’’ لوگ تو زندہ ہیں ضمیروں کا پتا نہیں ‘‘
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جانب ثاقب نثار نے بھی آخر کار محسوس کر لیا اوور کھلی عدالت میں تذکرہ کردیا کہ ذرائع ابلاغ نے بحریہ ٹاؤن کیس کو بلیک آؤٹ کیا۔ ملک کی سب سے بڑی عدالت کی جانب سے یہ تبصرہ ذرائع ابلاغ کے ذمہ داران کی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہے۔
ذمہ داران میں رپورٹر نہٰں ، ایڈیٹر کا منصب تو اخبارات اور ٹی وی چینلوں میں مالکان کے لئے مختص ہو گیا ہے اور وہ ہی فیصلے صادر کرتے ہیں کہ کیا شائع ہوگا اور کیا نہیں ہوگا۔
دھوم دھڑکے کی سیاست انہیں راس آگئی ہے اور پیسے کی فراوانی نے ان کی آنکھوں کو بند کردیا ہے۔ سپریم کورٹ نے جب بحریہ ٹاؤن کے سلسلے میں اس سے قبل فیصلہ دیا تھا تو سوائے ایک دو اخبارات اور چینل کے علاوہ کسی نے اسے شائع کرنا اور نشر کرنا ضروری نہیں جانا تھا۔ بحریہ ٹاؤن کی جانب سے نظر ثانی درخواست پر بدھ کے روز کی سماعت کے دوران وہ بات کہہ ہی دی جو بہت سارے لوگ محسوس کر رہے تھے ۔ بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض چینلوں پر طویل دورانیہ کی ڈاکومینٹری نشر کراتے ہیں جو اشتہار کے زمرے میں ہوتی ہیں۔ چینل مالکان بھلا اس ڈاکومینٹری سے ہونے والی آمدنی سے کیوں کر انکار کر سکتے ہیں۔ ب
ے شک اس کے بدلے میں انہیں بحریہ ٹاؤن کے خلاف سپریم کورٹ کے فیصلے کو ہی کیوں نہ نظر انداز کرنا پڑے۔ ایک گزشتہ تماش گاہ کالم میں لکھا گیا تھا کہ ’’ آزادی صحافت کے لئے ‘‘ ۔
سوال پھر بھی وہ ہی ہے کہ کیا پاکستان میں آزادی صحافت مالکان کے صوابدیدی اختیار کا حصہ ہے، کیا مالکان یہ طے کریں گے کہ کیا نشر ہونا ہے یا کیا شائع ہونا ہے۔ جب سیاست ، سیاسی جرائم، منی لانڈنگ ، عام جرائم ، وغیرہ کی خبریں تھوک کے بھاؤ شاائع ہو سکتی ہیں ، نشر ہو سکتی ہیں تو بحریہ ٹاؤن کے معاملے پر خبر کو بلیک آؤٹ کرنے کا کیا جواز تھا؟
پاکستان میں ٹی وی چینل جس آزادی صحافت کا پھل کھا رہے ہیں،اس کے لئے صحافیوں نے ماضی میں بے انتہا قربانیاں دی ہیں۔ جنرل ضیاء الحق کے مار شل لاء کے اوائل میں ہی ذرائع ابلاغ سے متعلق ایک بھاری بھر کم قرطاسِ ابیض ( وائٹ پیپر) شائع کیا گیا تھا ۔ یہ قرطاس بھٹو دور حکومت کی کارروائیوں پر مشتمل ہے۔ اگر مالکان کو فرصت ملے تو اسے نظر سے ضرور گزار لیں، انہیں علم ہوجائے گا کہ بھٹو دور حکومت اخبارات اور صحافیوں کے لئے کس درجہ مشکل دور تھا۔
انہوں نے اپنے قلم سے بعض صحافیوں ، خصوصا ہفت روزہ ’’ آ ؤٹ لک ‘‘ کے مدیر آئی ایچ برنی کو مٹا دینے تک کا حکم لکھا تھا ۔ آؤٹ لک مختلف سختیوں کی وجہ سے اپنی اشاعت جاری نہیں رکھ سکا تھا۔ پنجاب پنچ، اور دیگر درجنوں اخبارات اور جرائد بند ہوگئے تھے ۔
وزیراعظم کی حیثیت سے بھٹو کے ناگوار، غیر قانونی اور غیر اخلاقی درجنوں احکامات اس قرطاس کا حصہ ہیں ۔
اخبارات اور چینلوں کے مالکان کو خوف کھانا چاہئے کہ اس ملک میں کبھی بھی جمہوریت کے لباس میں آمر اور فوجی وردی میں آمر تخت نشیں ہو سکتے ہیں، تو پھر کیا ہوگا۔ کوئی کہہ رہا ہوگا کہ کالیا تیرا کیا بنے گا ، کوئی آخری قہقہہ لگا رہا ہوگا ۔
اشتہار ہی تو سب کچھ نہیں ہوتا۔ قانونی اور اخلاقی پہلو اشتہار سے کہیں زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔ اشتہار پر خبر سے دست برداری کا سمجھوتہ بھی بھلا کوئی بہتر سودا ہوتا ہے۔ کسی شاعر نے کہا ہے ’’پوچھا حال شہر کا تو سر جھکا کے کہا، لوگ تو زندہ ہیں ضمیروں کا پتا نہیں ‘‘۔ بحریہ ٹاؤن کراچی میں جس انداز سے صدیوں سے آباد گبولوں ، جوکھیوں اور دیگر قوموں سے تعلق رکھنے والے زمین کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کے مالکان کو بے دخل کیا گیا تھا ، جو لوگ اپنی زمین چھوڑنے پر آمادہ نہیں تھے ، انہیں راؤ انوار جو اذیتیں دیتا تھا ، اور مجبور کردیتا تھا کہ وہ اپنی زمین بحریہ ٹاؤن کے حوالے کردیں ۔ لوگ اسی طرح کی دوہائی دیا کرتے تھے جیسی بدھ کے روز ملک ریاض جسٹس ثاقب نثار کے سامنے دے رہے تھے۔
وہ لوگ بھی اللہ کا واسطہ دیا کرتے تھے ، اور ملک صاحب کہا کرتے تھے کی جاؤ اپنی زمین ڈھونڈ لو۔ زمین تو غائب ہو چکی ہوتی تھی کہ بلڈوزر چلا کر رہائش کے مکانات اور زیر کاشت زمین کو ملیا میٹ کردیا جاتا تھا۔ حکومت نہیں سنتی تھی۔ ملیر ڈیو لپمنٹ اتھارٹی کے سربراہان راؤ انوار کی طرح بحریہ ٹاؤن کے ملازم بنے ہوئے تھے ۔
یہ کوئی افسانہ نہیں ہے۔ مختلف عدالتوں کے ریکارڈ میں مقدمات موجود ہیں۔ اپنے وقت پر عدالت عظمی کو اللہ کی دہائی دینے والے ملک ریاض ماضی میں وسائل سے محروم لوگوں کی دوہائی پر کان نہیں دھرا کرتے تھے ۔ آج ان کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے اسے ہی تو مکافات عمل کہا جاتا ہے۔ بحریہ ٹاؤن مقدمہ کی کارروائی پڑھ کر اندازہ کیا جانا چاہئے کہ گرفت کیا ہوتی ہے۔
ذرائع ابلاغ کے مالکان کو توجہ کرنا چاہئے ۔ وقت، دولت اور سمندر کی لہر کسی کے پابند نہیں ہوتے ۔ ابھی میں ادھر ہیں تو دوسرے لمحے کہیں اور۔ ماضی کے بڑے اور بہت بڑے اخبارات آج کہاں غائب ہوگئے ہیں، ان کے مالکان کہاں گم ہو گئے ہیں ۔
چینل مالکان اور اخبارات کے مالکان کو کسی تاخیر کے بغیر اپنے اداروں کی بھلائی ، ساکھ اور ذرائع ابلاغ کی اہمیت کے پیش نظر اپنے اداروں (اخبارات اور ٹی وی چینلوں ) میں ایڈیٹر کا منصب پورے اختیارات کے ساتھ بحال کرنا چاہئے کہ اسی میں سب کی بھلائی ہے۔
سوشل میڈیا پر ایک بلاگ میں عدالتی کارروائی کی پوری خبر لکھی گئی ہے کہ سپریم کورٹ نے بحریہ ٹاؤن کراچی کو حکم دیا کہ پلاٹس کے خریداروں سے رقم وصول نہ کی جائے۔ چیف جسٹس نے رقم وصولی کو عدالتی حکم عدولی قرار دیتے ہوئے کہا کہ لوگوں کو نوٹس بھیجے جا ر ہے ہیں پیسے بحریہ ٹاؤن کے اکاوئنٹس میں جمع کروائے جائیں جبکہ عدالتی فیصلے میں واضح کہا گیا ہے کہ رقوم عدالتی حکم پر کھولے گئے اکاؤنٹ میں جمع کروائی جائیں۔ بحریہ ٹاؤن نظر ثانی کیس کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی۔ بحریہ ٹاؤن کے سربراہ ملک ریاض بھی اپنے وکیل اعتزاز احسن ( ’’ریاست ہو تو ماں جیسی‘‘ شاعری کے خالق) کے ہمراہ سپریم کورٹ میں پیش ہوئے۔ عدالت نے ملک ریاض کو دو ہفتے میں پانچ ارب روپے زر ضمانت جمع کرانے کا حکم دیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ غیر قانونی اور ناجائز طور پر قبضہ کر کے خیرات کے کام نہیں ہوتے۔
ایک آدمی اگر چوری کر کے رقم لوگوں میں بانٹ دے تو کیا ہم اسے چوری کی اجازت دیں گے،ہمیں قانون کے تحت فیصلہ کرنا ہے، ہمیں کسی سے ہمدردی نہیں، جو رقم اس ملک کی ہے وہ آ پ کو واپس کرنا ہوگی، ہم نے کراچی میں کثیر المنزلہ عمارتوں پر پابندی لگائی لیکن بحریہ ٹاؤن میں اب بھی بیس منزلہ عمارتیں بنا ئی جارہی ہیں۔ملک ریاض نے اپنا موقف پیش کرتے ہوئے کہا جب بھی عدالت نے بلایا میں حاضر ہوا ہوں، میں نے کراچی میں بحریہ ٹاؤن کا منصوبہ اس لئے بنایا کہ پاکستان تیسری دنیا سے پہلی دنیا بنے۔
ایسا فیصلہ کریں کہ منصوبہ بھی چلتا رہے اور لوگ بے روز گار بھی نہ ہوں۔ملک ریاض نے عدالت کو بتایا کہ ملک میں دو دہائیوں سے بجلی کا بحران ہے، بحریہ ٹاون چوبیس گھنٹے بجلی فراہم کررہا ہے، بحریہ ٹاؤن کراچی میں دنیا کی تیسری بڑی مسجد ہے۔
ملک ریاض نے کہا قطر کے شہزادے نے مجھے بلایا کہ فٹ بال ورلڈ کپ کے لئے اسٹیڈیم بنائیں، میں نے انکار کر دیا، دبئی کے شیخ محمد نے دبئی میں مفت پلاٹ دئیے۔ملک ریاض نے جب یہ کہا کہ تخت پڑی کا جو مقدمہ چل رہا ہے نیب اسے کلیئر قرار دے چکا ہے تو چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا اس وقت کے نیب کلیئرنس پر نہ جائیں۔
سربراہ بحریہ ٹاؤن نے کہا میں کینسر کا مریض ہوں، چیف جسٹس نے مکالمے میں کہا ملک صاحب آپ طاقتور ہیں، آپ کے خلاف کوئی سر اٹھا نہیں سکتا، جس پر ملک ریاض کا کہنا تھا، اللہ کی قسم طاقتور صرف اللہ کی ذات ہے۔
چیف جسٹس نے ملک ریاض کو ہدایت کی کہ بیس ارب روپے سپریم کورٹ میں جمع کروائیں، دو ارب تو میں نے لوگوں سے نکلوائے ہیں، آپ کے دینی کاموں کی وجہ سے غیر قانونی کاموں کی اجازت نہیں دے سکتے۔
ملک ریاض کا کہنا تھا ہمارے اسپتالوں میں یورپ اور امریکہ جیسی سہولیات ہیں، ہم نے تعلیم، چڑیا گھر اور تفریحی مقامات بنائے ہیں، نیب کی وجہ سے لوگوں کی پراپرٹی کے ریٹ تباہ و برباد ہورہے ہیں۔ ملک ریاض نے چیف جسٹس کو بحریہ ٹاؤن کے دورے کی پیش کش بھی کی جس پر چیف جسٹس نے کہا مجھے بحریہ ٹاؤن جاکر خود پر الزام لگوانا ہے؟ چیف جسٹس کے ریمارکس پر کمرہ عدالت میں قہقہے گونج اٹھے۔
ایک موقع پر چیف جسٹس نے کہا کہ خیر خیرات کا کام رشوت دے کر نہیں ہو سکتا تو ملک ریاض نے جواب دیا، اللہ کی قسم کسی کو رشوت نہیں دی۔چیف جسٹس نے مزید کہا کہ کل بھی ایئر پورٹ پر لوگوں نے منتیں کیں کہ ہماری سرمایہ کاری ڈوب جائے گی۔
ملک ریاض صاحب ایک زمانے میں میرے کلائنٹ رہے ہیں۔چیف جسٹس کا کہنا تھا اب بحریہ ٹاؤن نے کوئی نیا منصوبہ نہیں کرنا۔ تمام کام بند کرا دوں گا جس دن ملک ریاض کو کچھ ہو گیا تو سب کچھ ڈوب جائے گا۔ آپ دس ارب روپے جمع کرا دیں۔ ملک ریاض نے درخواست کی کہ مجھ پر اتنا بوجھ ڈالا جائے کہ اٹھا سکوں۔ سپریم کورٹ مقدمے کا حتمی فیصلہ ہونے تک نیب کو روکے۔ میں نے کوئٹہ اور مری میں بھی منصوبے بنانے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا ملک صاحب اب اپنی آخرت سنواریں، آپ کو اپنی زندگی گزارنے کیلئے کتنے پیسے چاہیءں، کوئی قبر میں لے کر نہیں جاتا، پیسے قوم کے حوالے کر دیں، لوگوں کو امانتیں لوٹا دیں۔ اس موقع پر ملک ریاض کا گلا خشک ہوگیا۔
انہوں نے کہا مجھے پانی لا کر دو۔ ملک ریاض کا کہنا تھا کلمہ پڑھ کر کہتا ہوں مجھے پیسوں کی ضرورت نہیں۔ چیف جسٹس نے ملک ریاض کو کہا آپ کی جائیدادیں قرق کرتے ہیں۔ ملک ریاض نے کہا میری کوئی جائیداد نہیں ہے۔ چیف جسٹس نے کہا جہاں آپ رہتے ہیں وہ گھر قرق کرتے ہیں، آپ سو کنال کا گھر بھی بنا رہے ہیں، ملک ریاض نے کہا وہ گھر میری بیوی کے نام ہے، خدا کیلئے پانچ ارب روپے کر دیں۔ تین مرتبہ خدا کا واسطہ دے چکا ہوں۔چیف جسٹس نے مکالمے میں بتایا کل حیدرآباد سے آرہا تھا میری بیوی نے ڈرائیور سے پوچھا بحریہ ٹاؤن کہاں ہے، ڈرائیور نے بتایا ساتھ ہی ہے، بیوی نے کہا بحریہ ٹاؤن چلیں۔ میں نے بیوی کو جواب دیا خدا کا واسطہ ہے۔ چیف جسٹس کے اس مکالمے پر کمرہ عدالت میں ایک بار پھر قہقہے بلند ہوئے۔چیف جسٹس نے ملک ریاض کو دو ہفتے میں پانچ ارب روپے اور ذاتی جائیدداد کے کاغذات بطور ضمانت جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔
ملک ریا ض کو بھی ان کی دسترس میں موجود دولت پر بڑا گھمنڈ ہے اس کا تذکرہ جس انداز میں عدالت میں سامنے آیا، وہ کچھ یوں تھا۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ملک ریاض کو مخاطب کرتے ہوئے تبصرہ کیا کہ ہمیں معلوم ہے سینیٹ میں آپ نے کیا کردار ادا کیا۔
ملک ریاض نے کہا کہ پورے میڈیا میں مجھے ڈون بنا دیا گیا، جس پر چیف جسٹس نے ریاض ملک سے مکالمے میں کہا کیا آپ حکومتیں گرانے اور بنانے میں ڈون نہیں بنے رہے؟ حکومتیں بنانے اور گرانے کا کام چھوڑ دیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا ملک ریاض وہ وقت نہیں رہا جب آپ کے لیے اگلے ہی دن حکومتیں تبدیل ہوجاتی تھیں، ہمیں بتائیں سینیٹ الیکشن میں آپ نے کیا کیا؟ ہمیں پتہ ہے بس رہنے دیں۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کل کی ساری کارروائی میڈیا نے بلیک آؤٹ کردی، کیا آپ کا اتنا اثر و رسوخ ہے؟ کیا آپ نے پیسے تو نہیں لگادیے؟ ملک ریاض صاحب آپ کے ساتھ ناانصافی نہیں ہوگی۔
ملک ریاض نے کہا ہر چیز میرے نام نہ لگائی جائے۔چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا ملک صاحب میں کراچی بحریہ ٹاؤن کا دورہ کرنے آرہا ہوں، اگر ملک ریاض کو جیل بھیج دیا تو جہاں کرین کھڑی ہے وہیں کھڑی رہے گی۔ میں نے حساب کتاب کر کے ملک صاحب ایک ایک روپیہ واپس کرانا ہے۔ جس پر ملک ریاض نے بیچارگی سے کہا میں نے کیا گناہ کیا ہے؟اس سے قبل ملک ریاض نے عدالت میں تحریری جواب جمع کرایا۔ عدالت نے ملک ریاض کے تحریری جواب پر حکم دیا کہ ملک ریاض پندرہ دن میں پانچ ارب روپے جمع کرائیں،پانچ ارب روپے سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں جمع ہوں گے۔ بحریہ ٹاؤن کے تمام مقدمات سے متعلق معاملات حل ہونے تک رقم جمع رہے گی۔ چیف جسٹس نے کہا اپنے اخراجات کے لئے وہ جتنے پیسے چاہیں رکھ لیں۔
سپریم کورٹ نے نیب کو حکم دیا کہ نظرثانی کیس کا فیصلہ ہونے تک بحریہ ٹاؤن کے ملک ریاض اور ان کے اہل خانہ کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی جائے۔سپریم کورٹ نے بحریہ ٹاؤن کو سرمایہ کاروں سے رقم وصول کرنے کی اجازت دے دی۔