وزیر خزانہ شوکت ترین نے فنانس بل کی منظوری کے موقع پر ایسی بات کہہ دی کہ اپوزیشن اراکین سٹپٹا اٹھے
اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا ہے کہ 74سالہ تاریخ میں پہلی بار پاکستان میں غریب عوام کی فلاح و بہبود اور ترقی و خوشحالی کے لئے روڈ میپ دیا گیا ہے اس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی،توقع تھی کہ مالیاتی بل میں ترامیم پربحث ہوگی تاہم اس کی بجائے ہمیں تقریریں دیکھنے کو ملیں۔
تفصیلات کے مطابق فنانس بل 22۔ 2021ءپر پہلی خواندگی کے موقع پر بحث کو سمیٹتے ہوئے وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا کہ جب 40 لاکھ لوگوں کو گھر ملیں گے، زراعت اور کاروبار کے لئے سود سے پاک قرضے فراہم ہوں گے تو اس سے ملک میں خوشحالی آئےگی اور اپوزیشن فارغ ہو جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ روٹی، کپڑا اور مکان کے نعرے ماضی میں بھی لگائے گئے تھے، موجودہ حکومت نے اس پر عملدرآمد کیا،بجٹ میں جو اہداف دیئے گئے ہیں ہم انہیں پورا کرکے دکھائیں گے۔
مہنگائی کا ذکر کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا کہ اس وقت بنیادی افراط زر 7 فیصد کی سطح پر ہے جو ان کے دور حکومت میں بھی تھا۔ غذائی افراط زر میں اضافہ ہوا ہے، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ماضی میں زراعت پر پیسے خرچ نہیں کئے گئے،زراعت میں سرمایہ کاری نہ ہونے کی وجہ سے ہم چینی، گندم، دالوں اور دیگر غذائی اشیا کی درآمد پر زرمبادلہ صرف کر رہے ہیں،اس وقت بین الاقوامی مارکیٹ میں غذائی اشیا کی قیمتیں دس سال کی بلند ترین سطح پر ہیں، اس صورتحال سے نمٹنے کے لئے ہم نے اپنی زراعت اور زرعی پیداوار کو ترقی دینا ہے۔
انہوں نے کہاکہ مالی سال 18۔ 2017ء میں زراعت پر 1.6 ارب روپے خرچ کئے گئے ،نئے مالی سال کے وفاقی بجٹ میں حکومت نے زراعت کی ترقی کے لئے 63 ارب روپے رکھے ہیں، کھادوں اور کیڑے مار ادویات کے لئے بالترتیب 100 ارب روپے اضافی ہیں، عام آدمی کے معیار زندگی کو بلند کرنے کے لئے ہم ٹرکل ڈاؤن پر انحصار نہیں کریں گے،چالیس لاکھ گھرانوں کی آمدنی میں اضافہ کیا جائے گا جس کے نتیجے میں غربت کم ہوگی اور چار سے پانچ برسوں میں خوشحالی ہوگی۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ اپوزیشن اراکین کی جانب سے آئی ایم ایف کا ذکر کیا گیا ہے، جب 20 ارب ڈالر کا خسارہ ورثے میں ملے تو آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑتا ہے،آئی ایم ایف نے سخت شرائط پر معاہدہ کیا،اس کے بعد کورونا وائرس کی عالمگیر وبا آئی جس میں دنیا بھر کی معیشتوں میں منفی گروتھ ہوئی، تنقید میرٹ پر ہونی چاہیے، تنقید میں آنے والی تجاویز کو ہم میرٹ پر چیک کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ ایف بی آر کو گرفتاری کا اختیار دینے کا تاثر درست نہیں ہے،صرف سیکشن 203 میں اصلاحات کی گئی ہیں، گرفتاری کا اختیار ایف بی آر کے پاس نہیں بلکہ تھرڈ پارٹی سسٹم کی بنیاد پر ہوگا جس کی ایک کمیٹی ہوگی جس کی سربراہی میں خود کروں گا۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ جان بوجھ کر ٹیکس چھپانے اور ادا نہ کرنے والوں کو ہم نہیں چھوڑ سکتے، پاکستان میں جی ڈی پی کی شرح سے ٹیکسوں کی کمی بہت کم ہے اس کو ہم نے بڑھانا ہے، بجٹ میں ہم نے ٹیکسوں کو معقول بنایا ہے،آن لائن کاروبار پر کوئی ٹیکس نہیں ہے صرف غیر رجسٹرڈ کاروبار پر دو فیصد ٹیکس عائد کیا گیا ہے،اشیا ءخوراک، تنخواہ دار طبقے کے لئے میڈیکل اور پنشن پر ٹیکس کی تجاویز واپس لی گئی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ زراعت ترجیحی شعبہ ہے، بجٹ میں اس مقصد کے لئے 62، 63 ارب روپے رکھے گئے ہیں، صوبے اس سے زیادہ رقوم خرچ کر رہے ہیں، کھادوں کےلئے 70ارب روپے اور کیڑے مار ادویات کے لئے 30 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں، کاٹن پر کوئی ٹیکس نہیں ہے، سپنرز جب مصنوعات ٹیکسٹائل سیکٹر کو بیچتے ہیں تو یہ پہلا مرحلہ ہوتا ہے، صرف اسے ٹیکس میں شامل کیا گیا ہے،اسی طرح بنولا کے بیج کسان آئل کمپنی کو بیچتے ہیں اور آئل کمپنیاں ان کو ادائیگی کرتی ہیں، یہ ٹیکس صرف ان پر ہے اس کو معقول بنایا گیا ہے۔
شوکت ترین نے کہا کہ اس وقت 18 ٹریلین روپے کی تجارت ٹیکس نیٹ میں شامل نہیں ، صرف ساڑھے تین ٹریلین ٹیکس نیٹ میں ہیں، ہم نے اسے چار سے پانچ ٹریلین تک بڑھانا ہے، اس سے ریونیو میں اضافہ ہوگا، ان ڈائریکٹ ٹیکسوں میں اضافے کا تاثر درست نہیں ہے، ٹیکس نیٹ میں شامل نہ ہونے والی تجارت پر ٹیکس صارفین سے سیلز ٹیکس کی صورت میں وصول کیا جارہا ہے تاہم یہ حکومتی خزانے میں نہیں آرہا،ان اقدامات سے عام آدمی پر کوئی اضافی بوجھ نہیں پڑےگا۔بعد ازاں قومی اسمبلی کا اجلاس بدھ تک ملتوی کردیا گیا۔