میں ہمہ وقت آندھیوں، بگولوں،ورولوں، آتش فشانوں، طوفانوں،زلزلوں کی زدمیں رہا۔ صحرائی آک کے عاموں کی خشک ایال کی گتھم اورخش وخاشاک کوشوریدہ خرامیوں سے وجودمیں آنے والے آوارہ گھمن گولوں کی طرح وجود،جس کا مقصودہی دربدری، آشفتہ سری اورخاک بسری ہوکیونکہ سرخ روی اورسلجھ سجھائی کی سمت باندھی جاسکتی ہے۔
"اسرائیل "(Israel)عظیم پیغمبرحضرت یعقوب علیہ السلام (Jacob)کالقب ہے، جس کے معنی(Meaning) "اللہ کی طرف رات کے وقت چلنے یابڑھنے کے ہیں "۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کی نسل (Generation) "بنو اسرائیل" کہلاتی ہے۔تقریباً20صدیاں (2000 Years)دربدربھٹکنے کے بعد بلآخر 20 ویں صدی میں یہ قوم اپنی "مملکت "(State)قائم کرنے میں کامیاب ہوگئی۔قرآن پاک میں متعددبار"بنی اسرائیل"کاذکرآیاہے، اورایک سورہ مبارکہ کانام بھی اسی مناسبت سے ہے۔ "یہودیت "(Judaism)ان کا مذہب ہے، جس کی بناء پر انہیں "یہودی"(The Jews) کہا جاتا ہے۔ موجودہ ملک اسرائیل (Israel) کا قیام 14مئی1948ء کوعمل میں آیاہے۔ یہ قیام دراصل عربوں کی سرزمین پر زبردستی قبضہ (Occupied) ہے، جسے ابھی تک پاکستان سمیت کئی مسلم ممالک نے تسلیم نہیں کیاہے۔ تاریخ کی ورق گردانی سے پتہ چلتاہے کہ "بنی اسرائیل"کو"فرعون مصر" (Pharaoh of Egypt)کے ظلم وستم سے حضرت موسیٰ علیہ السلام (Moses)نے نجات دلائی اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ریڈی میڈ کھانا "من وسلویٰ"ودیگربے شمارنعمتیں عطاء کی جاتی رہیں، لیکن یہ لوگ مسلسل نافرمانیوں میں مصروف رہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد آنے والے انبیاء کرام کے ساتھ "بنی اسرائیل"کارویہ ہتک آمیز ہی رہا۔ بات آگے بڑھاتے ہیں، "صیہونیت" (Zionism) کاباقاعدہ طورپرآغاز17 ویں صدی عیسوی میں ہوا۔ اس کا پہلاہیڈکوارٹر"وی آنا" (Viana) تھا۔
1854ء میں لندن کے ایک یہودی شخص نے اس مقصد کیلئے ایک" کمپنی"قائم کی، اور1876ء میں "جارج ایبٹ"نے "چول سائن"کے نام سے ایک سوسائٹی کی بنیادرکھی، جس کا مقصد فلسطین میں یہودکی نوآبادیاں (New Settlements) قائم کرناتھا۔ 1896ء میں "وی آنا"کے ایک یہودی صحافی (Journalist)ڈاکٹرہرزل نے "ریاست یہود"کاٹھوس تصورپیش کیا، اس کی رہنمائی میں پھر17اگست1897ء کو سوئٹزر لینڈ کے شہر"باسل "(Basel)میں صیہونیوں کی ایک کانفرنس منعقدہوئی۔ جس کے نتیجے میں یہودیوں میں ہجرت فلسطین کی باقاعدہ تحریک شروع ہوگئی۔ سب سے پہلے روس سے کچھ یہودی ارض مقدس پہنچے، اس سلسلے میں برطانوی حکومت نے کلیدی رول اداکیا، ترک سلطان "عبدالحمید" پر ڈاکٹر ہرزل کے ذریعے پریشرڈالاگیا، کہ یہودیوں کی خودمختاری تسلیم کی جائے۔ لیکن سلطان عبدالحمید نے دوٹوک الفاظ میں انکارکردیا، جس کا خمیازہ سلطان عبدالحمیدنے" تخت الٹ دو"جیسی سازشوں کی صورت میں بھگتا۔ بہرحال 1914ء میں یہودیوں کو ملکیت زمین کا حق دلادیاگیا۔ "اعلان بالفور"جوکہ برطانوی وزیرخارجہ کے نام پرہے، اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ "اعلان بالفور"کے فوری بعد دنیا بھرسے یہودی فلسطین میں اکٹھے ہوناشروع ہوگئے۔ جس کی ایک چھوٹی سے مثال یہ ہے کہ فلسطین میں موجود صرف 2600یہودی دیکھتے ہی دیکھتے 83000کی تعدادمیں تبدیل ہوگئے۔ عربوں کی ملکیتی زمینیں، جائیدادیں یہودیوں کوملناشروع ہوگئیں، کثیرتعدادمیں گاؤں خالی کراکے یہودی بستیاں بسائی گئیں۔ ان ساری کاروائیوں کانتیجہ یہ نکلا کہ 1936ء تک یہودیوں کی آبادی ساڑھے 4لاکھ سے بھی تجاوزکرگئی۔ ستم ظریفی دیکھیں ذرا 1936ء میں برطانیہ نے ایک "مجلس قانون ساز"(Legislative Assembly)قائم کی،جس میں کل 22میں سے صرف 11ممبرزمسلمان تھے۔ "فلسطین ایشو"کے حل کیلئے اقوام متحدہ نے 15مئی 1947ء کو ایک کمیٹی تشکیل دی، جو11ممالک کے ممبرزپرمشتمل تھی۔ کینڈا،چیکوسلواکیہ،گوئٹے مالا، نیدرلینڈاورسویڈن نے تقسیم فلسطین کاحل پیش کیا، جبکہ انڈیا وایران نے وفاق پرزوردیا۔ بہرحال بات نہ بنناتھی نہ بن سکی۔ قصہ مختصر، بلآخر 29 نومبر 1947ء کو اقوام متحدہ نے قراردادکے ذریعے فلسطین کو عربوں اوریہودیوں کے درمیان تقسیم (Devide)کرنے کافیصلہ کردیا۔ 33ممالک نے حمایت اور13نے مخالفت کی۔ امریکا اورروس نے توبھرپورسپورٹ فراہم کی۔ اقوام متحدہ کی قراردادکے فوراً بعد یہودیوں نے دہشتگردی کا آغازکردیا۔ 17000سے زائد فلسطینیوں کوشہیدجبکہ 3لاکھ افرادکوگھروں سے بے دخل کردیاگیا۔ آخرکار14مئی 1948ء کو برطانیہ نے فلسطین سے کنارہ کشی کا اعلان کردیا،اوریوں " اسرائیل " کے نام سے یہودیوں نے اپنی مملکت ڈیکلیئر(Declare)کردی، جبکہ امریکاوروس نے فوری طورپرتسلیم بھی کرلیا۔ حکومت کے قیام کے کچھ دن بعدہی یہودیوں نے"بیت المقدس"کے تقریباً آدھے حصے پر قبضہ جمالیا، اورساتھ ہی مسلم آبادیوں پرحملے شروع کردیئے۔ اگست1969ء میں مسجداقصیٰ کونذرآتش کرنے کا واقع پیش آیا۔ اسرائیل اورفلسطین کی تاریخ میں ڈرامائی پیش رفت 14مارچ 1979ء کوہوئی، جب مصرکے انورالسادات، اسرائیلی وزیراعظم اورامریکی صدرجمی کارٹرکے درمیان معاہدہ طے پایاکہ دونوں ملکوں کے درمیان سرحدیں کھول دی جائیں گی۔ لیکن بے سود۔ 1993ء میں "اوسلو"معاہدے کے تحت یاسرعرفات اوراسرائیل کے درمیان طے پایاکہ آئندہ پانچ سال کے دوران "مغربی کنارے"اور"غزہ پٹی "کے فلسطینیوں کوسیاسی خودمختاری حاصل ہوجائے گی۔ اسرائیل مضبوط ترین معیشت (Economy)کادرجہ حاصل کرچکاہے۔ 2024ء کے اوائل سے اسرائیل کی جانب سے نہتے فلسطینیوں کے خلاف ظلم وجبرکی کاروائیاں جاری ہیں۔ لیکن مجال ہے کہ کوئی آگے بڑھ کراسرائیلی بازوپکڑ کر کہہ سکے "کہ اب بس کرجاؤ"بہت ہوچکاہے۔