قلم قتلے
ایک زمانہ تھا پورے برصغیر میں ابو الکلام آزاد کی نثر کا طوطی بولتا تھا اور رئیس الاحرار مولانا فضل الحسن حسرت موہانی کو یوں اعترافِ عظمت کرنا پڑا تھا:
جب سے دیکھی ابوالکلام کی نثر
نظمِ حسرت میں کچھ مزا نہ رہا
ہم نے اپنے زمانہ ء طالب علمی میں ابوالکلام آزاد کو پڑھا بھی اور دیکھا بھی، مگر پنجاب کے دل لاہور میں استاد محترم حضرتِ احسان دانش کے قدموں میں جس شاعر، ادیب، صحافی اور بے مثل نثر نگار کو ہمیشہ بیٹھے دیکھا، وہ تھے آغا شورش کاشمیری۔ عبدالکریم نام تھا، شاعری کی دنیا میں اُلفت تخلص کے ساتھ وارد ہوئے، مگر احسان دانش نے اُلفت کو شورش کر دیا کہ اُلفت ان کے اس چہیتے شاگرد کے مزاج سے لگا نہ کھاتا تھا۔ یوں وہ عبدالکریم الفت سے عبدالکریم شورش اور پھر شورش کاشمیری ہوئے۔ اس زمانے میں شاعری میں، نثر میں ڈرامے میں ’’انڈین شیکسپیئر‘‘ آغا حشر کاشمیری چھائے ہوئے تھے۔ مقبول انور داؤدی نے شورش کاشمیری کے نام کے شروع میں ’’آغا‘‘ کا لاحقہ لگا دیا حالانکہ وہ ’’آغا‘‘ نہ تھے۔ بس پھر تو چل سو چل۔ آغا حشر کاشمیری اپنا عہدِ زریں گزار کر پیچھے رہ گئے یا نصابی کتابوں میں محفوظ ہو گئے آغا شورش کاشمیری کا طنطنہ حاوی ہوا اور ایسا حاوی ہوا کہ سلاطین کو خاک چٹوا دی۔ان کا ہفت روزہ مجلہ ’’چٹان‘‘ ہر لحاظ سے منفرد اور مقبولِ عوام و خواص جریدہ تھا۔ اس میں شائع ہونے والی زیادہ تر تحریریں خود آغا شورش کاشمیری کے قلمِ معجز رقم سے معرضِ وجود میں آتی تھیں۔ اکثر تحریروں پر وہ فرضی قلمی نام دے دیتے تھے ایسے ہی ایک کالم کا عنوان ’’قلم۔ قتلے‘‘ تھا۔ آغا شورش کاشمیری قلم کو تلوار بنا کے سیاستدانوں کے قتلے کرتے چلے جاتے تھے۔ اس کاٹ دار تحریر سے ہر شخص دہلتا تھا،لرزہ براندام رہتا تھا۔ آغا صاحب کشتوں کے پشتے لگاتے چلے جاتے۔ ان کشتگانِ قلم کے نقوش فانی ’’چٹان‘‘ پر ثبت ہو جاتے۔شکیب جلالی کے اس شعر کی مانند:
آ کر گرا تھا ایک پرندہ لہو میں تر
تصویر اپنی چھوڑ گیا ہے چٹان پر
اس ناچیز، خاکسار، ہیچمدان، کج مج بیان ناصرزیدی کے ’’قلم قتلے‘‘ آغا شورش کاشمیری سے مستعار لئے ہوئے عنوان کے حامل ہیں اور بس! ان ’’قلم قتلوں‘‘ میں وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی، پھر بھی مضروب حضرات گلہ گزار ہوتے ہیں ،دوسروں سے کہلواتے ہیں کہ ’’ہاتھ ہولا رکھیں‘‘ کھلا کہ تنقید کسی کو دھیمے، کومل سُروں میں بھی برداشت نہیں۔ مگر کیا کروں بعض لوگوں کی حرکات و سکنات اور احمقانہ جملے ناقابلِ برداشت ہونے کے سبب رہوار قلم کی زد میں خودبخود آ جاتے ہیں۔ واللہ ان پر حاشیہ آرائی بے ساختہ بے اختیار ہوتی ہے۔ بہرحال اپنے ایک بہت پرانے شعر کے مصداق سنبھلنے کی کوشش کروں گا کہ:
سنا ہے بام پر آئیں گے آج وہ ناصر!
خدا کرے کہ رہے دل پہ اختیار مجھے
ایک خوبصورت پُرکشش، دل کش دلبر نوجوان بلاول نے اسٹیج پر آکر جب منہ پھاڑ کے یہ کہا کہ ’’بھارت میں مسلمان صدر بن سکتا ہے تو پاکستان میں ہندو کیوں نہیں؟‘‘
تو اس سوالیہ جملے پر میرا قلم تلملایا، مُرغ بسمل کی طرح تڑپا اور بے اختیار اس جملے کے قتلے کرنے پر آمادہ ہو گیا۔مَیں نے اپنی اب تک کی ادبی و صحافتی زندگی میں اس طرح کی بات کسی لیڈر سے نہیں سنی، حتیٰ کہ ایبٹ آباد کے رکشا ڈرائیور وزیر جلال بابا اور بھائی پھیرو (پھول نگر) کے وزیر رانا پھول خان سے بھی نہیں۔۔۔ اس نوجوان کو اپنے نانا ذوالفقار علی بھٹو کے بنائے ہوئے 73ء کے آئین پاکستان سے بھی آگاہی نہیں کہ جس میں واضح طور پر درج ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صدارتی عہدے پر فائز ہونے کے لئے مسلمان ہونا ضروری ہے۔۔۔ اس جاہلانہ ،احمقانہ بچکانہ بیان پر تفصیلی مُدلل تجزیہ ہمارے قدرت اللہ چودھری صاحب لکھ چکے ہیں، چھپوا چکے ہیں، اس لئے قلم کو یہیں روکتا ہوں۔ آیئے کچھ اور خبروں پر تبصرہ ملاحظہ کیجئے:
O ایران، پاکستان کی تیل گیس اور بجلی کی تمام ضروریات پوری کر سکتا ہے۔ صدر حسن روحانی
*بجا ارشاد فرمایا۔۔۔ یہ بتلایئے کہ ’’کِک بیکس‘‘ اور ’’کمیشن‘‘ کی صورت میں ہمارے حکمرانوں کے اللے تللوں کے لئے کیا کر سکتا ہے؟؟
Oحکمرانوں کے ہوتے ہوئے ہمیں انصاف نہیں ملے گا۔ طاہر القادری
*محترم! ہر دور میں، ہر عہد میں کوئی نہ کوئی تو حکمران ہوتا ہی ہے۔ بے حکمرانوں کے کون سی حکومت آئے گی جو آپ کو انصاف دے گی۔ آپ فی الحال عدلیہ کی زنجیر تو ہلایئیجس سے آپ گریز یا کی پالیسی پر نہ جانے کیوں گامزن ہیں ؟ پھر کہئے:
ہم کو شاہوں سے عدالت کی توقع تو نہیں
آپ کہتے ہیں تو زنجیر ہلا دیتے ہیں
Oاقلیتوں اور خواتین سے متعلق قوانین کا غلط استعمال معاشرتی المیہ ہے، جسٹس (ریٹائرڈ) چودھری شاہد سعید
*چودھری صاحب! اس المیے کی بانی مبانی عدالتیں ہی ہیں نا جو قانون کے غلط استعمال کا تدارک نہیں کر پاتیں۔ یہ محض ’’معاشرتی المیہ‘‘ ہی نہیں، عدالتی، سیاسی، اخلاقی، عوامی اور صحافتی و ادبی المیہ بھی ہے۔ ان تمام شعبہ ہائے حیات کے لوگوں کا ضمیر بیدار کرنا ضروری ہے تاکہ قوانین کے صحیح استعمال کی آگہی پیدا ہو سکے، بصورت دیگر بقول جگر مراد آبادی حقیقت یہی ہے:
جہلِ خِرد نے دن یہ دکھائے
گھٹ گئے انساں بڑھ گئے سائے
Oپاک ایران گیس منصوبے کی تکمیل پر صارفین کو بلا تعطل سپلائی ممکن ہو سکے گی۔ امجد لطیف
*منصوبہ مکمل ہونے دیا جائے تب نا؟ رکاوٹ ڈالنے والی قوتوں کا مفاد تو تکمیل سے نہیں عدم تکمیل سے وابستہ ہے۔
Oایسٹر کی مبارکباد دینے پر پاکستانی نژاد برطانوی مسلمان کو اپنے ہی ساتھی نے قتل کر دیا۔ لندن کی ایک خبر اور ’’پاکستان‘‘ کی دوسری خبر:شہبازشریف کی ایسٹر کے موقع پر مسیحی برادری کو مبارکباد!
*مشتری ہشیار باش۔لائے ہیں بزمِ ناز سے یار خبر الگ الگ
Oاگر میں واپس نہ آتا تو قیامت تک پاکستان ایٹمی طاقت نہیں بن سکتا تھا ۔ ڈاکٹر اے کیو خان
*محسنِ قوم محافظِ پاکستان عظیم ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے اس حقیقی دعوے میں حاسدانِ تیرہ باطن کے لئے چلو بھر پانی میں ڈوب مرنے کا مقام ہے، دیکھئے ایٹم بم بنانے کے جعلی دعویدار کیا کہتے ہیں؟
O پارلیمنٹ کے سامنے دھرنا، عمارتوں کا کنٹرول فوج کے حوالے ۔۔۔’’نیااخبار‘‘ کی سرخی
* صرف عمارتوں کا کنٹرول کیوں؟ پورے ملک کا کنٹرول بہادر افواجِ پاکستان کے حوالے ہونا چاہیے۔
O لاہور سوگوار، گھر گھر ماتم ، گلی گلی جنازے!
* اس گھر کو آگے لگ گئی گھر کے چراغ سے۔
غیروں کے آلہ کار، دہشت گرد پاکستانی ہیں، مسلمان ہیں، مدرسے میں من پسند اسلام پڑھاتے ہیں۔