رانا نذرالرحمن پر پی ایچ ڈی کروایئے

رانا نذرالرحمن پر پی ایچ ڈی کروایئے
 رانا نذرالرحمن پر پی ایچ ڈی کروایئے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

کبھی واقعہ چھوٹا سا ہوتا ہے، لیکن اس سے جنم لینے والا حادثہ بہت بڑا ہوتا ہے ،جیسے احمد پور شرقیہ میں آئل ٹینکر الٹنے کے واقعے سے 162 افراد کی اچانک موت کا حادثہ !۔۔۔لیکن کبھی حادثہ بڑا ہوتا ہے مگر معاشرہ اسے ایک چھوٹا سا واقعہ گردان کر فراموش کردیتا ہے ،جیسے رانا نذرالرحمن کی وفات!!
رانا نذرالرحمن اس زمانے میں پاکستانی سیاست کا محورومرکز بنے جب لاہور شہر پاکستانی سیاست کا گڑھ تصور کیا جاتا تھا، وہ فیلڈ مارشل ایوب خان اور ذوالفقار علی بھٹو کی حقیقی اپوزیشن تھے اور انجمن شہریان لاہور جیسے مضبوط پلیٹ فارم کے روح رواں تھے۔اس زمانے میں مولانا مودودیؒ کی فکر نے ایک زمانے کو اپنا گرویدہ بنایاہوا تھا اور رانا نذرالرحمن بھی اس فکر کے اسیروں میں سے ایک تھے ، زمانہ طالب علمی میں اسلامی جمعیت طلبہ لاہور کے ناظم رہے اور وہیں سے عملی سیاست کا رخ کیا تو سابق وزیراعظم اور متحدہ پاکستان کے پہلے آئین کے خالق چودھری محمد علی کی نظام اسلام پارٹی میں شامل ہوئے اور وہاں سے تو نوابزادہ نصراللہ کی پاکستان ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) میں پارٹی کے ساتھ ہی ضم ہو گئے اور تب تک وہیں رہے جب تک کہ پی ڈی پی کا بی (بیج) نہیں مر گیا۔
نمازِ جنازہ کے بعد آخری دیدار کے لئے مرحوم رانا نذرالرحمن کے جسدِ خاکی کو مسجد کے مرکزی دروازے کے پاس ہی رکھا گیا تھا ، انہوں نے آخری عمر میں تراشے ہوئے خط کی صورت داڑھی بھی رکھ لی تھی جو آخری دیدار میں ان کی شخصیت کا حصہ بنی نظر آ رہی تھی۔ مرکزی دروازے کے باہر بنچ پر تشریف فرما مجیب الرحمن شامی برادرم رؤف طاہر سے کہہ رہے تھے کہ دیکھئے رانا صاحب بھی چلے گئے اور جواب میں ایک دُکھ بھری خاموشی کے سوا کچھ نہ تھا۔


مسجد سے گاڑی تک کا فاصلہ طے کرتے ہوئے رؤف طاہر کہنے لگے کہ ایک زمانے میں رانا صاحب کی سیاست کا بہت رعب اور دبدبہ تھا اور چار سو ان کا طوطی بولتا تھا،آپ اندازہ نہیں کر سکتے کہ وہ کتنے بڑے سیاست دان تھے ، پھر ایک تاسف سے کہنے لگے کہ افسوس کہ آج پاکستان سے سیاست جیسا اہم ادارہ ختم ہو کر رہ گیا ہے۔ ہم نے عرض کیا کہ ایک سیاست ہی کیا ہم نے تو ہر ادارے کو تباہ کرکے ایک ادارے کو بچالیا ہے ، اتنے میں گاڑی آ گئی اور بات آئی گئی ہو گئی!
رانا نذرالرحمن صاحب سے ہمارا تعارف رؤف طاہر صاحب نے ہی کروایا تھا جو ہر تعلق سے وفاداری بشکل استواری نبھانے کے قائل ہیں، پھر رانا صاحب سے متعدد ملاقاتیں قدرت اللہ چودھری صاحب کے آفس میں ہوتی رہیں۔ آخر آخر میں منحنی سے بدن پر جناح کیپ پہنے چودھری صاحب کے کمرے میں داخل ہوتے تو لگتا جیسے قائداعظمؒ کا کوئی قریبی ساتھی ’پاکستان‘ میں داخل ہورہا ہے۔


اپنی گفتگو میں رانا نذرالرحمن اکثر کہا کرتے تھے اللہ تعالیٰ انہیں حضرت نوح علیہ السلام کی عمر عطا کرے گا اور تب تک دُنیا سے نہیں جائیں گے جب تک پاکستان سے سود کی لعنت کا خاتمہ نہیں کر لیتے۔وہ91 برس کی عمر میں فوت ہوئے تو ایسا لگا کہ جیسے بتا کر جا رہے ہوں کہ پاکستان سے سود کی لعنت کے خاتمے کے لئے حضرت نوح علیہ السلام کی عمر بھی ناکافی ہے ،وگرنہ آج ان کی موت کا نوحہ کیوں لکھا جاتا!
وہ میاں نواز شریف کے ہر گز حمائتی نہ تھے البتہ چند برس قبل عمران خان کی تحریک انصاف کو ضرور جوائن کیا تھا، لیکن جب عمران خان اور ان کی پارٹی کے اکابرین نے ان کی باتوں پر کان نہیں دھرے تو وہ لاتعلق سے ہو گئے ، وہ جاوید ہاشمی کو تحریک انصاف کی جانب راغب کرنے کا کریڈٹ بھی لیتے تھے، لیکن جب جاوید ہاشمی نے دھرنا پالیٹکس کے مبینہ خفیہ مقاصد کو طشت ازبام کر کے تحریک انصاف کو چھوڑا تو رانا صاحب نے جاوید ہاشمی پر کوئی تبصرہ کیا اور نہ ہی عمران خان پر،البتہ جاتی عمرہ کی جائیداد پر ایک ایسی پریس کانفرنس کا عندیہ ضرور دیتے رہے جو کبھی منعقد نہ ہو سکی!
رانا نذرالرحمن کی سیاست پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا کے انقلاب سے پہلے کی بات ہے ، آج کی کیمرہ جنریشن ان کے کام کا احاطہ نہیں کر سکتی، کیونکہ اس جنریشن کے پاس ان کی معرکتہ الآراء مگر ضخیم سوانح عمری ’صبح کرنا شام کا‘ کے مطالعے کا وقت نہیں ہے ۔ ہماری پنجاب یونیورسٹی کے منتظمین سے گزارش ہے کہ ان کی شخصیت پر پی ایچ ڈی کا اہتمام کروائے تاکہ نئی نسل کی عہد رفتہ سے آشنائی ہو سکے!

مزید :

کالم -