سید منور حسن کی صحبت میں 90منٹ

سید منور حسن کی صحبت میں 90منٹ
سید منور حسن کی صحبت میں 90منٹ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


یہ غالباً2013ء کی ایک شام تھی، جماعت اسلامی ملتان کے ایک دیرینہ رفیق کنور محمد صدیق نے فون پر بتایا کہ امیر جماعت اسلامی سید منور حسن ملتان آئے ہوئے ہیں۔اگر ملنا چاہتے ہیں تو جماعت اسلامی کے دفتر آ جائیں، نیکی اور پوچھ پوچھ،مَیں نے ہمدم دیرینہ خواجہ محمد اقبال کو اپنے ساتھ لیا اور مغرب کی نماز سے کچھ پہلے جماعت اسلامی کے ملتان دفتر پہنچ گئے۔ کنور محمد صدیق منتظر تھے، وہ اس کمرے میں لے گئے جہاں سید منور حسن تشریف فرما تھے۔سفید شلوار کُرتے میں ملبوس سید منور حسن بڑے تپاک سے ملے۔میرے قاضی حسین احمد پر لکھے ایک دو کالموں کا ذکر کیا اور ازراہِ تفنن کہا کہ مجھ میں آپ ایسی کوئی خوبی نہیں دیکھیں گے جو قاضی صاحب کی شخصیت اور دورِ امارت میں موجود تھیں۔ میرا خیال ہے صرف چند لمحے ہی گذرے ہوں گے کہ مجھے لگا مَیں ملک کی ایک بڑی سیاسی و مذہبی جماعت کے امیر سے نہیں مل رہا،بلکہ اپنے کسی دیرینہ دوست اور مربی کے ساتھ بیٹھا ہوں۔وہ اس قدر اپنائیت میں ڈھل چکے تھے کہ یہ احساس بھی موجود نہ رہا کہ مَیں ان سے پہلی بار مل رہا ہوں،اُنہیں جب معلوم ہوا کہ مَیں پروفیسرہوں اور وہ بھی اُردو کا تو بہت خوش ہوئے۔ کہنے لگے پروفیسر تو مَیں بھی رہا ہوں،لیکن اُردو ادب کا نہیں،جس میں شعر و سخن پر بات کرنے موقع ملتا ہے اور ادب کی چاشنی بولنے اور سننے والے کو بوجھل نہیں ہونے دیتی۔کنور محمد صدیق نے ساتھ ہی لقمہ دیا، حضرت، پروفیسر نسیم شاہد شاعر بھی ہیں اور ان کا شعری مجموعہ بھی شائع ہو چکا ہے۔ یہ سن کر سید منور حسن کی زبان سے بے ساختہ نکلا واہ واہ،پھر تو آج محفل دو آتشتہ ہو جائے گی،ساتھ ہی محبت بھری ڈانٹ کے انداز میں کہا آپ اپنا شعری مجموعہ کیوں نہیں لائے،ہم اُسے اپنے ساتھ کراچی لے جاتے۔مَیں نے وعدہ کیا کہ جلد ہی آپ کو شعری مجموعہ مل جائے گا۔


اتنے میں مغرب کی اذان ہوئی تو انہوں نے میرا ہاتھ پکڑا اور کہا پہلے نماز پڑھتے ہیں،پھر نشست رہے گی۔اُن کی امامت میں مغرب کی نماز پڑھنے کا شرف حاصل ہوا تو مَیں نے اس پر بھی یک گونہ سعادت محسوس کی۔انہوں نے خوش الحان تلاوت کی،بعد میں خضوع خشوع سے دُعا کرائی،نماز کے بعد ہم دوبارہ اسی کمرے میں آئے تو کنور محمد صدیق چائے بسکٹ کا اہتمام کر چکے تھے،اس سے پہلے کہ مَیں کچھ کہتا،وہاں موجود جماعت کے چند ارکان کو مخاطب کرتے ہوئے انہوں نے شگفتہ انداز میں کہا ”دیکھئے یہ بڑی بدذوقی ہو گی کہ ہم ایک شاعر کی موجودگی میں اُس کا کلام نہ سنیں۔اس لئے پہلے نسیم صاحب سے کچھ سنتے ہیں اُس کے بعد باتیں ہوں گی اُن کی اس بات نے ماحول کو بالکل بے تکلفی میں تبدیل کر کے رکھ دیا،خیر مَیں نے اپنی دو غزلیں اور ایک نظم سنائی۔ وہ دِل کھول کر داد بھی دیتے رہے اور بعد میں انہوں نے کہا آپ تو خاصے رومانی انسان ہیں، آپ کی شاعری سے تو یہی لگتا ہے۔مَیں نے کہا حضرت یہ آپ کی ناقدانہ نگاہ ہے،مَیں تو بس جو دِل میں ہو اُسے کہہ دیتا ہوں۔ میری کوشش تھی کہ مَیں موضوع کو تبدیل کروں اور بات اُن تک لاؤں، لیکن وہ بڑی خوبصورتی سے مجھے ہدفِ تنقید بنائے ہوئے تھے،اس سے مجھے لگا کہ سید منور حسین اپنی ذات سے ماورا اک شخص ہیں،جو دوسروں کو اہمیت دیتے ہیں اور اپنی واہ واہ کرانے سے کوسوں دور ہیں۔


خیر ماحول تھوڑا سا جما تو مَیں نے پوچھا،آپ نے طلبہ سیاست کا آغاز نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن سے کیا، جو اسلامی جمعیت طلبہ کی سب سے بڑی حریف تھی، پھر جمعیت کی طرف رُخ کیسے کر لیا، ساتھ ہی مَیں نے بتایا کہ مَیں بھی بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتان میں این ایس ایف کا سرگرم کارکن تھا اور1980ء میں پہلی بار اسلامی جمعیت طلبہ کو این ایس ایف نے انتخابات میں شکست دی تھی اور سلیم حیدرانی جو این ایس ایف کا امیدوار تھا، کامیاب ہو گیا تھا۔یہ سُن کر وہ پھڑک اٹھے اور کہا ارے واہ پھر تو ہمارے درمیان کئی مماثلتیں ہیں، اسی کے ساتھ انہوں نے پوچھا کیا آپ نے بھی میری طرح این ایس ایف کو چھوڑا یا ابھی تک بائیں بازو میں ہی اٹکے ہوئے ہیں،مَیں نے کہا مجھے آپ جیسا ماحول ملا نہ ہی مولانا مودودیؒ سے ملنے کی سعادت،اِس لئے ویسی کایا کلپ نہ ہو سکی جیسی آپ کی ہوئی۔ کہنے لگے آپ نے وہ بات کہہ دی جو مَیں کہنا چاہتا تھا۔ مجھ پر مولانا مودودیؒ کی شخصیت کے گہرے اثرات ہیں اُن کے فکری عملی اثرات نے مجھے تبدیل کیا۔

مَیں نے بغور اس چیز کا مطالعہ کیا کہ جماعت اسلامی اور اسلامی جمعیت طلبہ کی اساس کیا ہے،جلد ہی مجھے احساس ہو گیا کہ یہی وہ جگہ تھی جسے مَیں تلاش کر رہا تھا۔میرے اندر قیادت اور آگے بڑھنے کی فطری صلاحیتیں تو موجود تھیں، تاہم انہیں اصل جلا اسلامی جمعیت میں آ کر ملی۔پھر یہی میری زندگی کا محور بن گیا۔انہوں نے کہا کہ یہ میری خوش قسمتی ہے کہ مجھے اس پلیٹ فارم سے فکری و عملی کام کرنے کا بہت موقع ملا اور برملا یہ اس وجہ سے تھا کہ مجھے چند لمحے مولانا مودودیؒ کی صحبت میں گزارنے کا موقع ملا تھا۔پھر انہوں نے کہا آج مَیں آپ کے سامنے امیر جماعت اسلامی کے طور پر موجود ہوں۔سچ پوچھیں تو مَیں یہ تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ ایک دن اس سب سے منظم جماعت کا امیر بنوں گا۔ یہ اس جماعت کی سب سے بڑی خوبی ہے کہ کوئی بھی رکن ِ جماعت اپنی محنت، لگن، جدوجہد اور خدمت ِ انسانیت سے اس جماعت کی امارت تک پہنچ سکتا۔


مَیں نے پوچھا، حضرت ایک بات جو میری طرح بہت سے دوسروں کے ذہنوں میں کھٹکتی ہے، وہ جماعت اسلامی کی نظام کو تبدیل کرنے میں مسلسل ناکامی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ خود عام انتخابات میں ناکام رہتی ہے۔کیا وجہ ہے کہ اس قدر منظم جماعت ہونے کے باوجود جماعت اسلامی کبھی عوام کا اعتماد حاصل نہیں کر پائی۔ سید منور حسن نے کہا یہ سوال کوئی نیا نہیں ہے،ہمیشہ سے پوچھا جاتا ہے اور ہمیشہ ہی ہمارا جواب یہ ہوتا ہے کہ موجودہ نظامِ انتخابات سے کبھی کوئی تبدیلی نہیں آ سکتی۔اگر کوئی یہ دعویٰ کرتا ہے کہ پاکستان میں عوام کو آزادانہ اظہارِ انتخاب کا موقع ملتا ہے تو وہ غلط ہے۔یہاں تو قدم قدم پر عوام کی رائے کو مختلف حربوں سے تبدیل کیا جاتا ہے۔کیا دیہی علاقوں میں وڈیروں اور سرداروں کی موجودگی میں عوام آزادانہ حق رائے دہی استعمال کر سکتے ہیں،کیا پیسے کو پانی کی طرح بہانے والے ووٹ کی حرمت کو پامال نہیں کرتے، کیا الیکشن کمیشن کو معلوم نہیں ہوتا کہ اُس نے جو پابندیاں عائد کر رکھی ہیں، اُن کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہو رہی ہے۔ جماعت اسلامی تو یہ سب کچھ نہیں کر سکتی،وہ تو میدان میں ایک بہترین امیدوار اتارتی ہے،جس کا کردار و عمل سب کے سامنے ہوتا ہے،نہ ہی پانی کی طرح پیسہ بہانے کی ہماری روایت ہے،اس لئے ہم ہار جاتے ہیں تاہم ہمیں یقین ہے کہ جس دن پاکستان میں لوگوں کو آزادانہ حق رائے دہی کا موقع ملا،جماعت اسلامی اقتدار میں آئے گی اور وہ دن پاکستان میں جمہوریت کی اصل فتح کے آغاز کا دن ہو گا۔


مَیں تقریباً90منٹ سید منور حسن کی صحبت میں موجود رہا۔اس کے بعد پھر اُن سے کوئی ملاقات نہ ہوئی۔تاہم اس ملاقات کا گہرا نقش پوری جزئیات کے ساتھ ذہن پر نقش ہے۔کالم کی کوتاہ دامنی کے باعث بہت سی باتیں بیان نہیں ہو سکیں۔ سید منور حسن واقعی ایک دانائے یکتا تھے،اختلاف کو خندہ پیشانی سے قبول کرنے والے،اپنی بات کو زبردستی منوانے سے گریز کرنے والے،وہ دُنیا سے چلے گئے تاہم اُن کی شخصیت کا حوالہ پاکستانی سیاست و سماج کے اُفق پر ایک تابندہ ستارے کے طور پر تادیر چمکتا رہے گا۔

مزید :

رائے -کالم -