فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔ قسط نمبر 134
چند ہی منٹ میں یہ مسئلہ حل ہوگیا۔
’’اب کیا اعتراض ہے؟‘‘ ہم نے پوچھا۔
وہ کہنے لگے ’’بھائی جان کی سفارش کا مطلب یہ تو نہیں ہے میں مان گیا ہوں‘‘۔
ہم سر پکڑ کر بیٹھ گئے۔
فلمی وادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔ قسط نمبر 133 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں۔
نیر بھابی نے کہا ’’میں تازہ چائے لے کر آتی ہوں‘‘ اور رخصت ہوگئیں۔
درپن صاحب کو شاید ہم پر ترس آگیا تھا۔ نرمی سے بولے ’’مگر آفائی صاحب اگر نیرّ اس فلم میں کام کریں گی تو ایک شرط پر‘‘۔
ہم نے کہا ’’منظور، آپ ان کے ساتھ ہوں گے‘‘۔
شاید انہیں توقع نہیں تھی کہ ہم فوراً مان جائیں گے۔ کہنے لگے ’’چلئے۔ یہ بھی طے ہوگیا۔ اب ایک بات ہماری بھی مان لیجئے‘‘۔
ہم نے کہا ’’آپ کی ساری باتیں تو مان لی ہیں‘‘۔
’’وہ تو بھائی چاری کی باتیں تھیں۔ یہ بات میں اداکار کی حیثیت سے کر رہا ہوں‘‘۔
’’ارشاد!‘‘
’’فلم کے ابتدائی حصے میں آپ نے کچھ رومانی مناظر اور گانا وغیرہ بھی رکھا ہے یا ہم دونوں کی قسمت میں رونا دھونا رہ گیا ہے؟‘‘
’’سزا‘‘ میں نیرّ سلطانہ نے شادی کے طویل عرصے بعد کام کیا تھا اور ہنر مندی سے کام کیا کہ اس کردار کا حق ادا کردیا۔ کسی زمانے میں انہیں ’’ملکہ جذبات‘‘ کا لقب دیا گیا تھا۔ ہم نے جھاڑ پونچھ کر یہ لقب دوبارہ نکال اور انہیں پھر ملکہ جذبات کہنا شروع کردیا۔ کچھ دن تو وہ سنتی رہیں پھر ایک دن لڑنے پر آمادہ ہوگئیں ’’یہ ملکہ جذبات کی کیا رٹ لگا رکھی ہے آپ نے؟‘‘
ہم نے کہا ’’آپ کی اداکاری کو دیکھ کر اس کے سوا کوئی دوسرا لقب نہیں سوجھتا۔ اگر یہ پسند نہیں ہے تو ہم کوئی اور خطاب تلاش کریں؟‘‘
وہ ہنسنے لگیں ’’باز آجائیں مجھے یکسوئی سے کام کرنے دیں۔ میں ویسے بھی آؤٹ آف پریکٹس ہوں‘‘۔
نیرّ سلطانہ نے اس فلم میں بہت دل لگا کر توجہ سے کام کیا۔ اسکرپٹ کی ایک کاپی وہ اپنے ساتھ ہی لے گئے تھیں اور جب کوئی ڈرامائی منظر فلمانے کا موقع آتا تو وہ خود پر یہ موڈ اور کیفیت طاری کرلیتی تھیں۔ اس فلم کے ڈرامائی اور المیہ مناظر میں انہوں نے آنسو بہانے کیلئے کبھی گلیسرین کا سہارا نہیں لیا۔ کچھ سین ایسے بھی تھے کہ شوٹنگ پر موجود لوگ بھی اپنے آنسو ضبط نہ کرسکے۔ وہ صحیح معنوں میں ایک عظیم اداکارہ تھیں۔
آپ سوچتے ہوں گے کہ فلم ’’سزا‘‘ کی تمام داستان ہم نے سنادی مگر اس فلم میں ندیم کا نام و نشان تک نہیں تھا۔ ان کے بجائے ایک نئے ہیرو کو ہم نے ’’سزا‘‘ میں متعارف کرایا تھا جس کا نام جمیل تھا۔ ان کا نام تو دراصل جمال تھا مگر ان ہی دنوں اتفاق سے دلجیت مرزا نے بھی اپنی ایک فلم میں ایک نیا ہیرو پیش کردیا۔ اس کا نام بھی جمال تھا۔ ان کے ہیرو کی تصویریں اور خبریں پہلے شائع ہوچکی تھیں۔ اس لیے کوئی جھگڑا کرنے کے بجائے ہم نے اپنے ہیرو کا نام بدل کر جمیل کردیا اور وہ پاکستان کی فلمی دنیا میں اسی نام شے مشہور ہوئے۔
مگر ندیم کی جگہ جمیل کیوں اور کیسے آگئے؟ یہ بھی ایک دکھ بھری داستان ہے۔
بات دراصل یہ ہے کہ ساری دنیا میں فلم بنانے والوں کو قدم قدم پر مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ دکھ اٹھانے پڑھتے ہیں۔ ہمارے ملک کے فلم سازوں کے حصے میں کاتب تقدیر نے کچھ زیادہ ہی دکھ لکھ دیے ہیں۔ اس کی مختلف وجوہات ہیں جن میں سر فہرست اداکاروں کی کمی کا مسئلہ ہے۔ ہمارے فلم سازوں کی نصف سے زیادہ پریشانیاں اور مسائل اسی سبب سے جنم لیتے ہیں۔ ان کی بے پناہ مصروفیت اور بھاگ دوڑ کی وجہ سے ہدایت کاروں کو اطمینان اور فراغت سے کام کرنے کا موقع بھی نہیں ملتا۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری فلموں کا معیار دوسرے ملکوں کی فلموں کے مقابلے میں کم ہے۔ وجہ صاف ظاہر ہے۔ بھارت کی فلمی صنعت میں درجنوں ہیرو اور ہیروئن موجود ہیں اور ان کی آمد کا سلسلہ ہر وقت جاری رہتا ہے۔ وہاں فلمیں بھی زیادہ بنائی جاتی ہیں۔ مگر جس زمانے میں پاکستان میں ہر سال سو سوا سو سے زائد نہ تھی کیونکہ وہاں دوسری زبانوں میں بھی کافی تعداد میں فلمیں بنائی جاتی ہیں مگر ان فلموں میں کام کرنے کیلئے ان کے پاس ہم سے دس گنا زیادہ اداکار تھے۔ اس سے دونوں کا فرق ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔
اب ندیم صاحب کی داستان بھی سن لیجئے۔ ہم نے کافی عرصہ پہلے ان سے ’’سزا‘‘ کی تاریخیں لی تھیں اور بہت مسرور و مطمئن تھے۔ اس کے گرد ہم نے تانے بانے بُن کر دوسرے اداکاروں کا انتخاب کیا تھا مگر اس فلم میں مرکزی کردار ہیرو ہی کا تھا۔ ساری کہانی اسی کے گرد گھومتی تھی۔
جب ہماری فلم کی شوٹنگ میں تھوڑا وقت رہ گیا تو ایک روز شمیم آرا نے ہمیں یہ روح فرسا خبر سنائی کہ سنا آپ نے، بیگ صاحب نے(نام کا نام نذیر بیگ ہے اور ان کے قریبی لوگ انہیں بیگ صاحب ہی کہہ کر مخاطب کرتے ہیں) ان کی اور ہماری دونوں فلموں کی تاریخیں الٹ پلٹ کردی ہیں اور بعض دوسرے فلم سازوں کو دے دی ہیں۔
ان ہی دنوں فلم ساز اقبال شہزاد نے محمد علی اور ندیم کو اپنی فلم ’’بازی‘‘ میں پہلی بار ایک ساتھ پیش کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اس فلم میں ایک نئی ہیروئن ’’نشو‘‘ کو بھی متعارف کرایا جا رہا تھا۔ اقبال شہزاد سے ہمارے بہت گہرے تعلقات تھے۔ ان کی کوئی بات ہم سے چھپی ہوئی نہیں تھی۔ انہوں نے نشو کو چھوٹے موٹے کردار ادا کرنے والی لڑکیوں کے جمگھٹے میں سے چن کر فلم کی ہیروئن بنانے کا فیصلہ کیا تھا اور انہیں پاکستان کے دو بہت بڑے اداکاروں کے ساتھ پیش کرنے کا تجربہ کر رہے تھے۔ نشو کو اٹھنے بیٹھنے چلنے پھرنے بات چیت کرنے، لباس پہننے اور میک اپ کرنے کی تربیت کا بطور خاص اہتمام کیا گیا تھا۔ انہیں اداکاری اور مکالمے بولنے کا فن سکھانے کیلئے بھی کافی محنت کی جا رہی تھی۔ یہ سب باتیں ہمارے علم میں تھیں۔
ایک روز ہمیں شہزاد صاحب نے فون کیا اور خوش خبری سنائی کہ انہوں نے ’’بازی‘‘ کیلئے ندیم کو بھی سائن کرلیا ہے اور اس فلم مین محمد علی اور ندیم ایک ساتھ کام کریں گے۔ اس خبر نے فلمی دنیا میں ہلچل مچادی تھی اور اس فلم کی مانگ میں بہت اضافہ ہوگیا تھا۔ اسی شام اقبال شہزاد نے ہمیں ساری تفصیل سنادی اور بتایا کہ انہوں نے بطور خاص ڈھاکا جاکر ندیم سے ایگری منٹ سائن کیا ہے اور عنقریب ان کی فلم کی شوٹنگ کا آغاز ہو گا۔ ہم نے انہیں دل کھول کر مبارک باد دی مگر اس وقت ہم کو یہ علم نہیں تھا کہ ندیم نے ہماری فلم کی تاریخیں اقبال شہزاد کو دے دی ہیں۔
شمیم آرا کی زبانی یہ سن کر ہم حیران رہ گئے ’’یہ کیسے ہوسکتا ہے؟‘‘
وہ بولیں ’’بس ان کی مرضی۔ آپ پریشان نہ ہوں۔ میرے اور چند دوسرے فلمسازوں کے ساتھ بھی انہوں نے یہی سلوک کیا ہے‘‘۔
اتفاق سے ان دنوں ندیم جو کراچی، لاہور اور ڈھاکا کے چکّروں میں رہتے تھے، لاہور ہی میں تھے۔ کچھ دیر بعد وہ بھی شمیم آرا کے دفتر میں آگئے او اس خبر کی تصدیق ہوگئی۔ ان کا بیان تھا کہ بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر انہیں ایسا کرنا پڑا۔ پھر بولے ’’مگر آپ پریشان نہ ہوں۔ میں آپ کو دوسری ڈیٹس دے دوں گا‘‘۔
ہم نے کہا ’’مگر آپ نے ہماری اتنے عرصے پہلے سے لی ہوئی ڈیٹس اقبال شہزاد کو کیوں اور کس لیے دے دیں؟‘‘
وہ مسکرائے اور خوش دلی سے بولے ’’آفاقی صاحب! شہزاد صاحب نے تو آپ سے بھی پہلے معاہدہ کر رکھا تھا‘‘۔
ہم نے کہا ’’بیگ صاحب! اقبال شہزاد نے کب اور کہاں معاہدہ کیا ہے یہ ہمیں معلوم ہے۔ کہئے تو معاوضے کی رقم بھی بتادیں؟‘‘
وہ پریشان سے ہوگئے مگر یقین دلایا کہ وہ بہت جلد ہمیں دوسری تاریخیں دے دیں گے۔ دوسرے ہی دن وہ کراچی جا رہے تھے۔ چند روز کے بعد واپس آنے والے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ لاہور پہنچتے ہی وہ ہمیں نئی تاریخیں بتا دیں گے۔ ہمیں ناگوار تو بہت گزرا مگر شمیم آرا نے سمجھایا کہ بعض اوقات حالات کے تحت گڑبڑ ہوجاتی ہے۔ اب یہ نئی تاریخیں دینے پر آمادہ ہیں تو آپ نئے سرے سے شوٹنگ کا پروگرام بنالیں۔ ہم نے بھی ٹھنڈے دل سے غور کیا تو اس نتیجے پر پہنچے کہ لڑائی جھگڑا کرنا بے سود ہے۔ ندیم جو نئی تاریخیں دیں گے ہم ان کے مطابق از سر نو شوٹنگ کا شیڈول بنالیں گے۔ ہماری فلم میں کوئی ایسا مصروف ترین اداکار تو تھا نہیں جس کی وجہ سے مشکل پیش آتی۔
بعد میں ندیم نے ہمارے ساتھ کیا سلوک کیا، یہ ایک علیحدہ داستان ہے۔ وہ بہت بامروت، وضع دار، باخلاق اور شریف آدمی ہیں مگر جب وہ لاہور پہنچے تو کئی ٹیلی فون پیغام ہوٹل پر چھوڑنے کے بعد بھی انہوں نے ہم سے رابطہ کرنے کی تکلیف گوارا نہیں کی۔ ہم جب بھی انٹر کانٹی نینٹل ہوٹل فون کرتے یہی پیغام ملتا کہ وہ ابھی شوٹنگ پر چلے گئے ہیں ہم ان کیلئے پیغام چھوڑ دیتے۔ ایک شام ہم خود ان کے ہوٹل گئے۔ وہ اس وقت بھی موجود نہیں تھے اس لیے ہم پھر ان کیلئے ایک پیغام لکھ کر چھوڑ آئے اور تاکید کی وہ ہمیں ضرور فون کریں۔ مگر ندیم صاحب کی طرف سے خاموشی کا مظاہرہ جاری رہا۔ اب ہمارے صبر و برداشت کا پیمانہ لبریز ہوگیا اور ہم ان سے سچ مچ ناراض ہوگئے۔ یہ خفگی کافی شدت اختیار کرگئی۔ ہم تقاریب میں ان سے مخاطب ہوتے، نہ ان کے سلام کا جواب دیتے۔ ایک بار شبنم کی سالگرہ کے سلسلے میں ہوٹل میں ایک تقریب کے موقع پر وہ ہمارے پاس آکر بیٹھ گئے اور بولے ’’آپ مجھ سے ناراض معلوم ہوتے ہیں‘‘۔
ہم غصے سے ابل رہے تھے مگر محفل کو دیکھ کر خاموش رہے۔
وہ کہنے لگے ’’آفاقی صاحب! آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے۔ میں نے جان بوجھ کر آپ کو تکلیف نہیں پہنچائی ہے‘‘۔
ہم نے آہستہ سے کہا ’’ندیم صاحب، بہتر ہے کہ اس موضوع پر بات نہ کریں۔ ہم نہیں چاہتے کہ شبنم کی سالگرہ کا فنکشن خراب ہو یہ کہہ کر ہم ان کے پاس سے اٹھ کر چلے گئے‘‘۔
ندیم صاحب تک ہماری ناراضگی اور غصے کی تمام اطلاعات پہنچ رہی تھیں۔ انہوں نے چند مشترکہ دوستوں کے ذریعے پیغام بھیجے مگر ہمارا غصہ کم نہیں ہوا۔ان ہی دنوں ڈھاکا سے مشہور فلم ساز، تقسیم کاور اور صنعت کار انیس دو سانی صاحب لاہور آئے۔ ان سے ہمارے بہت اچھے اور بے تکلفی کے مراسم تھے۔ ایک روز انہوں نے ہمیں فون کرکے اپنے ہوٹل پر بلایا۔ ہم وہاں گئے تو وہ غسل خانے میں تھے۔ کچھ دیر بعد ندیم بھی وہاں آگئے۔ اپنی عادت کے مطابق انہوں نے انتہائی خوش اخلاقی کا مظاہرہ کیا اور ہم سے باتیں کرنے لگے۔ وہ صورت حال کی وضاحت کرنا چاہتے تھے۔ ابھی ہم اندر اندر اونٹ ہی رہے تھے کہ انیس دوسانی صاحب غسل خانے سے نکل کر آگئے۔ ماحول کی کشیدگی ان کی نگاہوں سے پوشیدہ نہ رہ سکی۔ بعد میں معلوم ہوا کہ انہوں نے بطور خاص ہم دونوں کو اپنے ہوٹل کے کمرے میں یکجا کرنے کا اہتمام کیا تھا۔
انہوں نے کہا ’’آفاقی صاحب! چھوڑیے غصہ جانے دیجئے۔ ندیم کو اپنی غلطی کا احساس ہوچکا ہے‘‘۔
ہم نے بڑے ضبط سے کام لیا پھر ان سے کہا ’’دوسانی صاحب! آپ پہلے ہماری روداد سن لیجئے اور پھر جو بھی فیصلہ کریں گے، ہمیں منظور ہوگا‘‘۔
اس کے بعد ہم نے انہیں اوّل تا آخر ساری کہانی سنا ڈالی۔ ہمیں شکایت یہ تھی کہ ایک تو ندیم نے ہماری شوٹنگ کا شیڈول خراب کردیا اور ہماری تاریخیں کسی اور کو دے دیں۔ پھر معذرت کرنے اور دوسری تاریخیں دینے کے بجائے ہمارے ٹیلی فون کے جواب میں ایک ٹیلی فون تک نہیں کیا۔ ہم خود ان کے ہوٹل گئے پھر بھی انہوں نے جواب دینے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ یہ سب داستان سنانے کے بعد ہم نے کہا ’’اب آپ خود ہی انصاف کردیجئے کہ قصور کس کا ہے۔ بات دراصل یہ ہے کہ ہمارے فلم اسٹار خود کو دوسروں سے افضل اور بالا تر سمجھتے ہیں۔ یہ اگر ہیرو ہیں تو ہم مصنف اور فلم ساز ہیں۔ ہماری حیثیت ان سے کم نہیں ہے مگر انہوں نے کاروباری اصولوں کا خیال کیا اور نہ ہی اخلاق کے تقاضے نبھائے بات صرف اتنی ہے کہ ہم اب ان کو اپنی حیثیت سے آگاہ کرکے ہی دم لیں گے‘‘۔
ہم اپنے دل کی بھڑاس نکال چکے تو انیس دوسانی صاحب نے بہت اچھی سی کافی منگائی۔ ندیم صاحب اس دوران میں بالکل خاموش بیٹھے رہے تھے۔
دوسانی صاحب نے ہم سے کہا ’’آفاقی! ندیم کو اپنی غلطی کا اعتراف اور احساس ہے مگر تم انہیں تلافی کا موقع تو دو۔ تمہیں فون نہ کرنے اور تم سے نہ ملنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ کافی عرصے تک ندیم کے پاس کوئی ڈیٹ نہیں ہے۔ اس لیے وہ آپ کا سامنا کرتے ہوئے کترا رہے تھے‘‘۔
کافی دیر بعد ہمارا غصہ کچھ کم ہوا تو ہم نے ندیم صاحب سے کہا ’’بھائی مانا کہ آپ بہت بڑے ہیرو ہیں مگر رائٹر اور پروڈیوسر کی بھی کوئی اہمیت اور حیثیت ہے۔ ان کی بھی عزت اور انا ہوتی ہے۔ سوچو کہ اگر پروڈیوسر نہ ہو تو ہیرو کہاں ہوگا۔ یہ حقیقت آپ لوگ کیوں بھول جاتے ہیں، ہیرو کی عمر تو مختصر ہوتی ہے مگر رائٹر اور پروڈیوسر ہمیشہ زندہ رہتا ہے۔ آپ لوگ گدھے گھوڑے کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنے کی عادت چھوڑ دیں تو بہتر ہے‘‘۔
گلے شکوے ختم ہوئے تو پھر کافی اور چائے کا دور چلا۔ ندیم نے وعدہ کیا کہ وہ کچھ عرصے بعد ہمیں ڈیٹس دے دیں گے۔
جاری ہے، اگلی قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
(علی سفیان آفاقی ایک لیجنڈ صحافی اور کہانی نویس کی حیثیت میں منفرد شہرہ اور مقام رکھتے تھے ۔انہوں نے فلم پروڈیوسر کی حیثیت سے بھی ساٹھ سے زائد مقبول ترین فلمیں بنائیں اور کئی نئے چہروں کو ہیرو اور ہیروئن بنا کر انہیں صف اوّل میں لاکھڑا کیا۔ پاکستان کی فلمی صنعت میں ان کا احترام محض انکی قابلیت کا مرہون منت نہ تھا بلکہ وہ شرافت اور کردار کا نمونہ تھے۔انہیں اپنے عہد کے نامور ادباء اور صحافیوں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا اور بہت سے قلمکار انکی تربیت سے اعلا مقام تک پہنچے ۔علی سفیان آفاقی غیر معمولی طور انتھک اور خوش مزاج انسان تھے ۔انکا حافظہ بلا کا تھا۔انہوں نے متعدد ممالک کے سفرنامے لکھ کر رپوتاژ کی انوکھی طرح ڈالی ۔آفاقی صاحب نے اپنی زندگی میں سرگزشت ڈائجسٹ میں کم و بیش پندرہ سال تک فلمی الف لیلہ کے عنوان سے عہد ساز شخصیات کی زندگی کے بھیدوں کو آشکار کیا تھا ۔اس اعتبار سے یہ دنیا کی طویل ترین ہڈ بیتی اور جگ بیتی ہے ۔اس داستان کی خوبی یہ ہے کہ اس میں کہانی سے کہانیاں جنم لیتیں اور ہمارے سامنے اُس دور کی تصویرکشی کرتی ہیں۔ روزنامہ پاکستان آن لائن انکے قلمی اثاثے کو یہاں محفوظ کرنے کی سعادت حاصل کررہا ہے)