سانحہ گلشن اقبال، میڈیا کو نتائج اخذ کرنے میں احتیاط کرنا ہو گی
تجزیہ:چودھری خادم حسین
عقل مندی تو یہی ہوتی ہے کہ جلد کسی نتیجے پر نہ پہنچا جائے خصوصاًمیڈیا والوں کو بہت احتیاط کی ضرورت ہے کہ آج کے حالات انتہائی ناخوشگوار ہیں۔ گلشن اقبال (علامہ اقبال ٹاؤن) کا سانحہ سنگین تر ہے لیکن یہ بھی درست رویہ نہیں کہ اسے فوری طور پر ’’را‘‘ کی کارروائی سے جوڑ دیا جائے اور یہ تاثر دیا جائے کہ ’’را‘‘ کے باقاعدہ ایجنٹ کی گرفتاری کے نتیجے میں یہ سب کیا گیا حالانکہ خودکش حملہ یا دھماکہ جس تربیت اور مائنڈ سیٹ کا نتیجہ ہوتا ہے اس کے بارے میں کوئی ابہام نہیں ہے البتہ یہ اپنی جگہ درست اور حال ہی میں پکڑے جانے والے کلبھوشن یادیو کے حوالے سے جو اطلاعات اب تک میڈیا کے ذریعے عام کی گئی ہیں ان سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ’’را‘‘کے افغانستان میں اڈہ جمائے دہشت گردوں کے ساتھ روابط ہیں اور ان کے لئے تربیت کا بھی اہتمام کیا جاتا اور ان کو رقوم بھی مہیا کی جاتی ہیں۔ اسی طرح یہ بھی درست ہے کہ بلوچستان میں باغی عناصر کو اسلحہ بھی لے کر دیا جاتا ہوگا اس کے باوجود ایک دم ایک نتیجے پر پہنچ جانا کچھ درست نہیں بہتر عمل اب بھی یہی ہے کہ تفتیشی ایجنسی کے تفتیشی عمل اور سرکاری اعلان کا انتظار کیا جائے بلکہ یہ توقع بھی کی جا سکتی ہے کہ یادیو کو میڈیا کے سامنے پیش کیا جائے یہ سب اپنے اپنے طور پر ہوگا اس لئے کوئی حتمی نتیجہ اخذ نہیں کر لینا چاہئے۔
یہ نازک امور ہیں جو دونوں ممالک کے درمیان وجہ نزاع بھی ہیں۔ بھارت کی طرف سے تو پاکستان کی کسی بھی مخلصانہ کوشش کا مثبت جواب نہیں دیا جاتا۔ پاکستان نے نہ صرف ممبئی کے سانحہ کی یہاں تفتیش کی بلکہ پٹھان کوٹ آپریشن پر حملے کی تفتیش میں بھی مکمل تعاون کیا حتیٰ کہ اب اپنی ایک پانچ رکنی ٹیم بھارت بھی بھجوا دی ہے کہ بھارت والے ان کو اپنی تحقیق و تفتیش سے آگاہ کریں کہ وہ بھی تعاون کے جذبے کے تحت تفتیش میں شامل ہو کر نتائج اخذ کر سکیں۔ یہ پانچ رکنی ٹیم پنجاب کے محکمہ انسداد دہشت گردی کے محمد طاہر رائے (چیف ایڈیشنل انسپکٹر جنرل پولیس) کی سربراہی میں لفٹیننٹ کرنل تنویر احمد (آئی ایس آئی) لیفٹیننٹ کرنل عرفان مرزا (ایم آئی) ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل لاہور محمد عظم ارشد (آئی بی) اور شاہد تنویر (سی ٹی ڈی گوجرانوالہ) پر مشتمل ہے گزشتہ روز خصوصی طیارے کے ذریعے دہلی پہنچی اور بھارتی اداروں کی طرف سے ان کو تفصیلی بریفننگ دی گئی، خود بھارتی میڈیا کی اطلاعات کے مطابق اس ٹیم کو جو سات روزہ پرگرام پر گئی پٹھان کوٹ ایئر بیس کا معائنہ بھی کرایا جائے گا لیکن یہ محدود علاقے میں رہیں گے ان کو وقوعہ والے پورے حصے نہیں دکھائے جائیں گے اور نہ ہی کسی فوجی اہل کار سے سوال و جواب کرنے دیا جائے گا البتہ پولیس ا ور سویلین گواہوں سے جرح کی جا سکے گی اور یہ ٹیم بھارتی ہم منصبوں سے تبادلہ خیال ضرور کرے گی واپسی پر اپنی رپورٹ حکومت کو دے گی۔
یہ صورت حال تھی کہ بھارت نے جائز ویزا پر گئے پاکستانی ہندوؤں کے پورے کے پورے خاندانوں کو پکڑ لیا اور 35 افراد کو حراست میں لیا ان میں بوڑھے، بچے اور خواتین بھی شامل تھیں، پاکستان کے دفتر خارجہ، بھارت میں ہائی کمیشن اور میڈیا کے واویلا کی وجہ سے ان میں سے 33 افراد کو چھوڑ دیا گیا اور دو کو ابھی تک زیر تفتیش رکھا ہوا ہے۔ شاید یہ بدلے کی صورت ہے۔ یا پھر بھارتی ایجنسیاں ان دونوں کے ذمے کچھ لگانا چاہتی ہوں گی۔ ان حالات میں حکومت کے لئے بھی بہتر عمل یہ ہے کہ یاتو سرکاری طور پر کچھ بتایا جائے یا پھر مختصراً کہہ دیا جائے کہ تفتیش جاری ہے۔ میڈیا کو بہر حال احتیاط کرنا چاہئے۔
ملک میں سیاست اور عدم برداشت کے حوالے سے جو کچھ ہو رہا ہے وہ عیاں ہے۔ کتنا جانی نقصان ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔ تاہم ایک امر ملحوظ خاطر رہے کہ دہشت گرد عوام کو خوفزدہ نہیں کر سکے۔ آج سیاست پر بات کرنے کو جی نہیں چاہتا۔ بہر حال اس پر بات ختم کرتے ہیں کہ ورلڈ کپ میں بارتی ٹیم نے آسٹریلیا کو ہرا دیا ہے یہی نتیجہ ہونا تھا؟