عورتوں کا عالمی مہینہ اور حکومت پنجاب
آج کل عورتوں کا بین الاقوامی مہینہ منایا جا رہا ہے مختلف تقریبات میں عورتوں کی امپاورمنٹ پر سیر حاصل گفتگو کی جا رہی ہے۔
ایسی ہی ایک نشست کا اہتمام انسٹی ٹیوٹ آف ایپلائیڈ سائیکالوجی جامعہ پنجاب کی ڈائریکٹر ڈاکٹر فرح ملک نے کیا جس کے مہمانان خاص میں بیگم ذکیہ شاہنواز صوبائی وزیر برائے بہبود آبادی اور وائس چانسلر جامعہ پنجاب شامل تھے جبکہ ڈاکٹر نجمہ نجم سابق وائس چانسلر یونیورسٹی آف گلگت مرکزی مقرر تھیں جنہوں نے ایک بھرپور اور جامع مقالہ پیش کرتے ہوئے عورتوں کا کیس پیش کیا وائس چانسلر صاحبہ نے بتایا ان کی یونیورسٹی میں خواتین کے نتائج بہتر آئے ہیں اور ہر شعبہ میں قابل ذکر خدمات انجام دی جا رہی ہیں بیگم ذکیہ شاہنواز نے اپنی مثال پیش کرتے ہوئے طالبات کو کہا کہ خود کو کمزور نہ سمجھیں کیونکہ اگر کمزور سمجھو گے تو دبا دیئے جاؤگے۔ ڈاکٹر فرخ ملک نے عورت کی معاشرہ میں اہمیت بطور ماں، بیوی، بہن اور ہر شعبہ میں کام کرنے والی ساتھی کے طور پر روشنی ڈالتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ عورتوں کو ہر شعبہ زندگی میں جاب آفر ہونی چاہئے۔ طلبا و طالبات نے پاکستان کی زندگی میں تاریخی عورتوں کے بارے میں ایک بہت معلوماتی فلم پیش کی اس سلسلہ میں جہاں اور تقریبات بھی ہو رہی ہیں ملتان میں بھی ایک نئے ویژن کے ساتھ بنائے گئے عورتوں پر تشدد کے خلاف سینٹر کا افتتاح ہوا جو انسداد تشدد برائے خواتین سینٹر کہلائے گا۔ وزیر اعلیٰ پنجاب نے اس موقع پر کہا کہ ایسے سینٹرز میں تشدد زدہ خواتین کی فوری داد رسی ہونی انہوں نے بتایا کہ جہاں پر بھی خواتین کے ساتھ کسی بھی جگہ کسی بھی قسم کا تشڈد ہو۔ریاست کی ذمہ داری ہے وہ ان خواتین کو تحفظ فراہم کرے اور ہم نے تہیہ کر رکھا ہے کہ معاشرہ کے اس طبقہ کو ایک ہی چھت تلے تحفظ کے اقدامات کئے جائیں گے۔ افتتاح سے پہلے اس خواب کی تکمیل میں ایک سال لگا۔یہ اپنی نوعیت کا جنوبی ایشیا میں سب سے پہلا سنٹر ہے۔ یہاں قانونی کارروائی سے لے کر علاج معالجہ تک ہر نوعیت کا نام ایک ہی جگہ پر ہوگا۔ قانونی چارہ جوئی ہوگی۔ شکایت سے لے کر عدالت اور جج یہیں ہوں گے، تاکہ ایسی خواتین دربدر کی ٹھوکریں نہ کھائیں۔ سلمان صوفی نے آئیڈیا کاپس منظر بتاتے ہوئے کہا کہ کریمنل جسٹس سسٹم میں تبدیلی لانے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ خواتین سوسائٹی کا اہم ترین حصہ ہیں۔ اس سنٹر کی خصوصی سہولتوں میں تشدد کی شکایت فرسٹ ایڈ، طبی معائنہ ، پولیس رپورٹنگ، نفسیاتی کونسلنگ اور عدالت جج، میڈیکل اور سزا و ٹرائل شامل ہیں۔ بعدازاں یہ ہر ضلعی ہیڈکوارٹر میں قائم کیا جائے گا۔ ہمارے خیال میں تبدیلی کی باتیں کرنے والوں کے لئے ’’تبدیلی‘‘ کسی انقلاب سے کم نہیں جو باتیں تو تبدیلی کی کرتے ،مگر کام دھیلے کا بھی نہیں کرتے۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ کی متحرک ٹیم اور خود ان کو مبارک باد کہ انہوں نے ایک سال کی قلیل مدت میں تمام تشدد زدہ عورتوں کو ایک راستہ دکھایا ہے، جو آئندہ چل کر ’’تشدد فری‘‘ معاشرہ قائم کرنے میں مدد دے گا اور اس قسم کے سینٹرز کی موجودگی عورتوں کو نفسیاتی طور پر مضبوط بنائے گی اور یہ ہے اصل ’’Women Empowerment‘‘ جس کا خواب ہماری عورتوں کی اکثریت دیکھتی ہے۔ عورت کو اچھی غذائی سہولتیں مہیا کرنا اور تشدد فری ماحول فراہم کرنا، اس لئے بھی ضروری ہے کہ وہ آئندہ نسل کی تیاری پورے انہماک سے کرے۔ ان سینٹروں میں خصوصی طور پر نفسیات دانوں کی تقرری یہ ظاہر کرتی ہے کہ حکومت عورت کو ہر سطح پر مضبوط بنانا چاہتی ہے اور جو لوگ وزیر اعلیٰ پنجاب کو صرف ’’پل بنانے والا‘‘ کہتے ہیں وہ ان کے اس کارنامہ کا ذکر بھی کرلیا کریں۔ کسی کے اچھے ویژن کی تکمیل پر خوش ہونا اور اس کی تعریف کرنا ایک اچھا فعل ہے اور معاشرے میں اس قسم کی تبدیلی کا خیر مقدم کیا جانا بہت ضروری ہے۔ تمام عورتوں کو یہ سہولت مبارک ہو۔