دہشت گردی کے خلاف تمام اداروں کو کردار اداکرنا ہوگا، پیر اعجاز ہاشمی

دہشت گردی کے خلاف تمام اداروں کو کردار اداکرنا ہوگا، پیر اعجاز ہاشمی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

لاہور ( ایجوکیشن رپورٹر) جمعیت علما پاکستان کے مرکزی صدر پیر اعجاز احمدہاشمی نے کہا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف تمام اداروں کو کردار اداکرنا ہوگا۔ پاراچنار کے شہدا کے ورثا کی داد رسی کے لئے کسی بھی حکومتی شخصیت کا نہ پہنچنا اور میڈیا میں اس واقعہ کا بلیک آوٹ بے حسی کی بدترین مثال ہے۔ تحقیقات ہونی چاہیں کہ ریاستی ادارے شہریوں کی حفاظت میں ناکام کیوں ہیں؟ اور دہشت گرد وارداتیں کرکے کامیابی سے فرارکیسے ہوجاتے ہیں، کوئی پوچھنے والا نہیں۔ وہ بلا روک ٹوک اپنی واردات کرکے محفوظ پناہ گاہوں میں چلے جاتے ہیں۔ عید ملنے کے لئے آنے والے جے یو پی کے رہنماوں اور کارکنوں سے گفتگو کرتے ہوئے پیر اعجاز ہاشمی نے کہا کہ دہشت گردی عالمی مسئلہ بن چکی ہے۔ جس کے خلاف پوری قوم کو متحد ہونا ہوگا۔ اس کے ساتھ ریاستی اداروں کے درمیان بہتر رابطہ اور خفیہ معلومات کا تبادلہ ہونا چاہیے تاکہ دشمن کی سرگرمیوں سے آگاہ رہا جاسکے۔انہوں نے کہا کہ پاراچنار ، کراچی اور کوئٹہ میں ہونے والے حادثات دہشت گردانہ کارروائیاں ہیں۔ کسی واقعہ کا تعلق فرقہ واریت سے نہیں۔ ملک میں شیعہ سنی ہم آہنگی موجود ہے، جو کالعدم تنظیمیں پاراچنار کے واقعہ کی ذمہ داریاں قبول کرنے کے دعوے کررہی ہیں۔ وہ سری لنکن کرکٹ ٹیم، جی ایچ کیو اور دیگر اہم تنصیبات پر حملے کرچکی ہیں۔ جو ان کا تو کسی فرقے سے کوئی تعلق نہیں۔ ان کا کہنا تھاکہ میڈیا نے جس طرح کی کوریج سانحہ احمد پور شرقیہ کو دی ہے، اسی طرح کی توجہ پاراچنار پر کی ہوتی تو شاید یہ مسئلہ حل ہوچکا ہوتا۔پیر اعجاز ہاشمی نے کہا کہ افغانستان کے ساتھ سرحد پر سکیورٹی بڑھائی جائے اور بارڈر مینجمنٹ کا منصوبہ مکمل کرکے عوام کو تحفظ فراہم کیا جائے۔ مگر عام آدمی کی طرف سے پوچھے جانے والے سوالات کے جوابات دینا ضروری ہے کہ پاراچنار جیسے حساس علاقے میں دہشت گرد داخل کیسے ہوئے، جہاں عام شہریوں کو اپنے گھروں میں داخلے کے لئے بھی چیک پوسٹ پر گھنٹوں انتظار کرنا پڑتا ہے۔ پھر خندقیں کھودی گئیں، وہ انتظامات کیا ہوئے۔ذمہ دار اداروں کو اس کی وضاحت کرنی چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم دورہ مختصر کرکے وطن واپس پہنچے تھے، تو انہیں ایک عرصے سے دہشت گردی کا شکار پاراچنار کے عوام سے اظہار یکجہتی کرنے میں کونسے امور مانع تھے۔