ڈھلتے ہوئے سائے
ایک کمزور اور ناکام حکومت نے اچانک عوام کے سروں پر پٹرول کا”ایٹم بم“ گرا دیا ہے۔ جب بھی پٹرول چار چھ روپے فی لٹر مہنگا ہوتا ہے تو شہہ سرخی پٹرول بم کی لگتی ہے، لیکن یکلخت 25روپے تو ایٹم بم سے کم نہیں۔ جواز‘ بہر حال عالمی مارکیٹ میں تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتیں بتایا گیا ہے،لیکن عالمی مارکیٹ میں تو یہ اب بھی بیرل کے 40 یا 42 ڈالرسے زیادہ نہیں ہیں۔پاکستان کے پہلے ڈکٹیٹر ایوب خان کے پوتے عمر ایوب خان نے تو باقاعدہ قوم پر احسان بھی جتایا ہے کہ یہ اضافہ 32 روپے بھی ہو سکتا تھا لیکن عوام کی خاطر 25 روپے ہی کیا گیا۔ عظیم سیاسی دانشور ڈاکٹر شہباز گل نے اس سے بھی بڑا احسان جتایا کہ چین، جاپان، بھارت اور دوسرے ملکوں سے موازنہ کر لیں، ہمارے یہاں اب بھی سب سے کم ہے۔) ہاں لحاظ خاطر رہے کہ موازنہ ہمارے عوام کی ان ممالک کی آمدنیوں سے نہ کیا جائے اور نہ ہی ان ممالک میں بجلی، ادویات، چینی اور ضروریات عامہ کی دوسری چیزوں سے کیا جائے(۔اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان کے دل میں عوام اور خصوصاً غریبوں کے لئے بہت درد بتایا جاتا ہے
لیکن ان کے مصاحبین شائد ان کو یہ نہیں بتا رہے کہ اس ایٹم بم سے سب سے زیادہ اپ سیٹ تو ان کے اپنے سپورٹر اور ووٹر ہیں جو آج کل زیادہ تر منہ چھپائے پھرتے ہیں۔ جہاں تک پاکستان میں تیل کی قیمتوں کا تعلق ہے، یہ یاد کر لینے میں کوئی ہرج نہیں کہ مسلم لیگ (ن) کے دور میں عالمی مارکیٹ کی فی بیرل یہ زیادہ تر 60 تا 80 ڈالر تھیں اور ملک میں پٹرول 70 تا 80 روپے لٹر بکتا رہا۔ پیپلز پارٹی کے دور میں پٹرول 100 روپے سے زیادہ رہا لیکن اس وقت عالمی مارکیٹ میں قیمتیں 140سے150 ڈالر ہوا کرتی تھیں۔ 40 ڈالر پر 100 روپے فی لٹر کا نادر تحفہ تو عمران خان حکومت نے ہی دیا ہے۔ خیر، پٹرول ایٹم بم جو عوام کے سروں پر پھوڑنا تھا وہ تو پھوڑ دیا اور ساتھ ہی ”ٹیکس فری بجٹ“ کا احسان اپنی جگہ اسی طرح قائم ہے۔ ابھی تو فنانس بل (بجٹ) 2020 پر بحث مکمل بھی نہیں ہوئی تھی اور اس نے فنانس ایکٹ 2020 بننا ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ عوام کے ساتھ جو سلوک کیا جا رہا ہے، میرا دھیان بانیانِ پاکستان میں ایک عظیم شخصیت غلام بھیک نیرنگ کی طرف چلا گیا۔
غلام بھیک نیرنگ سے نئی نسل شائد اتنی آشنا نہ ہو۔ وہ قائد اعظم اور علامہ اقبال کے ہمعصر اور ساتھی تھے اور زیادہ تر میر نیرنگ کے نام سے مشہور تھے۔وہ قائد اعظم سے تین ماہ اور علامہ اقبال سے سوا سال قبل امبالہ (مشرقی پنجاب) کے نواحی قصبہ دورانہ میں پیدا ہوئے۔ دوران طالب علمی علامہ اقبال کے ہاسٹل کے ساتھی بھی تھے اور بعد میں ایک وکیل، شاعر اور تحریک پاکستان کے صف اول کے راہنما بھی۔ غلام بھیک نیرنگ 1938 تا 1942 آل انڈیا مسلم لیگ کے ڈپٹی لیڈر رہے اور اس دور میں ہی 1940 میں قرارداد پاکستان‘ لاہور کے منٹو پارک میں منظور ہوئی۔ ان کا مجموعہ کلام ”کلامِ نیرنگ“ کا پہلا ایڈیشن 1907 میں طبع ہوا۔اس کی ایک مشہور نظم ”اک ہجوم غم و کلفت ہے خدا خیر کرے“ ہے۔ ایسا لگتا ہے غلام بھیک نیرنگ نے سوا سو سال پہلے عمران خان حکومت دور کی منظر کشی کچھ یوں کی تھی:
اک ہجوم غم و کلفت ہے خدا خیر کرے
جان پر نت نئی آفت ہے خدا خیر کرے
جائے ماندن ہمیں حاصل ہے نہ پائے رفتن
کچھ مصیبت سی مصیبت ہے خدا خیر کرے
آ چلا اس بت ِ عیار کی باتوں کا یقیں
سادگی اپنی قیامت ہے خدا خیر کرے
رہنماؤں کو خود بھی نہیں پتہ رستہ کا
راہ رو پیکر حیرت ہے خدا خیر کرے
کرکٹ میچ دیکھنے والوں کو معلوم ہے کہ جب دن ڈھل رہا ہو تو سٹینڈ کے سائے بڑھتے بڑھتے وکٹ تک پہنچ جاتے ہیں۔ اس کے بعد زیادہ دیر تک میچ جاری رہنا ممکن نہیں ہوتا۔ سائے دن کے ڈھل رہے ہوں، زندگی یا حکومت کے، ان سے معلوم ہو جاتا ہے کہ اب زیادہ وقت باقی نہیں رہا۔ جب کوئی حکومت ناکام ہو جائے تو اس کے لئے آگے چلنا مشکل تر ہوتا جاتا ہے۔ عمران خان حکومت اپنا دوسرا سال ختم ہونے سے پہلے ہی ناکام ہوتی نظر آ رہی ہے ایسا لگتا ہے ڈھلتے سائے وکٹ تک پہنچنا ہی چاہتے ہیں۔ حکومت کے اہم وزراء اگر وزیر اعظم بننے کے لئے بے تاب ہوں تو اس سے ثابت ہوتا ہے کہ انہیں لگتا ہے کہ قائد کے ہٹ جانے کے بعد وہ وزیر اعظم بن سکتے ہیں۔فواد چوہدری نے انٹرویو میں جو کہا، وہ ازخود نہیں ہو سکتا۔ اگر ہوتا تو اب تک نکال دئیے گئے ہوتے۔ یہ وزیر اعظم کی طرف سے دو عدد نمبر2 یعنی شاہ محمود قریشی اور اسد عمر کے لئے پیغام تھا کہ وہ کریز سے باہر نکل کر چھکے لگانے کی نہ سوچیں ورنہ سٹمپ آؤٹ ہو جائیں گے جیسے ان سے پہلے جاوید ہاشمی اور جہانگیر ترین بھی ہو چکے ہیں۔ کابینہ اجلاس میں اگر وزیر اعظم اپنے وزراء کو باہمی دست و گریباں ہونے سے روک رہا ہو تو سیاست سمجھنے والے جانتے ہیں کہ یہ قائد کی گرفت کی سب سے بڑی نشانی ہوتی ہے۔ محلاتی سازشیں اور اندرونی جوڑ توڑ تو کسی بھی حکومت میں ہو سکتا ہے کہ یہ انسانی جبلتوں میں ایک ہے لیکن سائے اگر ناکامی کے ہوں تو وہ ایسے گہرے سیاہ بادلوں جیسے ہوتے ہیں کہ امپائر کو بیڈ لائٹ کا فیصلہ کرنا پڑتا ہے۔ اگر نہ بھی کرے تو کچھ ہی دیر میں موسلا دھار بارش شروع ہونے سے جل تھل ایک ہو جاتا ہے۔
بہت کم لوگوں نے سوچا ہو گا کہ عمران خان کے وزیر اعظم بننے کے بعد 22 سالہ ”جدوجہد“ حکومت دلائے جانے کے صرف 22 مہینوں میں ناکام قرار دی جانے لگے گی۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ منصوبہ ساز جب کسی انسان کو دیوتا کے درجہ پر فائز کرنا چاہتے ہیں تو ان کی تمام توجہ اس انسان کے کارناموں اور کامیابیوں پر مرکوز ہوتی ہے۔ وہ کرشماتی شخصیت کی امیج بلڈنگ میں اس حد تک آگے چلے جاتے ہیں کہ اس کی بشری کمزوریوں کو یکسر نظر انداز کر دیتے ہیں اور جب اس دیوتا کو منصب پر بٹھایا جاتا ہے تو وہی بشری کمزوریاں پاؤں کی بیڑیاں بن جاتی ہیں۔ زیادہ عرصہ نہیں گذرتا کہ آنے والے اور لانے والوں دونوں کی کیفیت ’نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن‘ کی سی ہو جاتی ہے۔ عمران خان کا کیس بھی زیادہ مختلف نہیں ہے۔ وہ کرکٹ کے قومی ہیرو اور کرشماتی شخصیت کے مالک ضرور تھے لیکن ان کے کارنامے کرکٹ کے میدان میں تھے اور اسی عوامی پزیرائی کی وجہ سے عوام نے انہیں ہسپتال اور کالج کے لئے دل کھول کر چندہ دیا
تھا۔ عمران خان نے 1996 میں اپنی پارٹی بنا کر سیاسی سفر کا آغاز کیا جو 15 سال تک زیادہ تر بے ثمر ہی رہا۔ البتہ 2011 میں لاہور کے ایک جلسہ کے بعد اس سفر میں اچانک ایسی تیزی آئی جیسے کہ جنات کی مدد حاصل ہو گئی ہو کہ سالوں کا سفر مہینوں میں‘ اور مہینوں کا دنوں میں طے ہونے لگا اور بالآخر 2018 میں اس کا اختتام وزیر اعظم ہاؤس میں داخل ہوکر ہوا۔جس نے بھی سوچا، صرف عمران خان کی شخصیاتی کرشمہ کا ہی سوچا اور دوسرے تمام پہلو نظر انداز کر دئیے۔ انہیں وزیر اعظم بنے ابھی صرف ایک ماہ ہوا تھا کہ اتفاق سے پاکستان کے مشہور کرکٹ کمنٹیٹر حسن جلیل سے کہیں ملاقات ہو گئی۔ وہ 1990 کی دہائی میں امریکہ منتقل ہوگئے تھے۔ اتفاق سے ان دنوں پاکستان آئے ہوئے تھے۔ حسن جلیل دس بارہ سال(1983 تا4 (199 تک کرکٹ کے ایک رسالہ کے مدیر رہے تھے جس کا اجرا اس وقت کی پاکستان کرکٹ ٹیم کے کپتان عمران خان نے کیا تھا۔ دس بارہ سال تک رسالہ میں ساتھ اور کرکٹ کی زندگی میں تیس سال سے زیادہ کا ساتھ رہنے کی وجہ سے وہ عمران خان کی شخصیت کو بہت قریب سے جانتے ہیں۔ اس لئے موقع غنیمت جانتے ہوئے میں نے ان سے پوچھا کہ کچھ دن پہلے عمران خان نے وزارت عظمی کا عہدہ سنبھالا ہے تو آپ کا کیا تبصرہ ہے۔
کہنے لگے کہ آپ جانتے ہی ہیں کہ میں نے انہیں تیس سال کتنا قریب سے دیکھا ہے اور دو وجوہات کی وجہ سے کہہ سکتا ہوں کہ وہ کامیاب بالکل نہیں ہوں گے۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ وہ کانوں کے بہت کچے ہیں۔ اس ضمن میں انہوں نے کرکٹ دور کے کئی واقعات سنائے۔ دوسری بات انہوں نے یہ کہی کہ اگر کوئی شخص اپنی پوری زندگی میں کسی دفتر میں ایک دن بھی نہ بیٹھا ہو اور اسے کام کرنے کا تجربہ نہ ہو تو اتنی پیچیدہ صورت حال میں گھرے ہوئے 22 کروڑ لوگوں کا ملک کیسے چلا سکتا ہے۔ عمران خان کی تربیت کرکٹ کے لئے ہوئی تھی، امورِ مملکت چلانے میں ان کا کوئی تجربہ نہیں ہے اور نہ ہی صلاحیت کہ وہ اسے چلا سکیں۔ تقریباً دو سال گذر جانے کے بعد میں جب سوچتا ہوں تو اس نتیجہ پر پہنچتا ہوں کہ حسن جلیل کا تجزیہ بالکل درست تھا۔ اور جب میں غلام بھیک نیرنگ کی بیسویں صدی کی اوائل کی نظم ”اک ہجوم غم و کلفت ہے خدا خیر کرے“ پڑھتا ہوں تو لگتا ہے جیسے یہ موجودہ حکومت کے بارے میں لکھی گئی۔