سفیر ختم نبوت...فقیر ختم نبوت!!!

سفیر ختم نبوت...فقیر ختم نبوت!!!
سفیر ختم نبوت...فقیر ختم نبوت!!!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پیر مہر علی شاہ رحمتہ اللہ علیہ نے سچ فرمایا کہ ختم نبوتﷺ کے لئے کام کرنے والے خوش نصیب کی پشت پر جناب رسول کریمﷺ کا دست مبارک ہوتا ہے...پنجاب اسمبلی کی نئی عمارت میں حدیث مبارکہ"انا خاتم النبیین لا نبی بعدی" کے چمکتے سنہری الفاط اور ظفروال کی انتہائی تعلیم یافتہ خاتون ٹیچر محترمہ عائشہ جبیں کا"نعرہ ختم نبوتﷺ"اس اللہ والے کے قول کی گواہی ہے...گاؤں کی چھوٹی سی مسجد سے ایوان اقتدار تک عقیدہ ختم نبوتﷺ کی گونج سفیر ختم نبوت اور فقیر ختم نبوت مولانا منظور احمد چنیوٹی رحمتہ اللہ علیہ کو بھی" خراج عقیدت " ہے کہ ختم نبوتﷺ کے محاذ پر مامور لوگ مرتے نہیں،امر ہوجاتے ہیں......!!!!

صحابہ رضی اللہ عنہم کی "بستی"میں آرام فرمامرشد شیخ عبدالحفیظ مکی رحمتہ اللہ علیہ یاد آئے...غالبایہ 2014 ء کی ایوان اقبال ختم نبوتﷺ کانفرنس سے ایک روز پہلے کی شام تھی...سبزہ زار لاہور کی خانقاہ میں حضرت شیخ کے قدموں میں بیٹھے تھے ...معتدل اور معتبر جناب ڈاکٹر احمد علی سراج... عزیز دوست حافظ ظہیر اعوان اور جناب مفتی شاہد بھی شریک محفل تھے...چائے کادور ختم ہوا تو اجازت چاہی...حضرت کہنے لگے بیٹھیں...سمندر پار  سے آپ کے ہم نام مہمان اور ختم نبوتﷺ کے محقق آرہے ہیں... ان سے ملتے جائیے...تھوڑی دیر بعد ایک دراز قد...سرخ و سپید اور وضع قطع سے عربی صاحب اندر داخل ہوئے...مکی صاحب اپنے بیڈ سے اٹھ کر ان سے بڑے تپاک سے ملے اور بولے یہ ہیں امجد سقلاوی  صاحب جن کاابھی ذکرہو رہاتھا ...اردن سےختم نبوتﷺ کانفرنس میں شرکت کےلئے تشریف لائے ہیں...اھلا و سہلا...پھر ہم سب کا باری باری تعارف کرایا...ہم نام اور پھر صحافی کا سن کر ما شا اللہ ما شا اللہ کہتے ہوئے  خلوص بھرا معانقہ کیا...ہلکی پھلکی گفتگو ہوئی...ڈاکٹر صاحب ہمارے مترجم تھے...مہمان ذی وقار نے جلدی جلدی چائے پی اور کہا مجھے فوری چنیوٹ پہنچنا ہے...باقی باتیں کل ہونگی...مکی صاحب نے بتایا کہ وہ مولانا منظور احمد چنیوٹیؒ کی قبر پر حاضری دینا چاہتے ہیں.. . ہم گھر واپس جبکہ امجد سقلاوی ڈاکٹر صاحب کی معیت میں اپنی منزل کی طرف روانہ ہو گئے...لیکن ہمارا تجسس بڑھا  کہ ایک بندہ اردن سے آتا ہے...اور سامان میزبان کے پاس رکھتے ہی رات کے سفر کی پرواہ کئے بغیر سیدھا مولانا چنیوٹیؒ کی قبر پر فاتحہ خوانی کے لئے روانہ ہو جاتا ہے...کہانی کیا ہے؟؟؟؟

اگلے دن ہم نے پھر خانقاہ جا کر جناب امجد سقلاوی کو پکڑ لیا... کافی فرینک گپ شپ ہوئی...ہم نے  سر دست دل کی بات سامنے رکھ دی کہ مولانا چنیوٹیؒ سے شناسائی کیسے ہوئی اور اتنی عقیدت کیوں؟؟؟ اردن کے دلکش مہمان نے بھی دل کھول کے سامنے رکھ دیا...کہنے لگے پیشے کے اعتبار سے فیشن ڈیزائنر ہوں ...بد قسمتی کہہ لیجئے کہ ایک فلسطینی دوست کی" باتوں "میں آگیا...چلتے چلتے اسرائیل کے شہر حیفا میں" ارتدادی مرکز" پہنچ گیا..."روبوٹ نما لوگ "برین واشنگ کے لئےسرگرم ہوگئے...کئی ماہ "قصے کہانیاں" سن سن کے عاجز آگیا...میں سوال کرنے والا آدمی ہوں ...سوال اٹھائے تو آئیں بائیں شروع ہو گئی ....میں بھانپ گیا کہ "دلدل" میں پھنس گیا ہوں...وہاں سے واپس بھاگ نکلنے میں تو کامیاب ہو گیا لیکن سوال  اپنی جگہ تھے...عجیب شش و پنج میں تھا کہ روشنی کی ایک کرن دکھائی دی...پاکستانی عالم دین مولانا منظور احمد چنیوٹیؒ کی کتاب کا عربی ترجمہ ملا...اوراق پلٹتا گیا اور سوالوں کے جواب ملتے گئے. ..واللہ !مولانا چنیوٹیؒ نے میرا ایمان بچالیا...وہ میرے محسن ہیں...ان کا حق تھا کہ ان کے دیس آنے کے بعد سب سے پہلے ان کی قبر پر حاضری دیتا تو اس لئے کل شب میں لاہور پہنچتے ہی چنیوٹ چلاگیا .. ..اللہ ان کی قبر کو منور کرے ...وہ صرف میرے ہی نہیں امت کے محسن ہیں.....میں نے یہ سفر ہی ان کو خراج عقیدت پیش کرنے لئے کیا ...واللہ میں سرخرو ہو گیا...!! جادو وہ سر چڑھ کر بولے... .انسپائریشن دیکھیئے کہ آج امجد سقلاوی اپنے ملک میں تن تنہا ختم نبوتﷺ کے لئے دن رات ایک ہوئے ہیں...یوں کہہ لیجئیے کہ وہ اردن کے مولانا منظور چنیوٹیؒ بن چکے ہیں...

 کیا واقعی مولانا چنیوٹیؒ ختم نبوت کے لئے اسی طرح زندگی وقف کئے ہوئے تھے؟؟؟...میں بطور صحافی اس کی گواہی دیتا ہوں کہ سو فیصد ایسا ہی ہے...وہ گود سے گور تک اس عظیم کاز کے لئے اللہ کے منتخب بندوں میں سے ایک تھے... مولانا چنیوٹی سے میری پہلی ملاقات 1998ءمیں شکرگڑھ کی جامعہ رشیدیہ کے پروگرام میں ہوئی...وہ اس وقت رکن پنجاب اسمبلی تھے...مولانا چنیوٹیؒ سے دوسری بار تحصیل پسرور کے ایک گائوں بکھو بھٹی میں ملے... "چڑھتے سورج کی دھرتی"پر میرے پہلے دوست "قبلہ" حافظ ابرار صدیقی بھی ساتھ تھے... ہم نےان سےشکرگڑھ کے" گرین ویلج" بصرہ جالا میں ختم نبوتﷺ سیمینار کے لئے وقت لے لیا...شومئی قسمت کہ وہ اپنے سیکرٹری کی "کنفیوژن" کے باعث نہ پہنچے ... سیمینار کا وقت صبح پہلے پہر کا تھا...سیکرٹری صاحب نے عشا کےبعد کا لکھا ہوا تھا...انتظار کر تے کرتے شام ہوگئی...رابطہ ہوا تو مولانا چنیوٹیؒ کہنے لگے آج چناب نگر کے نام کیلئے وزیر مال سے ملاقات تھی... میں تو ایزی تھا کہ عشا کے بعد کا پروگرام ہے...کہتے ہیں تو ابھی نکل آتا ہوں...ہم نے کہا اب کیا کرنا ہے...لوگ گھروں کو لوٹ گئے...پھر ہمارے جذبات تھے اور ان کی بردباری... کوئی خاص شناسائی نہ قریبی تعلق...پھر بھی ہم نے "چڑھائی" کردی...خطوط کا زمانہ تھا...اسی شام ایک انتہائی جذباتی لیٹر لکھ مارا...آداب کے ساتھ بھرپور احتجاج ریکارڈ کرادیا....پتہ نہیں کس شاعر نے اپنے محبوب کے لئے شعر گھڑا تھا...ہم نے وہ مولانا کی نذر کردیا...

تمہارے آنے پر....... اتنا اہتمام ہوا
نا جانے کتنے جذبوں کا قتل عام ہوا

چند دن گذرےکہ مولانا چنیوٹیؒ کےلیٹر پیڈ پرجوابی خط موصول ہوا...اس کاخلاصہ یوں ہے:عزیزی القدر...!آپ کا محبت و عقیدت نامہ ملا جو دراصل گلہ اور شکوہ نامہ ہے...میں نے آپ کا مکتوب اپنے ان احباب کو پڑھایا ہے جو مجھے ہر صورت وعدہ ایفائی کے طعنے دیتے ہیں کہ جلسہ والوں کے جذبات کا کس طرح" قتل عام "ہوتا ہے...ہمارے ہاں پروگرام بعد نماز عشا ہی لکھا ہے...یہ غلطی لکھنے والے ہمارے ڈرائیور کی ہے یا لکھا نے والے کی..اس کا مجھے علم نہیں...لہذا با امر مجبوری حاضری نہ ہو سکی .. . اس وضاحت کیساتھ انتہائی ندامت کے معذرت خواہ ہوں...چاہیں تو عید کے بعد قرضہ چکادونگا اور نارووال کے لئےختم نبوتﷺ کے سلسلہ میں ہر خدمت کے لئے تیارہوں...

مولانا چنیوٹیؒ کی "کاز" سے کٹمنٹ کی ایک اور شہادت بھی پڑھ لیجئے...جناب افتخار اللہ شاکر ابھی پچھلے دنوں ایک تقریب میں بتا رہے تھے کہ مولانا چنیوٹیؒ ختم نبوتﷺ کورس کے لیے ان کے دورافتادہ گاؤں اونچہ کلاں میں مسلسل 19سال تشریف لائے...واقعی اس مرد درویش نے قریہ قریہ ...شہر شہر ... ملک ملک...شرق سے غرب...شمال سے جنوب ختم نبوتﷺ کی صدا لگائی کہ لوگو! حضرت محمد کریم ﷺ کے آخری رسول ہیں....آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا.....

کہتے ہیں مولانا چنیوٹیؒ دنیا کے آخری کنارےپہنچے...جزیرے میں چھڑی میں رکھی اور نگاہیں آسمان کی طرف کر کے کہا اے اللہ گواہ رہنا کہ اس سے آگے بھی دنیا ہوتی تو میں وہاں تک بھی ختم نبوتﷺ کا علم لہراتا.....بلاشبہ مولانا چنیوٹیؒ کو  رسول کریم ﷺکی "شاباش "حاصل تھی کہ وہ اکیلے ہی صدیوں کا کام کر گئے...چناب کنارے" متنازعہ شہر "کا نام تبدیل ہوا تو انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ کے باادب بامراد سیکرٹری جنرل جناب ڈاکٹر احمد علی سراج نے مولانا چنیوٹیؒ کو کویت بلا کر سونے سے مزین صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ایوارڈ دیا......سچی بات ہے کہ ایسے لوگ سونے میں تولے جانے کے ہی قابل تھے....

اب انہیں ڈھونڈ چراغ رخ زیبا لے کر

مدینے والے کریم آقا ﷺ کایہ اعجازہےکہ ختم نبوتﷺ کاگلستان صدیوں سے مہک رہا ہے اور قیامت تک زمانوں کو معطر کرتارہے گا...امیر شریعت سید عطاءاللہ شاہ بخاریؒ کے انتقال کے بعد سرظفراللہ نے تقریر کرتے ہوئے کہاتھا :کہاں ہے عطاءاللہ شاہ بخاریؒ ؟؟؟؟شورش کاشمیریؒ نے "ہفت روزہ چٹان" کے صفحہ اول پر شاہ جیؒ کے صاحبزادے مولانا سید ابو ذر بخاریؒ کی تصویر شائع کی اور جواب دیتے ہو ئے نیچے لکھا :ظفراللہ خان پوچھتا ہے:عطاءاللہ شاہ کہاں ہے....؟یہ ہیں سید عطاءاللہ شاہ بخاریؒ...!!!

ہو سکتا ہے آج بھی "ممنوع گروہ"اپنی جبلت سے مجبورحقارت انگیز لہجے میں یہ سوال کرتا ہو کہاں ہے مولوی منظور چنیوٹیؒ......؟؟؟میں شورش ہوں نہ میرے پاس کوئی چٹان ایسا اخبار.... عام سا صحافی ہوں اور میرے پاس ٹوٹے پھوٹے الفاظ پر مشتمل یہ مختصر سا کالم ہی ہے ....منبر سے ایوان تک جناب الیاس چنیوٹی کی للکار دیکھ کر فخر سے لکھ سکتا ہوں کہ "یہ ہیں مولانا منظور احمد چنیوٹیؒ"....!!!

 نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

بلاگ -