کر بھلا ہو بھلا

Jun 29, 2024

  ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک بطخ دریا کے کنارے رہتی تھی کیونکہ اس کا نرمر چکا تھا۔وہ بیچاری ہمیشہ بیماررہتی تھی۔ایک دن اس کی طبیعت زیادہ خراب ہو گئی تو وہ ڈاکٹر کے پاس گئی۔ڈاکٹر نے اسے بتایا کہ تمہاری بیماری ایسی ہے کہ تم جلد مرجاؤ گی۔اسے یہ سن کر صدمہ ہوا کیونکہ اس کے پاس ایک انڈا تھا۔اسے ڈرلگا کہ اگر میں مرگئی تو اس انڈے کا کیا ہو گا جس کے خول سے جلد ہی بچہ نکلنے والا تھا اور پھر اس بچے کوکون سنبھالے گا۔لہٰذا وہ اپنے سب دوستوں کے پاس گئی جو جنگل میں رہتے تھے۔

    اس نے اپنے دوستوں کو اپنی ساری کہانی سنائی لیکن انہوں نے مدد کرنے سے انکار کر دیا۔بیچاری بطخ نے ان کی کافی منتیں کیں کہ خدا کے لیے تم لوگ مرنے کے بعد میرے بچے کو اپنا سایہ دینا لیکن کسی نے اس کی بات نہ مانی۔

    بیجاری بطخ بھی کیا کرتی۔اس کے ذہن میں خیال آیا کہ کیوں نہ میں اپنے بھائی مرغے کے پاس جاؤں،وہ ضرور میری مدد کرے گا لہٰذا وہ مرغے کے پاس گئی اور اسے سارا قصہ سنایا۔

    مرغ بھائی! آپ میرے بچے کے ماموں جیسے ہو پلیز آپ ہی میرے بچے کو اپنا سایہ دینا۔مرغابولا!میں تمہارے بچے کو رکھ لیتا لیکن میری بیگم مرغی یہ بات نہیں مانے گی لہٰذا مجھے بہت افسوس سے کہنا پڑرہا ہے کہ میں یہ کام نہیں کر سکتا لہٰذا تم مجھے معاف کر دینا۔بطخ ادھر سے مایوس ہو کر اپنے گھر واپس آگئی اور سوچنا شروع کر دیا کہ اب کیا کیا جائے۔اچانک اس کے ذہن میں ایک ترکیب آئی اور اس نے موقع ڈھونڈ کر یہ کام انجام دے دیا اور خود جاکر ایک درخت کے کنارے بیٹھ گئی۔ اس کے بعد بطخ کی طبیعت اور بگڑ گئی اور ایسی بگڑی کہ اس کی موت ہو گئی۔

    جب مرغی کے بچے انڈوں سے باہر نکلے تو ان میں ایک بطخ کا بچہ بھی تھا۔مرغ تو سب جان گیا تھالیکن اس نے مرغی کو بتانا مناسب نہ سمجھا۔مرغی نے کافی شور شرابہ کیا اور بولی:میرے بچوں کے ساتھ بطخ کا بچہ نہیں رہے گا۔مرغ نے اسے کافی سمجھایالیکن مرغی نے اس کا کہنا نہیں مانا۔

    مرغی نے اپنے بچوں کو منع کر دیاکہ بطخ کے بچے سے کسی کو بات نہیں کرنی ہے۔سب نے مرغی کی بات مان لی لیکن وہ چوزوں نے اپنی ماں کی بات نہ مانی اور وہ جوخود کھاتے تھے۔اپنے ساتھ اس بطخ کے بچے کو بھی کھلاتے تھے۔مرغی کو بطخ کے بچے سے سخت نفرت تھی،وہ اسے دیکھنا بھی پسند نہیں کرتی تھی۔

    ایک دن مرغی کے ذہن میں خیال آیا کہ ہم سب مل کر دریا کے کنارے سیر کو جائیں گے۔ہم سب واپس آ جائیں گے اور بطخ کے بچے کو وہیں چھوڑ آئیں گے۔اس طرح اس سے جان چھوٹ جائے گی۔وہ لوگ سیرکو نکلے۔وہاں پہنچتے ہی ایک چوزہ دریا کے کنارے چلا گیا اور ڈوبنے لگا۔یہ دیکھ کر مرغی زور زور سے چیخنے چلانے لگی چونکہ بطخ کے بچے کو تیرنا آتا تھا لہٰذا اس نے فوراً دریا میں تیرنا شروع کردیا اور اس چوزے کو نکال کر باہر لے آیا۔مرغی نے جب یہ دیکھا تو اپنے کئے پر کافی شرمندہ ہوئی اور اس نے بطخ کے بچے سے معافی مانگ کر اسے اپنا بیٹا بنالیا۔اس طرح وہ سب ہنسی خوشی رہنے لگے۔

    دیکھا بچو!کیسے بطخ کے بچے نے مرغی کو بچایا اور کیسے اس کا بھلا ہوا۔اسی لئے تو کہتے ہیں کہ کر بھلا تو ہو بھلا۔

 عمر اور ہادی کو سیر کرنے کا بہت شوق تھا۔اتوار کی چھٹی تھی۔دونوں نے جنگل جا کر گھومنے کا منصوبہ بنایا۔اس سے پہلے وہ کبھی جنگل میں نہیں گئے تھے۔جنگل کی پْرسکون خاموشی میں درختوں کے درمیان چلتے چلتے ان کی نظر ایک 

مزیدخبریں