ایک دفعہ مغرب کے وقت قبرکی کھدائی میں مصروف تھا، دوسری قبر سے نسوانی آواز میں تلاوت سنی تو ادھر بڑھا لیکن وہاں کوئی بشرنہیں تھا: گورکن باباعبداللہ
کراچی (ویب ڈیسک) یوں تو پراسرار واقعات کہیں بھی اور کسی کے ساتھ بھی پیش آسکتے ہیں تاہم قبرستان مافوق الفطرت واقعات کے حوالے سےا ہم سمجھے جاتے ہیں ایساہی ایک واقعہ گورکن باباعبداللہ کیساتھ پیش آیا۔شاہ فیصل کالونی گیٹ قبرستان کے گورکن بابا عبداللہ نے بتایا کہ لوگ کہتے ہیں کہ قبرستانوں میں جن بھوت ہوتے ہیں۔ میری زندگی کا ایک بڑا حصہ یہاں گزرا ہے، لیکن میں نے اپنی زندگی میں ایسا کچھ نہیں دیکھا۔ البتہ ایک واقعہ ایسا ضرور پیش آیا جس نے مجھے حیران کردیا۔ تقریباً 12 سال پہلے کی بات ہے۔ مغرب کی نماز کے بعد میں ایک نئی قبر کی کھدائی کررہا تھا۔ اچانک ایک طرف سے نہایت خوبصورت اور سریلی آواز میں قرآن پاک کی تلاوت سنائی دی تو میں نے کام چھوڑ دیا۔ وہ ایک لڑکی کی آواز تھی۔ اتنی سریلی آواز میں قرآں پاک کی تلاوت میں نے اپنی زندگی میں نہیں سنی۔ میں تھوڑی دیر وہاں بیٹھا تلاوت سنتا رہا۔ میں نے کوشش کی کہ دیکھوں یہ آواز کہاں سے آرہی ہے۔ لیکن مجھے کچھ نظر نہیں آرہا تھا۔ سوچا کہ دیکھوں تو سہی کون ہے اور آہستہ آہستہ چلتا ہوا اس طرف گیا، جہاں سے آواز آرہی تھی۔ چاند کی ہلکی ہلکی روشنی تھی اور آس پاس کی عمارتوں سے بھی ہلکی روشنی کی وجہ سے ماحول صاف نظر آرہاتھا، میں نے چند قدم اٹھائے اور پھر رک کر ماحول کا جائزہ لینے لگا۔ ایک دم سناٹا تھا، کوئی بندہ بشر وہاں نہ تھا۔ پھر م یں چلتا ہوا اس جگہ کے اور قریب ہوگیا، جہاں سے تلاوت کی آواز آرہی تھی۔ آواز بند ہوگئی اور خاموشی چھاگئی۔ میں حیرت کے عالم میں کھڑا وہاں قبروں کی طرف دیکھ رہا تھا کہ آواز کہاں سے آرہی تھی۔ پھر واپس آکر اپنا کام دوبارہ شروع کردیا۔ اتنے میں تلاوت پھر شروع ہوگئی۔ میں سوچ رہا تھا کہ یہ لڑکی کون ہے، کہاں ہے، جو اس وقت تلاوت کررہی ہے، اور مجھے نظر نہیں آرہی۔ یہیس وچتے ہوئے میں ایک بار پھر اس طرف چل پڑا۔ وہاں ہر طرف قبریں ہی قبریں تھیں۔ میاں وہاں پہنچا تو تلاوٹ کی آواز دوبارہ بند ہوگئی۔ میرے خیال میں کسی قبر سے ہی تلاوت کی آواز آرہی تھی۔ میں بہت حیران ہوا کہ قبر کے اندر سے قرآن پاک کی تلاوت کی آواز آرہی ہے۔ اللہ کی کیسے کیسے نیک انسان پڑے ہیں، جو اللہ کے کلام کی تلاوت قبر سے بھی کررہے ہیں۔ میں نے وہاں کھڑے ہوکر معافی مانگی کہ مجھے معاف کردینا، میں نے آپ کو تنگ کیا۔ پھر میں نے تقریباً 3 ہفتوں تک ان قبروں کی پہرے داری شروع کردی۔ میں اس قبر کو دیکھنا چاہتا تھا جس سے تلاوت کی آواز آرہی تھی لیکن میں نے دوبارہ وہاں سے ایسی آواز نہیں سنی۔“
روزنامہ امت کے مطابق مذکورہ قبرستان پاکستان بننے سے پہلے بھی قائم تھا۔ یہاں مقامی سندھی اور بلوچ قبائل کے متوفین دفن ہوتے تھے۔ جیسے جیسے شہر ی آبادی بڑھی، یہ قبرتان بھی چند ٹیلوں سے بڑھ کر شہر خموشاں کی شکل اختیار کرتا چلا گیا۔نوشہرہ کے 65 سالہ بابا عبداللہ کا کہنا تھامیں بہت چھوٹا تھا، والد صاحب محنت مزدوری کرتے تھے۔ پھر وہ کراچی چلے آئے اور ہمیں بھی اپنے ساتھ آنا جانا شروع کردیا۔ آج 45 سال سے اوپر ہوگئے ہیں، یہیں گورکن کا کام کررہا ہوں۔
بابا عبداللہ نے بتایا ”میں نے سینکڑوں لوگوں کو اپنے ہاتھوں سے قبروں میں اتارا۔ ان میں بڑے نامی گرامی بدمعاش بھی تھے۔ جن سے لوگ خوف کھاتے تھے۔ بڑے معزز شرفا اور دیندار لوگ بھی تھے۔ لوگ کہتے ہیں کہ قبرستانوں میں جن بھوت ہوتے ہیں۔ میری زندگی کا ایک بڑا حصہ یہاں گزرا ہے، لیکن میں نے اپنی زندگی میں ایسا کچھ نہیں دیکھا۔