اسلام آباد کی معروف ہاؤسنگ سوسائٹی کا شہریوں کے ساتھ فراڈ ، سینیٹ کی قائمہ کمیٹی نے معاملہ نیب کو بجھواتے ہوئے چیف کمشنر کو طلب کر لیا 

اسلام آباد کی معروف ہاؤسنگ سوسائٹی کا شہریوں کے ساتھ فراڈ ، سینیٹ کی قائمہ ...
اسلام آباد کی معروف ہاؤسنگ سوسائٹی کا شہریوں کے ساتھ فراڈ ، سینیٹ کی قائمہ کمیٹی نے معاملہ نیب کو بجھواتے ہوئے چیف کمشنر کو طلب کر لیا 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن ) ایوان بالاءکی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ نے غوری ٹاؤن میں فراڈ اور سی ڈی اے کی سستی و کاہلی کے پیش نظرعام شہریوں کےلوٹےجانےکےمعاملہ  نیب کو بھجواتے ہوئے آئندہ اجلاس میں چیف کمشنر کو بھی وضاحت کے لیے طلب کر لیا ہے ،کمیٹی ارکان نے سی ڈی اے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جب عام شہری پلاٹ خرید رہے ہوتے ہیں اس وقت سی ڈی اے روکتا نہیں، جب وہ کروڑوں روپے خرچ کر کے گھر بناتے ہیں تو وہ گرانے پہنچ جاتے ہیں۔

تفصیلات کے مطابق قائمہ کمیٹی کا اجلاس سینٹر محسن عزیر کی زیر صدارت شروع ہوا ،جس میں قائد حز ب اختلاف سینیٹ سینیٹر سید یوسف رضا گیلانی سینیٹرز رانا مقبول احمد، اعظم نذیر تارڑ، مولا بخش چانڈیو، ثمینہ ممتاز، فیصل سلیم رحمان، شہادت اعوان، فوزیہ ارشد، سید فیصل علی سبزواری، دلاور خان اور مشتاق احمد خان کے علاوہ سیکرٹری وزارت داخلہ، ایڈیشنل سیکرٹری وزارت داخلہ، ڈی جی ایف اے ٹی ایف، ڈائریکٹر ایف آئی اے، ڈی سی اسلام آباد، ڈی آئی جی اسلام آباد، ڈی جی نیکٹا، ڈی جی نادرہ اور دیگر متعلقہ اداروں کے حکام نے شرکت کی۔

چیئرمین سینیٹ کی طرف سے غوری ٹاؤن کے حوالے سے بھیجی گئی عوامی عرضداشت کا کمیٹی اجلاس میں تفصیلی جائزہ لیا گیا۔ سی ڈی اے حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ غوری ٹاؤن غیر قانونی سکیم تھی جو سی ڈی اے سے رجسٹر ڈ بھی نہیں تھی ،پٹشنرنے درخواست میں کہا ہے کہ اس نے پلاٹ خریدا نہ ہی قبضہ دیا گیا اور نہ ہی معاوضہ دیا گیا۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ عام عوام کو کیا پتہ کہ کو ن سی سیکم سی ڈی اے نے رجسٹرڈ کر رکھی ہے اور کونسی نہیں؟ اسی حوالے سے میں نے ریئل سٹیٹ بل متعارف کرایا تھا جسے سی ڈی اے نے دو سال تک روکے رکھا ،اگر فوری طور پر وہ منظور ہو جاتا تو بے شمار لوگ فراڈ سے بچ جاتے۔

سیکرٹری داخلہ نے کہا کہ سی ڈی اے اپنے قوانین میں دیکھے کہ کس طرح اسطرح کے معاملات کو ریگولر کیا جاسکتا ہے تاکہ لوگوں کو ریلیف مل سکے۔ ڈپٹی کمشنر اسلام آباد نے قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ اس سکیم کے چار پانچ مالک تھے ،ایک فوت ہو چکا ہے اور باقی ملک سے باہر ہیں، پلاٹوں کی فراڈ فروخت کے حوالے سے 24 پرچے بھی درج کروائے ہیں۔

سینیٹر فوزیہ ارشد نے کہا کہ سی ڈی اے حکام خواب غفلت میں پڑے رہتے ہیں، لوگ عمارتوں پر کروڑوں لگا دیتے ہیں مگر سی ڈی اے حکام انہیں بروقت آگاہ نہیں کرتے البتہ گرانے پہنچ جاتے ہیں ،افسران اپنے فرائض منصبی اگر احسن طریقے سے سرانجام دیں تو لوگوں کے کروڑوں روپے بچ سکتے ہیں۔

سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ پورے ملک میں اس طرح کے فراڈ پھیل چکے ہیں، نیب ایسے کیسز کو دیکھے، غوری ٹاؤن کے بے شمار متاثرین ہیں، جس پر چیئرمین کمیٹی نے چیف کمشنر کو آئندہ اجلاس میں طلب کرتے ہوئے یہ معاملہ نیب کو ریفر کر دیا۔