ایف اے ٹی ایف 

 ایف اے ٹی ایف 
 ایف اے ٹی ایف 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


 پاکستان کیلئے بڑے عرصے کے بعد عالمی افق سے ایک اچھی خبر یہ ہے کہ ایف اے ٹی ایف کے جرمنی میں ہونے والے اجلاس میں پاکستان کو گرے لسٹ سے وائٹ لسٹ میں بھیجنے کا عندیہ مل چکا ہے جس پر پاکستان کی تمام عسکری و سیاسی قیادت مبارک باد کی مستحق ہے۔فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (فیٹیف) کیا ہے پہلے اس کا جائزہ لیتے ہیں۔
عالمی مالیاتی نظام کی حفاظت کے لیے ترقی یافتہ معیشتوں کے جی 7 گروپ(کینیڈا، جرمنی،جاپان، فرانس،اٹلی،برطانیہ اور امریکہ اس کے رکن ہیں)کی جانب سے قائم کردہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف)  ایک عالمی نگران ادارہ ہے جو ابتداء میں منی لانڈرنگ سے نمٹنے کے لیے قائم کیا گیا تھا لیکن 9/11 کے دہشت گرد حملوں کے بعد اس کا کردار نمایاں ہو گیا ہے۔ ان حملوں کے بعد ایف اے ٹی ایف نے اپنی کارروائیوں کو بڑھایا اور اس کے دائرہ کار میں دہشت گردی کی مالی معاونت پر تحقیقات بھی شامل ہوگئی۔ 2003ء میں ایف اے ٹی ایف نے ہدایات کا ایک نیا مجموعہ جاری کیا جس کے مطابق اس نے ملکوں سے غیر قانونی لین دین کی آمدنی ضبط کرنے، مشکوک ٹرانزیکشن رپورٹس وصول کرنے اور ان کی تحقیقات کے لیے مالیاتی انٹیلی جنس یونٹ بنانے پر زور دیا  جس کی سفارشات کو باہمی جائزے کے ذریعے مانیٹر کیا جاتا ہے۔اب اگر اس کی لسٹ کا جائزہ لیں جس کا پاکستان میں بھی چرچا ہے تو ایف اے ٹی ایف دو فہرستیں رکھتا ہے، ایک بلیک لسٹ اور دوسری گرے لسٹ، اس کی بلیک لسٹ میں شامل ممالک وہ ہیں جن پر منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت کا الزام ہوتا ہے  اور وہ اس کو روکنے کے لیے عالمی کوششوں میں تعاون نہیں کرتے جبکہ گرے لسٹ میں وہ ممالک اورقومیں شامل ہوتی ہیں جو منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت کے اہم خطرات پیش کرتی ہیں لیکن جو ایف اے ٹی ایف کے ساتھ مل کر کام کرنے کا عزم رکھتی ہیں۔ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ ایسے ممالک پر مشتمل ہوتی ہے جنہیں دہشت گردی کی فنڈنگ اور منی لانڈرنگ کے لیے محفوظ پناہ گاہ سمجھا جاتا ہے۔

اگرچہ فہرست میں شمولیت بلیک لسٹ ہونے کی طرح شدید نہیں ہے بلکہ یہ اس ملک کے لیے مسائل سے نمٹنے کے لیے ایک انتباہ ہوتا ہے کہ اگر اس نے مقرر کردہ شرائط پر عمل نہ کیا تو بلیک لسٹ میں بھی ڈالا جا سکتا ہے۔یہ تو تھا ایف اے ٹی ایف کا اجمالی جائزہ کہ وہ کیسے کام کرتا ہے اور کون سے ممالک اس کے ریڈار پر ہوتے ہیں لیکن ایک بات اور ہے جس طرح عالمی سطح پر حالات کروٹ لے رہے ہیں امریکہ اور یورپ کے لے پالک ملک یوکرین پر روس نے جنگ مسلط کر رکھی ہے اور اس خطے میں امریکہ اور مغرب کے پاس کوئی ایسا اتحادی نہیں ہے جس پر وہ اعتبار کر سکے کیونکہ ایران پہلے ہی امریکہ کو آنکھیں دکھا رہا ہے جبکہ چین اور ہندوستان ایک دوسرے کے مخالف ہیں لیکن روس کے معاملے پر وہ ایک ہیں اور دونوں ممالک اس وقت روسی تیل کے سب سے بڑے گاہک بن چکے ہیں۔اب پاکستان کے پاس لے دے کر یہی آپشن تھا یا تو روس کا ساتھ دے کر بلیک لسٹ میں شامل ہو جاتا  یا پھر مقرر کردہ شرائط پر عمل کر کے ملک کی بہتری کا سوچتا اور پاکستان کے لئے شاید یہی ایک حل قابل عمل تھا۔ پاکستان اپنی جغرافیائی پوزیشن کی وجہ سے اس تاک میں تھا، پاکستان نے سفارت کاری کے میدان میں اپنے پتے اچھے کھیلے جس کا صلہ اسے ایف اے ٹی ایف کی گرے سے وائٹ لسٹ میں جانے کی صورت میں ملنے کا عندیہ مل چکا ہے۔اب صرف اکتوبر میں ایف اے ٹی ایف کا وفد پاکستان کا دورہ کرے گا اور اپنی آنکھوں سے ان اقدامات کا جائزہ لے گا جو پاکستان نے ان کے کہنے پر کیے ہیں جس کے بعد پاکستان کو وائٹ لسٹ میں شامل کرنے کا باقاعدہ اعلان کر دیا جائے گا۔پاکستان کی عسکری قیادت نے اس معاملے میں خصوصی محنت کی ہے اور سیاسی سٹیک ہولڈر کو بھی انہوں نے لائن اپ کر کے پاکستان کیلئے عالمی تنہائی سے نکلنے کا موقع فراہم کیا ہے۔اب سیاسی جماعتوں اور حکومت کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ قومی معاملات پر سنجیدہ ہو کر ایک موقف اپنائیں اور اس طرح کے نعروں اور بیانات سے گریز کرنا چاہیے جس سے پاکستان کو عالمی سطح پر شرمندگی ہو۔سب کو مل کر عالمی معاملات اور عالمی طاقتوں کے حوالے سے یکساں موقف لینا چاہیے تاکہ سفارت کاری کے میدان میں پاکستان عالمی دنیا کو ہمنوا بنا سکے، اسی میں ملک کی بھلائی ہے۔

مزید :

رائے -کالم -