عبد اللہ کا بخار ،چلڈرن ہسپتال اور سوشل میڈیا کی بحث،کہانی کہاں سے شروع ہوئی ؟؟؟

عبد اللہ کا بخار ،چلڈرن ہسپتال اور سوشل میڈیا کی بحث،کہانی کہاں سے شروع ہوئی ...
عبد اللہ کا بخار ،چلڈرن ہسپتال اور سوشل میڈیا کی بحث،کہانی کہاں سے شروع ہوئی ؟؟؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

میرا سات سالہ بیٹا عبداللہ تین روز سے بخار میں مبتلا تھا ،اس کی ماں اسے بروفن اور پیناڈول سیرپ پلا تی تو بخار اتر جاتا لیکن تین چار گھنٹے بعد پھر بخار اپنا رنگ جمانا شروع کر دیتا تھا ،دو دن اسی حالت میں گذرے تو تیسرے روز اس بخار کے ساتھ اس کی آنکھوں اور گردن کے پیچھے بھی شدید درد شروع ہو گیا ۔میں آفس میں تھا کہ رات نو سوا نو بجے اہلیہ کی موبائل پر کال آئی اور اس نے بتایا کہ عبداللہ کی طبیعت کچھ زیادہ ہی خراب ہے اور درد ہے کہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا ،اہلیہ کی بات سن کر عبد اللہ سے بات کی تو اس نے جس انداز میں روتے ہوئے مجھ سے بات کی اس نے مجھے ’’اندر ‘‘ تک چیر کر رکھ دیا میں نے بے ساختہ اپنا کمپیوٹر بند کیا اور آفس میں اپنے کولیگز سے کہا کہ میں اپنے بیٹے کو ڈاکٹرکو دکھا کر آتا ہوں ۔موبائل ایپ سے ’’کریم ‘‘ منگوائی اور کیپٹن سے ریکویسٹ کی کہ وہ گاڑی تیز چلائے اور مجھے اڑا کر گلبرگ پہنچا دے ،ڈیفنس فیز تھری میں بھی سگنل فری کوریڈور کی تعمیر نے میرے ارادوں میں ’’روڑے ‘‘ اٹکائے اور ٹریفک کے بہاؤ کی وجہ سے 10منٹ کا راستہ 27منٹ میں طے ہوا ۔گھر پہنچتے ساتھ ہی بیٹے کو گلے لگایا ،اسے پیار کیا اور ایک بار پھر ’’کریم ‘‘ کی خدمات مستعار لی اور عبداللہ کو لے کر اکیلا ہی گھر سے نکل پڑا ۔کیپٹن نے پوچھا !بھائی جانا کہاں ہے ؟تو اسے بتایا کہ آپ چلیں میں ابھی آپ کو بتاتا ہوں کہ کس طرف نکلنا ہے ،اپنے بچوں کے ڈاکٹر سے رابطہ کیا لیکن وہ اپنی ’’دوکان ‘‘ بند کر کے جاچکا تھا سو مجبورا میں نے کیپٹن کو کہا کہ وہ چلڈرن ہسپتال کی راہ لے ۔خوش قسمتی سے راستہ کلیئر ملا اور چند منٹ میں ہی چلڈرن ہسپتال میں پہنچ چکا تھا ۔

چلڈرن ہسپتال کے باہر کا منظر ہمیشہ سے ہی تکلیف دیتا ہے لیکن لواحقین کو شدید گرم اور سرد موسم میں اپنے پیاروں کے لئے مین گیٹ کے ساتھ بنے برآمدے میں دریاں اور ننگے فرش پر بیٹھے اور لیٹا دیکھ کر اذیت تو محسوس ہوتی ہے لیکن یہ سب معمول کا حصہ سمجھ کر برداشت ہو ہی جا تا ہے تاہم ایمرجنسی میں ماؤں کا اپنے جگر گوشوں کو اٹھائے ایک کمرے سے دوسرے کمرے اور پھر دوسرے کمرے سے تیسرے کمرے میں جہاں ٹوٹل چھے یا سات بیڈ لگے ہوئے ہیں وہاں معصوم بچوں کو انجیکشن اور ڈرپ لگوانے کے لئے انتظار کی سولی پر لٹکتے اور ڈاکٹرز اور نرسز کی گھورتی آنکھوں ،کڑوی کسیلی اور جلی بھنی باتوں کو سننے اور دیکھنے کا عمل جتنا تکلیف ناک ہوتا ہے اس کو لفظوں میں بیان کرنا مشکل ہی نہیں نا ممکن ہے ۔ میں بیٹے کو گود میں اٹھائے ایمرجنسی کاؤنٹر پر پہنچا جس نے آئی ڈی کارڈ لے کر سلپ بنا کر میرے ہاتھ میں تھما دی ،میں ڈاکٹر کے کمرے کے باہر بنی انتظار گاہ میں پہنچا جہاں مجھ سے پہلے ہی تیس چالیس مرد و خواتین اپنے ننھے منے بچوں کو گودوں میں اٹھائے ڈاکٹر کا نتظار کر رہے تھے ۔شیشے کے بنے اس کیبن کا دوسرا حصہ جہاں ڈاکٹر کی کرسی ہوتی ہے وہ خالی جبکہ اس سے پہلے ٹیبل پر ایک نرس موجود تھی جو بچوں کی سلپ لے کر رجسٹر میں ان کا اندراج کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے آئی فون پر ’’میوزک‘‘ سے مسلسل ’’روح کی غذا‘‘ بھی حاصل کر رہی تھی ۔ڈاکٹر کے خالی کیبن میں اپنی باری آنے پر میں بھی سلپ ہاتھ میں تھامے اپنے بیٹے کے ساتھ ’’سسٹر‘‘ کے پاس پہنچا جس نے موبائل فون پر بالی ووڈ کا کوئی گانا لگایا ہوا تھا جبکہ ہیڈ فون کی ’’ٹوٹیاں ‘‘ اپنے کانوں میں ٹھونسی ہوئی تھیں ۔سسٹر نے اندراج کے بعد انتہائی خشگمیں نظروں سے مجھے باہر نکل جانے کا اشارہ کیا اور میں جلدی سے باہر نکل آیا کہ کہیں موصوفہ مزید غصے میں نہ آ جائے ۔کافی دیر بھی جب شیشے کا کیبن ڈاکٹر سے خالی ہی رہا تو مجھ سے رہا نہ گیا اور وہاں دروازے پر کھڑے سٹاف کے ایک بزرگ سے ڈاکٹر کے بارے میں پوچھنے کی جسارت کی تو انہوں نے انتہائی درشت لہجے میں کہا کہ ڈاکٹر صاحبہ چائے پینے روم میں گئی ہوئی ہیں ۔اس جواب پر انکشاف ہوا کہ یہاں بچوں کو چیک کرنے کی ڈیوٹی کسی خاتون ڈاکٹر کی ہے۔

خیر کوئی ایک گھنٹہ انتظار کے بعد عبد اللہ جو بڑی حد تک انتظار گاہ میں بیٹھا بیٹھا اکتا چکا تھا ،میں اسے باتوں میں لگا کر اپنے لخت جگر کا دل بہلا رہا تھا کہ انتظار گاہ میں ہلچل سے ہوئی ،سر اٹھا کر دیکھا تو دوسری طرف سے خراما خراما خاتون ڈاکٹر چلی آ رہی تھی جسے دیکھ کر ماؤں کی جان میں جان آئی اور سب نے یکلخت ہی ڈاکٹر روم جانے کی کوشش کی تاہم وہاں کھڑے بزرگ نے باری باری سب کو اندر جانے کی اجازت دی ۔خلاف توقع چند منٹ میں ہی باری آ گئی کیونکہ ڈاکٹر صاحبہ کسی بھی بچے کو تیس سیکنڈ سے زیادہ دیکھنے کی زحمت گواراہ کرنے کی بجائے مریضوں کو دوسرے کمرے میں ریفر کر رہی تھی ،ڈاکٹر نے عبداللہ کو بھی دوسرے کمرے میں ریفر کیا تو میں اسے لے کر مذکورہ جگہ جا پہنچا لیکن اس بڑے کمرے میں تل دھرنے کو بھی جگہ نہیں تھی ۔ چار جونیئر ڈاکٹر  جن میں 2 لڑکے اور 2 لڑکیاں تھیں  ایک ٹیبل کے ارد گرد بیٹھے ہوئے تھے جہاں وہ گپوں کے دوران بچوں کو بھی دیکھ ہی لیتے تھے۔یہاں بھی طویل انتظار کے بعدباری آئی ،اس بار ڈاکٹر خاتون نہیں بلکہ انتہائی خوبرو نوجوان ڈاکٹر تھا ،میں عبد اللہ کو لے کر اس کے پاس کھڑا ہوا ،اسے  کھڑے کھڑے ہی بچے کی علامات بتائیں جو انہوں نے سنی ان سنی کرتے ہوئے اسے دیکھنا بھی گوارا نہ کیا اور سلپ پر کچھ ٹیسٹ لکھ کرایک اور کمرے میں جانے کا حکم صادر کر دیا ۔اب عبد اللہ کی برداشت جواب دے چکی تھی لیکن میں اسے گود میں اٹھائے بتائے ہوئے کمرے میں پہنچا جہاں والدین اپنے بچوں کو ٹیکے اور ڈرپیں لگانے کے لئے بہت بڑی تعداد میں پہلے ہی سے موجود تھے ۔

بھرے ہوئے کمرے میں داخل ہوا تو سیدھے ہاتھ پر ایک ٹیبل کے پیچھے دو نرسیں تشریف فرما تھیں جبکہ ان کے ارد گرد چہرے پر دکھ اور غموں کی پرچھائیاں لئے 15سے 20خواتین موجود تھیں جن کی گودوں میں ان کے انتہائی کم سن بچے تھے جن کی عمریں ایک سال سے بھی کم تھیں ۔اس کمرے میں چھے سے سات بیڈ تھے جبکہ ہر بیڈ پر تین تین بچے تھے جن میں سے کسی کے ہاتھ پر برنولا لگا ہوا تھا ،کسی کے بازو پر اور کسی کے پاؤں میں ،کسی معصوم بچے کو ڈرپ لگی ہوئی تھی اور کسی کو خون کی بوتل ،یہاں کسی کی ماں نے ہاتھ میں بچے کو لگنے والی ڈرپ اٹھائی ہوئی تھی اور کسی کے باپ نے ۔کمرے کا ایسا ماحول تھا کہ عبد اللہ کے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں،ٹیکے کا نام سن کر ہی وہ رونے لگتا ہے جبکہ یہاں تو چھوٹے چھوٹے بچوں کو ڈرپوں کے ساتھ خون کی بوتلیں بھی لگی ہوئی تھیں ۔میں نے عبد اللہ کا دھیان بٹانے کے لئے اسے باتوں میں لگا رکھا تھا تاہم اس کا ایک ہی سوال تھا کہ گھر چلیں نا بابا ؟؟؟وہاں منہ پر جراثیم کش غلاف چڑھا کر بیٹھنے والی ڈاکٹر انتہائی کرخت لہجے میں عورتوں اور مردوں کو ڈانٹ پلا رہی تھی ،جب  آدھا گھنٹہ انتظار کے بعد میں نے ڈرتے ڈرتے اس خاتون ڈاکٹر سے ہاتھ میں پکڑی سلپ لے کر پوچھنے کی جسارت کی تو وہ شیر کی طرح دھاڑی !آدھے گھنٹے سے ہونقوں کی طرح کھڑے ہو ،منہ اٹھا کر آ جاتے ہیں لاؤ دکھاؤ ۔میں نے فورا سلپ اس کے آگے کی ،ڈاکٹر صاحبہ پھر دھاڑی !کیا تکلیف ہے اسے ؟میں نے بتایا جی بخار تھا تین روز سے کلموہا جان ہی نہیں چھوڑ رہا ،اب تو بچے کی گردن بھی اکڑ گئی ہے اور اس میں بھی شدید درد ہے جبکہ آنکھیں بھی دیکھیں کیسی سوج رہی ہیں؟؟ ؟پہلے کمرے  والے ڈاکٹر نے ٹیسٹ کے لئے آپ کے پاس بھیجا ہے ۔وہ پھر دھاڑی !کچھ بھی نہیں ہے ،اتنے سے بخار کے لئے اب اس کے ٹیسٹ ہوں گے کیا ؟؟؟؟میں نے عرض کی ٹیسٹ میں نے نہیں پہلے کمرے والے ڈاکٹر نے لکھے ہیں ، میرا اتنا کہنا ہی تھا کہ موصوفہ کا پارہ چڑھ گیا ،کیا میں ڈاکٹر نہیں ہوں ؟؟؟؟اب میں ہی بتاؤں گی کہ اس کو کیا ٹریٹمنٹ دینی ہے ؟؟؟یہ کہہ کر ڈاکٹر صاحبہ نے سلپ پر کچھ لکھا پھر اپنے لکھے کو کاٹا اور پھر دوبارہ لکھ کر سلپ میرے ہاتھ میں تھما دی اور کاؤنٹر کے عقب میں بیٹھی نرس کے پاس جانے کا کہا ۔وہاں پر پہلے ہی ’’عورت پر عورت ‘‘ چڑھی ہوئی تھی ،اس لئے میں زرا دور ہٹ کر اپنی باری کا انتظار کرنے لگا ،رش تھا کہ بڑھتا ہی جا رہا تھا جبکہ عبد اللہ کی ہمت اب مزید جواب دے چکی تھی ۔

جب عبد اللہ کی رونی صورت دیکھی تو پھر میں بھی نرس کو اپنی طرف متوجہ کرنے اور اس کے ہاتھ میں سلپ تھمانے میں کامیاب ہو گیا ۔اتنے زیادہ مریض بچے اور صرف 2’’معصوم نرسیں‘‘ انہوں نے اکتانا تو تھا ہی، منت سماجت کے بعد اس نرس نے سلپ پر دوائی لکھی اور مجھے وہ دوائی ہسپتال کے اندر ہی بنے سٹور سے مفت لانے کا کہا۔میں عبد اللہ کا ہاتھ تھامے سٹور پر پہنچا ،سلپ دی اور دوائی لے کر واپس نرس کے پاس پہنچا ،رش تھا کہ کم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا ،خیر نرس کو دوائی لانے کی نوید سنائی تو اس نے کہا اس دوائی کو اپنے ہاتھ میں پکڑ کر سائیڈ پر کھڑے ہو جائیں ،ہم باپ بیٹا کیا کرتے’’ حکم حاکم مرگ مفاجات ‘‘ سو اگلے حکم کے انتظار میں ایک سائڈ پر ہو کے کھڑے ہو گئے ۔یہ اصل امتحان تھا ،ہاتھ میں ڈرپ ،انجیکشن اور دیگر دوائیاں پکڑ کر کھڑے جب پونا گھنٹہ گذر گیا تو پھر نرس سے التجا کی ۔اب اسے بھی ہم باپ بیٹے پر رحم آ گیا اور اس نے عبد اللہ کو بلا کر اس کے ہاتھ میں برنولا لگا دیا اور دوبارہ انتظار کا حکم صادر کر دیا ۔مرتے کیا نہ کرتے ؟؟؟مقدر میں انتظار تھا سو بے بسی کے عالم میں کر رہے تھے۔ عبد اللہ نے ہاتھ میں ڈرپ تھامی ہوئی تھی اور مسلسل میری منتیں کر رہا تھا کہ ’’بابا میں تھک چکا ہوں ،اب مجھ سے کھڑا نہیں ہوا جا رہا ‘‘ مسلسل تین گھنٹے انتظار کی سولی پر چڑھنے کے بعد جب میرے بھی صبر کے بندھن ٹوٹے تو میں نے اسے کہا کہ بس پانچ منٹ صبر ،اب چلتے ہیں جیب سے موبائل نکالا ،بے بسی کی تصویر بنے عبد اللہ کی تصویریں بنائیں ،فیس بک پر سٹیٹس لکھا اور شیئر کر دیا ،ساتھ ہی نرس کی ٹیبل پر فائل ،ڈرپ اور دوائیاں غصے سے پھینک کر باہر نکل آیا اس وقت رات کے ایک بجکر 30منٹ ہو چکے تھے ،باہر گیٹ سے رکشہ لیا اور سیدھا کیولری ہسپتال جا پہنچا ،وہاں ایمرجنسی خالی تھی ، ایک نرس اور ایک لیڈی ڈاکٹر بیٹھی تھی ،ہم باپ بیٹا سیدھا ان کے پا س پہنچے ،لیڈی ڈاکٹر ہمیں دیکھ کر فوری اپنے کمرے سے باہر آئی عبد اللہ کو بڑے پیار سے اپنے پاس بٹھایا اور مجھ سے اسکی بیماری کے حوالے سے سوال کئے ،میرے جواب سن کر اس نے عبد اللہ کے ہاتھ پر لگے برنولا کے بارے استفسار کیا تو میں نے مختصرا چلڈرن ہسپتال پیش آنے والی ’’زلت اور رسوائی ‘‘ کا انہیں بتایا جس پر وہ خاموش ہو گئیں ۔رات تین بجے ہسپتال سے گھر پہنچا تو عبد اللہ سو چکا تھا جبکہ تھکاوٹ سے میرا بھی برا حال تھا سو میں بھی سو گیا ۔

اگلے روز جب آفس پہنچا تو حیرت کی انتہا نہ رہی کیونکہ سوشل میڈیا پر ہر طرف گذشتہ رات میری  کی گئی پوسٹ وائرل ہو چکی تھی اور لوگ دھڑا دھڑ اس پر کمنٹ کر کے میرے بیٹے کی شفا یابی کی دعا کے ساتھ حکمرانوں پر لعن طعن کر رہے تھے جبکہ حکمران جماعت کے خیر خواہ میری پوسٹ پر تنقید کے ساتھ ساتھ عمران خان اور تحریک انصاف پر بھی تیر کے نشتر چلا رہے تھے ۔میرا کیونکہ قلم کے ساتھ بڑا دیرینہ رشتہ ہے جبکہ ایک معمولی صحافی ہونے کے ناطے میں کوشش کرتا ہوں کہ میں کسی بھی سیاسی جماعت کا حصہ نہ بنوں اور نہ ہی کسی سیاسی سرگرمی میں حصہ لوں البتہ جو مجھے درست لگے اس کا میں کھل کر اظہار بھی کرتا ہوں اور جو حکومتی کام غلط محسوس ہو تو  اس پر کسی کی پرواہ کئے بغیر  اور اپنے ضمیر کے مطابق تنقید کرنا اپنا فرض سمجھتا ہوں ۔اس پوسٹ پر بعض کمنٹس پر مجھے افسوس بھی ہوا اور خوشی بھی ۔افسوس اس بات کا کہ میری اس پوسٹ کا قطعی کوئی سیاسی مقصد نہیں تھا اور نہ ہی میں نے کبھی کسی سیاسی پارٹی سے کوئی فائدہ حاصل کرنے کی منصوبہ بندی کی ہوئی ہے (اگر میں ایسا کروں تو اس سے قبل ہی اللہ میرے ہاتھ سے قلم ہی چھین لے آمین )لیکن یہ کہاں کا انصاف ہے کہ معاشرے کے حقیقی مسائل پر آواز اٹھانا یا نشاندہی کرنے پر الزام تراشی کی جائے کہ یہ بندہ تحریک انصاف کا ورکر ہے ؟؟؟؟میں یہ مانتا ہوں کہ جب تک ہم من حیث القوم صرف اور صرف اللہ سے جواب دہی کا خوف اپنے اندر پیدا نہیں کریں گے معاشرے سے کسی صورت کرپشن اور بد عنوانی کا خاتمہ ممکن نہیں ہو گا ،مجھے تحریک انصاف سے کئی طرح کے اختلافات ہیں اور میں عمران خان کی غلطیوں پر بھی کھل کر نجی مجلسوں اور اپنی تحریروں میں اظہار کرتا ہوں لیکن اللہ کا احسان ہے کہ میں نے کبھی بھی اختلافی امور میں بھی شائستگی کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا ۔اسی طرح میں میاں نواز شریف اور شہباز شریف کی گورنس کا بھی سخت ترین ناقد ہوں لیکن یہاں بھی میرا ضمیر مجھے گالی اور مغلضات بکنے کی اجازت نہیں دیتا ۔

میں ایمانداری سے سمجھتا ہوں کہ لاہور ہو یا پشاور ،کراچی ہو یا کوئٹہ ؟؟؟ہسپتالوں میں جانے والے مریض اور ان کے لواحقین ڈاکٹرز کو مسیحا سمجھ کر ہی ان سے اپنی تکلیف کا مداوا کرنے کی آس لے کر دور دراز سے ان شفا خانوں کا رخ کرتے ہیں ،یہ شفا خانے سرکاری ہوں یا پرائیویٹ ؟کوئی بھی شخص محض شوقیہ یہاں نہیں آتا ۔اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہمارے ملک خداد میں ہسپتالوں کی حالت زار انتہائی دگرگوں ہے ،اس کے ذمہ دار حکمران تو ہیں ہی لیکن ڈاکٹرز کو بھی بری الذمہ قرار نہیں دیا جا سکتا ۔سب سے پہلے تو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جب تک من حیث القوم ہم میں احساس ذمہ داری، اللہ کا خوف اور آخرت میں جوابدہی کا جذبہ پیدا نہیں ہوتا ہم اپنے ملک کے ہر چھوٹے بڑے شہر میں میٹرو اور اورنج ٹرینیں بنا لیں ،کئی کئی رویا  پختہ سڑکوں کا جال بچھا لیں ،ہر شہر میں جدید ہسپتال قائم کر لیں اور ہر شہر سے موٹر وے گذار لیں پھر بھی ہمارے ملک کے غریبوں کے دن نہیں پھر سکتے ۔حکمرانوں کی ذمہ داری اس لئے زیادہ ہوتی ہے کہ وہ خود کو عوام کا خادم کہلاتے ہیں ،سرکاری ہسپتال ہو یا پرائیویٹ کلینک ؟؟؟ڈاکٹرز اور نرسز اگر اپنے پاس آنے والے مریضوں سے کرختگی کی بجائے نرم رویے  سے بات کر لیں اور ان کی ڈھارس باندھنا شروع کر دیں تو مریض بھی کسی دوائی کے بغیر آدھا ٹھیک ہو جاتا ہے جبکہ لواحقین بھی اچھے طریقے سے پیش آنے والے ڈاکٹرز کو جھولیاں اٹھا اٹھا کر دعائیں دیتے نہیں تھکتے ۔دنیا میں کوئی بڑے سے بڑا ڈاکٹر بھی زندگی اور موت کا مالک نہیں لیکن کسی مریض کے ساتھ پیار کے دو بول بولنے سے اگر اس کی ڈھارس بندھتی ہو تو اس میں مشکل ہی کیا ہے ؟؟؟

لیکن بد قسمتی سے انسان کے اندر یہ تبدیلی تعلیم سے نہیں تربیت سے آتی ہے اور بد قسمتی کی بات ہے کہ بحثیت قوم ہماری تربیت ہوئی ہی نہیں اور قوم کی تربیت کرنا کسی بھی حکمران نے اپنی ذمہ داری نہیں سمجھا ،مسلم لیگ نون ہو یا تحریک انصاف ،پیپلز پارٹی ہو یا کوئی دینی جماعت ؟؟؟کسی بھی جماعت کا ایجنڈا قوم کی تربیت نہیں رہا اور اس سے بھی بڑی بد قسمتی یہ ہے کہ اس بارے کبھی کسی نے سوچا ہی نہیں ،مال و زر اکٹھا کرنے کی ہوس اور دوسرے کو نیچا دکھانے کی اجتماعی سوچ نے اس قوم کا بیڑہ غرق کر دیا ہوا ہے ۔جب ہم اپنے گھر کا گند گلی میں پھینکنے پر بھی شرمندگی محسوس نہ کرتے ہوں ؟محلے کی مساجد کے مینار بھی جب ارد گرد رہنے والے بیماروں کا احساس کرنے سے عاری ہوں ؟ دوسرں کو دھوکہ اور فریب دے کر جب ہم اپنی تجوریاں اور بچوں کا پیٹ بھرنے پر فخر کرتے ہوں ؟جب مالی اور اخلاقی طور پرکرپٹ اور بد دیانت لوگ معاشرے کے باعزت شہری کہلاتے ہوں ؟جب سکہ بند چوروں اور ڈاکوؤں کو ہم سر آنکھوں پر بٹھانے کی دلیلیں پیش کریں ؟؟جب قومی دولت کو شیرِ مادر سمجھ کر ہڑپ کرنے والوں کو ہم اپنا قائد اور سیاسی رہبر بنا کر خوشی سے جھومتے پھریں ،جب معاشرے میں عزت صرف پیسے کی ہو، جب ملک میں انصاف ناپید ہو جائے اور قانون کا دوہرا معیار رائج ہو تو پھر حکمران چاہے ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہا دیں ،بجلی مفت کر دیں ،اشیائے ضروریہ مفت ملنی شروع ہو جائیں،لاہور ،کراچی ،پشاور اور کوئٹہ سمیت پاکستان کا ہر چھوٹا بڑا شہر پیرس بن جائے اور سڑکوں کا جال بچھا دیا جائے تب بھی ایسے ملک زیادہ دیر قائم نہیں رہتے اور اگر قائم بھی رہیں تو پھر پھر ایسے ملکوں میں وہی ہوتا ہے جو آج ہمارے ملک کے ساتھ  ہو رہا ہے ،ان حالات میں قائم رہنے والے ملکوں میں  کبھی استحکام آتے نہیں دیکھا گیا ۔ 

نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں,ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

بلاگر معروف صحافی اور قومی اخبار میں بطور نیوز ایڈیٹروابستہ ہیں ،آپ ان سے ’’ksfarooqi@gmail.com‘‘ پر رابطہ کر سکتے ہیں۔

مزید :

بلاگ -