٹی مکہ مکرمہ کے وائس چانسلر جناب راشد راجح کے پاس لے گئے اور ان سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ میں نے آپ کو کہا نہیں تھا کہ قرآن کریم اترا تو بطحا کی وادیوں میں اسے پڑھا اہل مصر نے اور سمجھا برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں نے اور پھر وائس چانسلر کے استفسار پر ڈاکٹر اکرم نے اختصار اً یہ موقف اختیار کیا کہ دنیا کی ہر ”زبان“ امتداد زمانہ اور مرور ایام کے ساتھ ساتھ بدل جاتی ہے اور ہر زبان کے اسالیب بیان، الفاظ و معانی اور ”گرامر و انشائ“ کے باہمی تعلق کی نوعیت میں تبدیلی وقوع پذیر ہونے لگتی ہے، الفاظ کے معانی بسا اوقات اس حد تک بدل جاتے ہیں کہ چند صدیاں گزرنے کے ساتھ وہ بالکل معکوس مفہوم ادا کرنے لگتے ہیں اور یہ تغیر مفہومیات زبانوں میں وقوع پذیر ہونے والا وہ قانون قدرت ہے جس نے عربی زبان کو اپنا ہدف بنانے کے بجائے اسے قرآن مجید کی عظمت و ابدیت کے باعث تحفظ و سلامتی عطا کی ہوئی ہے گویا کتاب اللہ میں استعمال ہونے والے ذخیرہ الفاظ پر وہ اثر انداز نہیں ہوا ہے اور کتاب اللہ میں مستعمل مخزنِ الفاظ نے اسے توڑ کے رکھ دیا ہے اور جہاں قانون فطرت ٹوٹتا ہے وہاں وہ عمل اگر نبی کے دستِ مبارک سے ہو تو ہم اسے معجزہ کے نام سے تعبیر کرتے ہیں چنانچہ زبانوں میں وقوع پذیر اسی قانون قدرت کو قرآن کریم کے الفاظ و اسالیب صدیوں سے توڑتے چلے آئے ہیں کیونکہ قرآن کریم کے الفاظ نے اپنے اوقات تنزیل سے اب تک اپنے آپ کو اس طرح مستحکم و قائم و دائم رکھا ہے اور تاروز قیامت اس طرح قائم و دائم رکھے گا کہ کائنات و عالم پر وہ حقیقت پوری طرح واشگاف و ثابت ہوتی رہے گی کہ ” قرآن کریم ایک مسلسل معجزہ ہے“ چنانچہ اس استدلال کے بعد وائس چانسلر راجح اور ڈاکٹر باجودہ نے روح پر ور انداز میں ڈاکٹر اکرم کی حوصلہ افزائی کی ۔پروفیسر محمد اکرم چودھری نے فروری 2007ءمیں یونیورسٹی آف سرگودھا کے وائس چانسلر کی ذمہ داری سنبھالی تھی اور ریڈیو پاکستان سرگودھا کے سٹیشن ڈائریکٹر ظفر اقبال رضوی کے اصرار پر قرآن کریم کی ابدیت کو موضوع بناتے ہوئے چار تقاریر ریکارڈ کرائیں اور یونیورسٹی کی جامع عابد(غالباً وہ جامع ڈاکٹر عابد احمد علی کے اسم سے موسوم کی گئی ہے جو اس زمانے میں وہاں پرنسپل تھے جب ہم وہاں زیر تعلیم و تدریس تھے) میں بھی قرآن مجید کی تعلیمات پر کچھ تقاریر کیں جن کو چھ ابواب کی صورت میں مجتمع کر کے ” قرآن کریم - ایک مسلسل معجزہ“ کے عنوان سے مارچ 2011ءمیں ایک کتاب کے پیکر میں شائع کر دیا گیا چنانچہ ڈاکٹر صاحب کی وہ تقاریر تمام شخصیات کو دستیاب ہیں اور عالم اسلام کے ساتھ ساتھ دنیائے طاغوت کو بھی مستفید و مستفیض کر سکتی ہیں، انہوں نے اپنی کتاب میں ان سماوی کتب یعنی زبور، تورات اور انجیل مقدس کے بارے میں بھی جامع انداز میں گفتگو کی ہے جن کی تعلیمات، نبی آخر الزماں حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ کی ذات اقدس و بابرکات پر کائنات کی آخری سماوی کتاب قرآن مجید نازل ہو جانے سے موقوف ہو چکی ہیں انہوں نے قرآن کریم کے بارے میں متشرقین کے اعتراضات کا احاطہ بھی کیا ہے اور ان کو شافی جواب دینے کی کوشش کی ہے مگر اس کاوش سے ان کی اپنی عربی دانی کا ثبوت فراہم نہیں ہوتا، شاید اس کتاب میں اس حقیقت کے اظہار کا موقع نہ تھا مگر ڈاکٹر محمد اکرم چودھری نے چونکہ عربی زبان کے استحکام و دوام پر نہایت تفصیل سے گفتگو کی ہے اور الفاظ و معانی کے ربط و ارتباط زیر بحث رکھتے ہوئے فرمایا ہے کہ صرف عربی زبان ہی دنیا کی ایک ایسی زبان ہے جو قرآن کریم کی برکت کے باعث قرآن مجید کے نزول سے اب تک امتداد زمانہ اور مرور ایام سے متاثر نہیں ہوئی ہے جبکہ باقی تمام زبانوں کے الفاظ و بیان میں وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ ان کے مفاہم و مطالب میں اس حد تک بعد، آتا گیا کہ وہ معکوس بھی متصور ہونے لگے تو پھر الفاظ و معانی پر اتنی گہری نظر رکھتے ہوئے بھی ڈاکٹر اکرم نے قرآن مجید کے تیسویں پارے کی چھوٹی سورتوں کے مکی یا مدنی ہونے کا ذکر کرتے ہوئے ”سوا“ اور ”علاوہ“ کو اس معانی میں کس طرح استعمال کرلیا اور کتاب کی ترتیب میں ایف سی کالج لاہور کے ڈاکٹر فرحت عزیز، اسسٹنٹ پروفیسر یونیورسٹی آف سرگودھا محمد فیروز شاہ کھگہ اور یونیورسٹی آف سرگودھا کے ایک اور اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر شہباز منج کی معاونت کے باوجود ایک صحیح انگریزی لفظ ”INIMITABLE“ کو اپنی اس کتاب میں بار بار غلط طور پر UNIMMITABLEکیوں لکھا کیا مذکورہ تمام شخصیات ہی انگریزی زبان پر یکساں دسترس رکھتی تھیں؟ بہرحال اس سے کتاب کے اصل موضوع اور اس کی افادیت پر کوئی اثر نہیں پڑتااور ڈاکٹر محمد اکرم چودھری نے تو فرما بھی دیا ہے کہ اگر علمائے کرام و مشائخ عظام کسی بات کو قابل اصلاح سمجھیں تو اس کی طرف ڈاکٹر چودھری محمد اکرم کی توجہ مبذول کرا دیں وہ اس کی تصحیح کر لیں گے ہم ان الفاظ کے ساتھ ” قرآن کریم ایک مسلسل معجزہ“ کو ایک گراں قدر کاوش قرار دیتے ہیں اور اس کا خیر مقدم کرتے ہیں۔