عمران خان کی بے بسی
عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی عدت نکاح کیس میں سزاؤں کی معطلی کے لئے اپیلیں مسترد ہو چکی ہیں،فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سزا نہ تو قلیل ہے اور نہ ہی طویل،سزا کا زیادہ حصہ بھگت چکے ہیں، سزا معطلی کا جواز نہیں بنتا اور ضمانت انڈر ٹرائل ملزم کا حق ہوتا ہے،سزا یافتہ کا نہیں۔حیران کن بات ہے کہ اِس وقت پی ٹی آئی پر کالے کوٹوں والے چھائے ہوئے ہیں، مفت میں مقدمہ لڑنے اور مفت میں ہی سب کچھ کر کے شہرت حاصل کرنے کے خواہشمند وکلاء کی خاصی تعداد پی ٹی آئی کی صفوں میں کھڑی نظر آتی ہے۔یہ وکلاء ٹھنڈے اور بند کمروں میں تقاریر کر کے اور نعرے مار کر عمران کے ساتھ اظہارِ یکجہتی تو کرتے ہیں،لیکن سڑکوں پر آ کر پولیس کی مار کھانے کے لئے تیار نہیں ہیں، حد تو یہ ہے کہ ایسے وکلاء لیڈر،عمران خان کو کسی قسم کا عدالتی ریلیف بھی نہیں دِلا سکے،ہمارے ہاں پڑھنے پڑھانے کی عادت ہی نہیں ہے یہی حال ہمارے وکلاء کا ہے۔ پی ٹی آئی کے ساتھ وابستہ وکلاء کا تو کہنا ہی کیا ہے وہ تو عدالت سے ایسا ریلیف مانگتے ہیں جو وہ دے ہی نہیں سکتی ہیں،ضمانت کی درخواست ایک ایسے شخص کے بارے میں جو سزا یافتہ ہو، درست نہیں ہے۔عمران خان کے وکلاء نے کیس سٹڈی کئے بغیر ہی درخواست داغ دی، حالانکہ ایسی نظیریں موجود ہیں کہ انڈر ٹرائل ملزمان کو تو ضمانت مل گئی جبکہ سزا یافتہ کو یہ حق نہیں دیا گیا۔ عمران خان اور بشریٰ بی بی سزا یافتہ ہیں سزا بھگت رہے ہیں، ان کی ضمانت ہو ہی نہیں سکتی، پھر وکلاء نے ایسی درخواست کیوں دی،جس کا مسترد ہو جانا،قطعاً یقینی تھا۔یاد رہے 25نومبر2023ء کو بشریٰ بی بی کے سابقہ خاوند نے درخواست دائر کی تھی،3فروری2024ء کو سینئر سول جج قدرت اللہ نے فیصلہ دیا کہ بشریٰ بی بی اور عمران خان کا نکاح درست نہیں ہے اس لئے دونوں کو سات، سات سال قید کی سزا دی گئی جو وہ اب بھی بھگت رہے ہیں۔عمران خان اور بشریٰ بی بی نے اس فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی،سیشن جج شاہ رخ ارجمند نے29 مئی کو ان اپیلوں پر فیصلہ سنانے سے معذرت کر لی تھی، کیونکہ خاور مانیکا نے ان پر عدم اعتماد کا اظہار کر دیا تھا اگر وہ ایسا نہ کرتے تو شاہ رخ ارجمند فیصلہ سنا چکے ہوتے۔ بہرحال مانیکا کی درخواست پر جج صاحب فیصلہ سنانے سے رُک گئے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایڈیشنل سیشن جج کو دس دِنوں کے اندر اندر سزا معطلی جبکہ ایک ماہ کے اندر اندر مرکزی اپیلوں پر فیصلہ کرنے کی ہدایت کی۔سزا معطلی اپیل کا فیصلہ جاری کر دیا گیا ہے جس کے مطابق عمران خان اور بشریٰ بی بی، دونوں کی درخواستیں مسترد کر دی گئی ہیں، جبکہ مرکزی اپیلوں پر سماعت 2جولائی کو ہونا طے پائی ہے۔عمران خان سردست صرف عدت کیس میں سزا یافتگی کے باعث اڈیالہ جیل میں قید ہیں۔ 190 ملین پونڈ کیس، لاہور، راولپنڈی اور فیصل آباد میں درج9مئی کے مقدمات میں ضمانت پر ہیں، ریاست مخالف ٹویٹ پر ایف آئی اے جیل میں ہی ان سے دو بار تفتیش کر چکی ہے اور تاحال عمران خان پر کوئی نیا مقدمہ درج نہیں کیا گیا ہے۔
پی ٹی آئی کی قیادت اپیل مسترد کیس فیصلے کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ جانے کا اعلان کر چکی ہے،حسب ِ سابق انہوں نے کیس کے میرٹ وغیرہ پر غور و خوض کئے بغیر ہی سیاسی بیان داغ دیا ہے اِس بات پر غور ہی نہیں کیا کہ کیا ان کے پاس کوئی آپشن ہے یا نہیں۔قانون کیا کہتا ہے،عدالتی فیصلوں کے نظائر کیا ہیں، وغیرہ وغیرہ۔پی ٹی آئی قیادت کی ایسی ہی بچگانہ حرکات اور طفلانہ فیصلوں کے باعث عمران خان نہ صرف جیل میں ہیں،بلکہ سزا یافتہ مجرم بھی قرار پا چکے ہیں۔پی ٹی آئی والے تو عمران خان کو جیل میں گھر کا کھانا بھی فراہم نہیں کر سکے،اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ عمران خان کو کھانا فراہم کرنا نہیں چاہتے یا ان کی صلاحیت نہیں ہے لیکن یہ بات طے ہے کہ وہ انتظامی صلاحیتوں سے عاری ہیں۔عمران خان نے2011ء میں لانچ کیے جانے سے لے کر 2018ء میں اقتدار میں لائے جانے تک بہت اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ یہ کارکردگی صرف زبانی کلامی حد تک تھی۔ دشنام اور بدکلامی تک محدود تھی اس لئے وہ اس میں خوب چمکے۔ باصلاحیت نکلے، پارٹی کام تو ان کے سرپرستوں نے کرنا تھا اس لئے وہ خوب ہوا لیکن جب2018ء میں عمران خان کو ان کے سرپرست اقتدار میں لے آئے اور عمران خان فیصلہ سازی کے منصب تک پہنچائے گئے تو ان کی صلاحیتوں کا امتحان شروع ہوا،ان کے فیصلوں کی ابتداء بزدار جیسے نابغے کو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے منصب پر سرفراز کرنے سے ہوئی۔ایسے ہی فیصلے کرتے کرتے عمران خان کی صلاحیتیں قوم کے سامنے کھل کر آنے لگیں، اپنے 44ماہی دورِ حکمرانی میں عمران خان ایک دن کے لئے بھی اپنے سابقہ مقام سے ہٹے نہیں، انہوں نے وہی دشنام طرازی کا رویہ اپنائے رکھا، وہی غیر ضروری لفاظی پر تکیہ کئے رکھا حتیٰ کہ ان کے بقول بشریٰ بی بی نے انہیں یاد دلایا کہ وہ وزیراعظم پاکستان ہیں۔عمران خان کی زبان درازی، غیر ذمہ دارانہ رویوں اور ذہنی پستی نے ملک کو ڈیفالٹ کے دہانے تک پہنچا دیا۔2022ء میں انہوں نے انپے خلاف آنے والی تحریک عدم اعتماد کے وقت جو غیر پارلیمانی اور غیر آئینی رویہ اختیار کیا، اس سے خطرہ پیدا ہو چلا تھا کہ پورا نظام ہی گر جائے گا،لیکن ریاست کی مداخلت نے ایسا نہیں ہونے دیا۔ پھر حکومت سے فارغ ہونے کے بعد انہوں نے اپنے ہی سرپرستوں اور محسنوں کو نشانے پر رکھ لیا۔9مئی کا سانحہ عمران خان کی اسی سوچ کا عکاس ہے،عمران خان اب نہ صرف ایک مذہبی کیس میں سزا یافتہ قرار پا چکے ہیں،بلکہ ایک ریاستی ملزم کے طور پر زیر تفتیش ہیں،ان کی عدم موجودگی میں پارٹی تتر بتر ہوتی جا رہی ہے، ریلو کٹے قسم کے وکلاء اپنے آپ کو نمایاں کرنے اور اپنی ورتھ بڑھانے کے لئے احمقانہ قسم کے بیانات دیتے رہتے ہیں اور عدالتوں میں عمران خان کا کیس بھی صرف شہرت حاصل کرنے کے لئے لڑتے ہیں،کیونکہ انہیں پتہ ہے کہ جس دن عمران خان جیل سے باہر آئے اُسی دن ان کی دکانداری ختم ہو جائے گی، وہ اسی نظریے کے تحت عمران خان کے مقدمات لڑ رہے ہیں کہ انہیں شہرت ملتی رہے،لیکن عمران خان قید ہی میں رہے رہائی نہ حاصل کر سکے۔ ایسے ہی ہوس پرست وکلاء پارٹی قیادت پر چھائے نظر آ رہے ہیں وہ پارٹی چلا رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کے مخلص اور نظریاتی لوگ پچھلی صفوں میں جا چکے ہیں،بلکہ کہیں گم ہو چکے ہیں۔اطلاعات ہیں کہ قومی اسمبلی میں دو درجن سے زائد ایم این ایز کا ایک نظریاتی گروپ تشکیل پا چکا ہے جو ایسے لوگوں کے خلاف احتجاج کرے گا اور انہیں ان کی اوقات دکھائے گا۔ دیکھتے ہیں آنے والے دِنوں میں کیا ہوتا ہے،لیکن ایک بات طے ہے کہ عمران خان کو سردست جیل میں ہی رکھنے کا فیصلہ ہو چکا ہے، جبکہ ان کی پارٹی قیادت بھی انہیں جیل سے نکالنے میں سنجیدہ نظر نہیں آ رہی ہے۔