”کتنے۔ آدمی۔ ہیں ؟؟؟ وہ مُلک مار۔۔۔ پانچ ہزار؟“
جو واقعتاً مار سکتا ہے، اس کی ہلکی سی دھمکی بھی سنسناتی ہوئی گولی سے کم نہیں لگتی۔ پھر ایک سنسنی ہے جو ملک بھر میں پھیل چکی ہے۔ سیاست وصحافت کے چند بڑے (زرد ) مخبر حضرات صاف کہتے پھرتے ہیں کہ اس بار ملکی ناﺅ سیاستدانوں کی بدولت کہیں غرقاب ہونے لگی، تو اس کو سطحِ آب پر لا رکھنے کے لئے مضبوط بازو بلاتاخیر بڑھ تو آئیں گے۔ لیکن، اس بار وہ جہاں کشتی کو ڈوبنے سے بچائیں گے، وہیں پیندے میں موجود ہر چھید بھی ہمیشہ کے لئے بند کر دیں گے۔ ہر سوراخ کا قصہ تمام ہو جائے گا۔ خواہ موریاں پھر سینکڑوں ہوں، چاہے تو پانچ ہزار بھی ہوں۔ ہر چھید ہی مگر ناپید کر دیا جائے گا۔ سب کرپٹ عناصر کا قلع قمع کر دیا جائے گا۔ اس بار مگر وہ کڑا احتساب ہو گا کہ پھر ملکی تاریخ کا سنہری باب ہو گا گویا۔ جس کے اوراق وقتی طور پر ذرا لہولہان بھی نظر آئیں گے۔ ۔۔ اور، المختصر، یہ سن کر اہلِ سیاست کے دل بے طرح لرز جاتے ہیں۔ وہ بخوبی جانتے ہیں کہ ریاست کے قوی ترین بازو اگر ایسا ہی کرنے کی ٹھان لیں، وسیع تر ملکی مفاد کا علم لہرا لہرا کر، تو انہیں پھر کون روک سکتا ہے؟ مگر، ابھی تو ، کوئی نہیں!
ہاں، جب کہیں ٹینک خوامخواہ سڑک پر آ جاتا ہے تو اس کے سامنے سینہ پھر عام آدمی ہی پیش کرتا ہے۔ اس کی مثال ، کچھ ہی سال پہلے ترکی کا وہ روشن حال ! ہاں مگر، پاکستان کا احوال بالکل اور ہے۔ پاکستان میں عوام اپنے آزمودہ سیاستدانوں سے تو بے زار تھے ہی، موجودہ حکمرانوں سے بھی مایوسی کی فضا بنتی جاتی ہے۔۔۔ پھر، حزبِ اختلاف کی زبان پر،مفلس آدمی کا چولہا بالکل ہی بجھ جانے کا شور تو محض مبالغہ ہے۔ مگر، یہ حقیقت ہے کہ مہنگائی کے تھپیڑوں نے عام آدمی کے لائف اسٹائل کو بری طرح متاثر کیا ہے۔سال بھر پہلے، موسمِ گرما میں، جس گھر میں اے سی اکثر ہی آن رہتا تھا، وہاں اب ہر وقت بس ائیر کولر کا شور ہی حاوی رہتا ہے۔۔۔ اور، یہ تو واقعی المیہ ہے کہ ہر وہ باپ اب نہایت پریشان ہے ، جس نے بڑے خواب سجاتے ہوئے اپنے بچے مہنگے اسکول میں داخل کروا رکھے ہیں۔ ایک ہی سال میں مگر متوسط طبقہ کا وہ حال ہو گیا ہے کہ چاروناچار لوگ اپنے بچوں کو نسبتاً سستے اور ادنیٰ معیارکے اسکولوں میں بھیجنے پر مجبور ہوتے جا رہے ہیں۔ اور یہ مجبوری پاکستانی لوگوں کو خون کے آنسو رلا رہی ہے۔پھر، حکومت چاہے اپنی قوم کی تعلیم پر توجہ کم سے کم دے، مگر پاکستانی شہری اپنی اولاد کی تعلیم کے بارے میں بہت حساس ہے۔ اور ، بغور دیکھا جائے تو پاکستانی اپنے منہ کو لذیذ کھانوں سے تر کرنے سے کہیں زیادہ اپنے بچوں کی بہترین پڑھائی کی خاطر ہی، زیادہ سے زیادہ، کمانا چاہتا ہے۔۔۔ اور، جائز کمائی کے رستے ہی ، وقتی طور پر، تنگ از تنگ ہوتے جا رہے ہیں۔
لیکن، لوگ پھر بھی مہنگائی ، بے روزگاری کے خلاف سڑکوں پر خودبخود تو ابھی شاذ ہی آئیں گے۔ وہ آئیں بھی تو کس کے لئے؟ حکمران جماعت کو ہٹا کر، کرسی پر لائیں بھی تو کس کو آخر؟ کون سی سیاسی جماعت عوام کے حق میں اتنی مخلص ہے کہ جس کی خاطر مصیبتیں بھی سہہ جانا فرض ہو جاتا ہے گویا ؟ خود عوام کے خیال میں ، وطنِ عزیز میں ایسی تو ایک بھی سیاسی جماعت نہیں۔ پھر، البتہ ، یہ بھی غلط نہیں کہ عوام کے اندر وہ سراسیمگی اور تشویش بہرحال بڑھتی جا رہی ہے کہ جس کومسلسل پروپیگنڈہ کے زور سے کہیں بھڑکا کر، جس کی زبردست حرارت سے ، یہی اپوزیشن اسی حکومت کو پسینوں پسین اور پسپا کر بھی سکتی ہے۔ مگر، قومی وسائل سے خاندانی دولت بڑھانے والے، چھوٹے بڑے، سیاستدان بے چارے!!! وہ تو سرِدست اپنی اپنی گلوخلاصی کے علاوہ کچھ بھی نہیں چاہتے۔ اور، جاری وساری جھوٹا سچا احتساب آج رک جائے، تو پھر بھلے یہی حکومت مع موجودہ حکمران ہی پانچ سال تک چلتی جائے، کسی بڑی سیاسی پارٹی کو عوامی مسائل پر حقیقی احتجاج کا دماغ تک نہیں رہتا۔
ابھی، مقدمات کی ماری اپوزیشن کو احتجاج کا دماغ تو بظاہر بڑا ہے۔مگر، دراصل، جگر ذرا بھی نہیں۔ ہو بھی نہیں سکتا، کہ بے جگری انسان میںبڑی طاقت سے پیدا ہوتی ہے یا پھر اخلاقی عظمت سے۔ اور، اخلاقی عظمت حتیٰ کہ اندھی طاقت پر حاوی ہو سکتی ہے۔ مگر، اخلاقی اعتبار سے پست کردار تو پھر کسی بڑی طاقت کے سامنے اپنا سر ذرا بھی بلند کرنے کا یارا رکھ ہی نہیں سکتا۔ پس،قصہ مختصر، یونہی فِیلر کے طور پر چھوڑی جانے والی شدنی پہ ریاست اگر واقعی عمل پیرا ہو بھی جائے، سیاسی اور مالی اشرافیہ پر قہر بن ٹوٹ پڑے، تو بھی کیا ہو گا؟ پھر، سیاستدان کی بڑی طاقت، عوام سے ۔اور، عوام تو فی زمانہ اپنے اہلِ سیاست سے ناامید سے۔ تو پھر، اشرافیہ کی حتیٰ کہ چیخیں سن کر بھی ، وقتی طور پر ، قوم کی جانب سے تو قہقہوں کے سوا کچھ نہ سنائی دے گا۔۔۔ ہاں، اس کے بعد خود ملک کا معاشرتی و معاشی مستقبل اگلے دو تین عشروں تک بے حد مخدوش ضرور ہو جائے گا۔ جب ، آج تک معززومحترم ہی رہنے والے، ہر بڑے کے ”کرتوت“ پھر طشت ازبام رکھتے ہوئے، سبھی کو ازبسکہ پکڑ اور نچوڑ لیا جائے گا ، تو ہر وہ نوجوان چپ چاپ اپنے ملک سے نکل جانے کو اپنی عملی زندگی کا پہلا مقصد بنا لے گا، جو کہ بڑے خواب دیکھے بنا رہ ہی نہیں سکتا۔ ۔۔
پھر، جو بنتا ہی بڑے قدم اٹھانے کے لئے ہے، رستہ مسدود پاتے ہی وہ رستہ بدل جاتا ہے۔۔۔گویا جس ملک سے پہلے انسانی ذہانت نے ہجرت شروع کی، جسے عرفِ عام میں ”برین ڈرین“ کہا جاتا ہے، وہاں سے اب انسانی عزم بھی چھٹی لے جائے گا۔ اور،پہلے ہمارے ذہین ترین اور تخلیقی افراد ہم سے کنارہ کرنے لگے۔ وہ، جو ہزارا طوار سے قوموں کی کردار سازی اور چارہ سازی کیا کرتے ہیں۔ اور، اب ہمارے عظیم کاروباری اور تعمیری اذہان بھی ہمارے ہاتھوں سے نکل جائیں گے۔ ہم بالکل ہی لٹ جائیں گے گویا۔ ہمارا ذہن تو سکڑتا جا ہی رہا ہے۔ اب ہمارا پیٹ بھی کمر سے جا لگے گا۔۔۔
ہاں، دو تین سال تک ریاست خاصی مطمئن ومسرور ہو بھی سکتی ہے۔ کھرب ہا روپے، چند ہزار افراد سے بٹور کر، کام وقتی طور پر تو بخوبی چل جائے گا۔ مگر، دیکھتے ہی دیکھتے ، ہر کام پھر ٹھپ سا ہوتا جائے گا۔ اور، ہر ہر کام تو ریاست خود نہیں کر سکتی۔ کام تو بندہ ہی کرتا ہے۔ اور کام کے بندے تو پھر اپنی ریاست کو الوداعی سلام کر تے جائیں گے۔۔۔ اور، اپنے قابل اور کمال افراد کو ملک ہی میں رکھنے کی غرض سے ان کے باہر جارہنے پر پابندی وغیرہ بھی اگر عائد کر دی جائے، تو بات اور بگڑ جاتی ہے گویا۔ پھر تو جیسے ہنستا مسکراتا، جیتا جاگتا، اور آگے سے آگے بڑھتے جانے کی عظیم تڑپ رکھتا پاکستان ، اور جیسے سرسبزوشاداب گلشن میں بنے وسیع وعریض گورستان سا کوئی ملک، مثلاً شمالی کوریا۔ ایک ہائیڈروجن بم وغیرہ بنا رکھنے کے سوا، جس کا نام کسی بھی شعبہ ءحیات میں نمایاں نہیں۔ جیسے وہ تو بڑے انسان پیدا ہی نہیں کرتا۔ آہ مگر، اس کے ذہین باسیوں کے پاس وہ مواقع ہی نہیں۔ اس سے بھی مہلک خسارہ یہ کہ ایک مدت سے ان میں جیت پانے کا وہ جذبہ ہی بے دار نہیں۔
مگر، جیت جانے کا جذبہ پاکستانی میں تو اتنا زیادہ بھڑکتا رہتا ہے کہ ِ قابل پاکستانیوں کو ہجرت سے بزورِ بازو روک لیا جائے، اور اپنے یہاں بھی انہیں، بڑا بن رہنے کا، راستہ رستہ کبھی نہ دیا جائے۔ تو پھر پاگل پن اور خودکشی کی شرح میں اضافہ مسلسل نظر آتا ہے۔ اور ایسے بھیانک تسلسل کا انجام پھر اچھا اور بھلا کہاں ہو سکتا ہے! مگر، ملکِ پاکستان تو، تہہِ دل سے، اپنی بھلائی ہی چاہتا ہے۔ پاکستان تو بڑھ چڑھ کر دنیا کے ساتھ بھی اچھائی اور بھلائی ہی کرنا چاہتا ہے۔۔۔ المختصر، پھر دھمکی اپنی جگہ۔مگر، جہاں تک عمل کا امر ہے ، تو فوری اور دائمی ، ہر ہر قومی نفع پر بخوبی نگاہ رکھتا پاکستان ، کچھ مدت سے بالخصوص، اپنا ہر بڑا عمل بڑی سوچ بچار کے بعد ہی کرتا دکھائی دیتا ہے۔ ۔۔ اور جیسے کوئی طوفانی بلے باز مثالی تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی زندگی کی سب سے مشکل، اور ٹورنامنٹ کی اہم ترین اننگز کھیلتا جاتا ہو۔ کبھی فرنٹ فٹ پر۔ کہیں بیک فٹ پر۔۔ ہر یارکر پر بھرپور دفاع۔ ہر باﺅنسر پر تیزی سے جھکائی۔۔ اور ، ہر ایک لوز بال پر بڑی شاٹ۔ اسکور میں مسلسل اضافہ۔ اپنی ٹیم کے لئے بڑا ہی کام گویا۔۔۔ پھر،ریاستِ پاکستان کی وہ ٹیم کیا ہے؟ موجودہ اور آئندہ، تمام نسلیں!!! اور، اپنی قوم کے حال ومستقبل کی خاطر پاکستانی ریاست پھر، خارجی وداخلی ، ہر ہرمحاذ پر انتہائی احتیاط سے چلتی دکھائی دے رہی ہے۔۔۔ ایسے میں، سر جھکا کے روک لینے والی کسی بال کو وہ منہ اٹھا کر اوپر ہوا میں اٹھا دے اور۔۔ کہیں دائرہ میں ہی کیچ آﺅٹ ہو جائے ۔ تو، اس کا امکان بظاہر کہیں نہیں رہتا۔ المختصر ، بظاہر تو پھر ”کتنے۔ آدمی۔ ہیں؟“ گھوری اور گُھڑکی ہی لگتی ہے، فی الوقت، یہ کوئی گھر کے بڑوں کا باقاعدہ فیصلہ توہرگز نہیں۔ہاں، یہ تو شاید شوکا شاکی ہی، خیر!