سید صلاح الدین کو دہشتگرد قرار دیکر بھارت کیا حاصل کر لے گا
تجزیہ : قدرت اللہ چودھری:
امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی جب مل بیٹھے تو انہیں ’’مسلم انتہا پسندی‘‘ کا سبق تو ازبر تھا لیکن زعفرانی دہشت گردی کی جانب دونوں میں سے کسی کا دھیان نہیں گیا یا پھر انہوں نے تجاہل عارفانہ سے کام لیا، بھارت میں جب سے نریندر مودی برسراقتدار آئے ہیں مسلمانوں اور دوسری اقلیتوں کی زندگی اجیرن کر دی گئی ہے۔ مسلمانوں کو اپنی فریجوں میں گوشت رکھنے پر قتل کر دیا گیا، قتل پہلے کیا گیا اور تحقیق بعد میں ہوئی، پھر بھی یہ الزام غلط ثابت ہوا کہ جو گوشت فریج میں رکھا گیا تھا وہ گائے کا نہیں تھا، بکرے یا کٹے کا تھا۔ بھارت میں گاؤ رکھشا کا تو بڑا چرچا ہے لیکن جب مودی گجرات کے وزیراعلیٰ تھے تو ایک مفروضے پر مسلمانوں کا قتل عام شروع کر دیا گیا، کانگریس کے مسلمان رکن پارلیمنٹ نے اس کی شکایت اس وقت کے بھارتی صدر سے کی تو انہوں نے کسی قسم کی مدد سے انکار کر دیا۔ چلئے گوشت تو گوشت ہے ، لیبارٹری تجزئیے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ یہ گائے یا کسی دوسرے جانور کا ہے لیکن گایوں کے ریوڑ کو لے جاتے ہوئے چرواہے کو محض اس لئے موت کے گھاٹ اتار دیاگیا کہ وہ اس ریوڑ کو چرا کر باڑے میں باندھنے کے لئے جا رہا تھا، یہ فرض کر لیا گیا کہ یہ چرواہا کبھی نہ کبھی تو گائے ذبح کرے گا اس لئے کیوں نہ گائے کو بچانے کے لئے حفظ ماتقدم کے طور پر اس کا قتل کر دیا جائے، زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں 18 جون تو ابھی گزری ہے جب بھارتی کرکٹ ٹیم کو پاکستان نے بری طرح ہرا کر چیمپئنز ٹرافی جیت لی، کشمیر کے عوام اس پر خوشیاں منا رہے تھے تو ان کے خلاف غداری کے مقدمات درج کئے جا رہے تھے اور تو اور ان ہندوؤں کو بھی غداری کے مقدمے کا سامنا کرنا پڑا جو پاکستان کی جیت پر لگی ہوئی شرط کی جیت پر خوشیاں منا رہے تھے، انہیں پاکستانی ٹیم کی جیت سے زیادہ مالی منفعت کی خوشی تھی جو بھارتی حکومت کو گوارا نہیں تھی۔ گذشتہ برس جواہر لال نہرو یونیورسٹی نئی دہلی کے ایک طالب علم رہنما کو محض ایک سیمینار کرانے کے الزام میں غداری کے مقدمے میں ملوث کر دیا گیا، کوئی وکیل اس کا مقدمہ لڑنے کے لئے تیار نہ ہوا اور جو تیار ہوئے انہیں دھمکیاں ملیں۔ عدالت میں پیشی کے لئے جاتے ہوئے اس طالب علم رہنما پر متعصب ہندوؤں نے حملہ کرکے انہیں مارا پیٹا، ایسے سینکڑوں واقعات بھارت میں ہوچکے ہیں اور اب بھی ہو رہے ہیں۔ یو پی میں ایک انتہا پسند جوگی کو وزیراعلیٰ بنا دیا گیا ہے جو اپنی تقریروں میں مسلمانوں کو کھلی دھمکیاں دیتا ہے اور وزیراعلیٰ کا عہدہ سنبھالنے کے باوجود اس کے روئیے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔
مودی اور ٹرمپ جب وائٹ ہاؤس میں ملاقات کر رہے تھے تو کشمیری اور سکھ باہر مظاہرے کر رہے تھے۔ کشمیر میں طاقت کا جو وحشیانہ استعمال ہو رہا ہے اس کا مقابلہ پتھروں سے تو نہیں کیا جاسکتا لیکن اس کے باوجود سید صلاح الدین کو عالمی دہشت گرد قرار دے دیا گیا ہے جن کا کوئی غیر ملکی ایجنڈا نہیں نہ ان کی تنظیم کسی دوسرے ملک میں نام نہاد دہشت گردی میں ملوث ہے۔ ان کی ساری تگ و تاز کشمیر کی آزادی کے لئے ہے جس کا اقوام متحدہ کے منشور کے تحت بھی انہیں حق حاصل ہے۔ اب سید صلاح الدین کو تو دہشت گرد قرار دے دیا گیا ہے لیکن راہ چلتوں کو قتل کرنے والوں کو کس ذیل میں رکھا جائے گا۔ اگر کسی عمارت کو دھماکے میں اڑا دینا دہشت گردی ہے تو بابری مسجد کی شہادت کو کس زمرے میں شمار کیا جائیگا۔ جس کے بارے میں خود ہندو مورخین کی شہادت ہے کہ اس جگہ پر رام کی جنم بھومی کا کوئی تاریخی ثبوت دستیاب نہیں۔ ہندو انتہا پسندی کے ایسے واقعات کی جانب مودی کا تو دھیان بوجوہ نہیں جاسکتا لیکن سپر طاقت امریکہ کے صدر کو تو معلوم ہونا چاہئے کہ بھارت کشمیر میں جن ہزاروں نوجوانوں کو آنکھوں کے نور سے محروم کرچکا یا انہیں اپاہج بنا چکا کیا وہ ریاستی دہشت گردی کا شکار نہیں؟ اور اس طرح کی ظالمانہ دہشت گردی کو روکنا کس کی ذمے داری ہے؟ کیا یہ کشمیریوں کے مقدر میں لکھ دیا گیا ہے کہ ان کی نسلیں ایک صدی سے زیادہ عرصے سے ریاستی جبر کا سامنا کرتی رہیں اور اگر اس کے خلاف جدوجہد کریں تو امریکہ اور مودی انہیں دہشت گرد قرار دیں، مودی کا خیال تھا کہ کشمیر میں جو حریت موومنٹ چل رہی ہے وہ صرف باہر کی حمایت کی وجہ سے زندہ ہے لیکن کشمیریوں نے ثابت کیا ہے کہ وہ اپنی تحریک کے لئے باہر کی کسی حمایت کے محتاج نہیں ہے۔ برہان وانی کوئی باہر سے گیا ہوا نوجوان نہیں تھا اس کا خاندان کشمیری ہے اور اس کے والدین اب بھی وہاں جانے پہچانے ہیں جن دوسرے نوجوانوں نے جام شہادت نوش کیا ہے وہ بھی وادی کے رہائشی ہیں اور سب کو ان کا پتہ معلوم ہے۔ جن کے گھر بارود سے اڑا دئے گئے، وہاں سے بھی کوئی غیر ملکی دہشت گرد زندہ گرفتار ہوا ہے اور نہ کسی کی نعش ملی ہے۔ ان تباہ حال مکانوں سے جو لاشیں برآمد ہوئی ہیں وہ مقامی لوگوں کی ہیں۔ مودی کو تو یہ سب خبر ہے کہ یہ تحریک باہر سے نہیں اندر سے چل رہی ہے اور یہ رپورٹ اس کمیشن نے پیش کی ہے جسے حالات کا جائزہ لینے کے لئے خود مودی نے کشمیر بھیجا تھا اور جس نے یہ رپورٹ پیش کی ہے کہ کشمیر کی تحریک اس مقام پر پہنچ چکی ہے کہ بھارت کے پاس کشمیریوں کے ساتھ مذاکرات کے سوا کوئی آپشن نہیں اور اگر مذاکرات نہ کئے گئے تو تحریک زور پکڑے گی اور کشمیر بھارت کے ہاتھ سے نکل بھی سکتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا سید صلاح الدین کو دہشت گرد قرار دے کر کشمیر کی تحریک آزادی کو ختم کیا جاسکتا ہے؟ چند دن کے اندر ہی اس کا جواب کشمیریوں کی جانب سے آجائے گا۔ صدر ٹرمپ کو اس سلسلے میں عالمی تنظیموں سے معلومات حاصل کرنی چاہئیں۔