یہ دور جدید کے کرکٹ کوچ؟
گورا چٹا رنگ، کلین شیو، کمر سیدھی اور ہر وقت چست نظر آنے والے جوان گراؤنڈ میں متحرک نظر آتے۔ نیٹ سے باہر کھڑے فیلڈ بھی کرتے اور کھیلنے والوں پر نگاہ بھی رکھتے تھے۔ بارہا ایسا ہوتا کہ یہ اچانک آگے بڑھتے نیٹ میں موجود بلے باز کے پاس جاتے اس کا بیٹ پکڑتے اور پھر خود اپنے پاؤں جماتے، بیٹ کو سیدھ میں رکھتے اور شارٹ کھیلنے کا پوز بنا کر دکھاتے۔
بلے باز کو سمجھا کر پھر واپس آ جاتے باؤلنگ کرنے والے نوجوانوں کو بھی خاص انداز سے بال کرنے کی ہدایت کرتے اور پھر یہ دیکھتے کہ جس نوجوان کو سمجھا کر آئے ہیں اس نے عمل بھی کیا ہے یا نہیں؟ ضرورت ہوتی تو ڈانٹ بھی دیتے تاہم اس ڈانٹ میں پیار جھلکتا محسوس ہوتا تھا، یہ تھے پاکستان کرکٹ ٹیم کے پہلے کپتان عبدالحفیظ کاردار جن کو ہم ہمیشہ سکیپر کہہ کر پکارتے تھے اور گراؤنڈ منٹو پارک آج کی اقبال پارک تھی۔
وہاں کریسنٹ کرکٹ کلب، ممدوٹ کرکٹ کلب اور غالباً فرینڈز کرکٹ کلب کے نیٹ لگا کرتے تھے اور سینئر کھلاڑی اپنے سے جونیئر حضرات کی رہنمائی کرتے تھے۔ ہم نے عبدالحفیظ کاردار کا ذکر کیا تو آکسفورڈ (لندن) کے تعلیم یافتہ تھے اور وہاں سے کرکٹ کھیلتے برصغیر کی متحدہ ٹیم میں بھی شامل رہے۔
اس دور کو یاد کیا ہے تو وجہ کوچنگ ہے۔ تب پیشہ ورکوچ کا کوئی تصور نہیں تھا اور سینئر حضرات یا کپتان ہی یہ فرائض بھی انجام دیتے تھے۔
ان کی طرف سے غلطیوں کی نشاندہی، ٹوکنے اور سمجھانے کا انداز کچھ یوں ہوتا۔ جیسے کوئی والد اپنے لاڈلے بیٹے اور کوئی بڑا بھائی پیارے بھائی کو سمجھا رہا ہو، یوں بہترین ماحول ہوتا تھا، یہ نہیں کہ تب پسند نا پسند یا نظم و ضبط کا مسئلہ نہیں تھا لیکن ماحول برادرانہ ہوتا اور یہی انداز سمجھانے والا بھی ہوتا تھا، اس دور میں بھی تنازعات تو ہوئے اور ہوتے رہے لیکن مجموعی طور پر کھلاڑیوں سمیت سب کی عزت نفس محفوظ رہتی تھی اور غصہ کے عالم میں بھی کسی کو رد نہیں کیا جاتا تھا۔آج صورت حال مختلف ہے۔ کرکٹ بھی دور جدید کی دوسری دریافتوں کی طرح ترقی کی منازل طے کر چکی۔
اب یہاں چیف کوچ، اور باؤلنگ، فیلڈنگ کے لئے الگ الگ کوچ ہوتے ہیں ان کے علاوہ افسران اور کارکنوں (تنخواہ دار) کی بھی بھاری نفری موجود پائی جاتی ہے، یہ سب اپنی روٹی، روزگار کی فکر میں مبتلا ہوتے ہیں، یہ حضرات اب سیاہ و سفید کے مالک ہیں اور اپنی ترجیحات کے مطابق کھلاڑیوں کا چناؤکراتے ہیں۔
اگر اس سلسلے میں پاکستان کرکٹ ٹیم کے موجودہ چیف کوچ مکی آرتھر اور سابق چیف کوچ وقار یونس کا ذکر نہ کیا جائے تو بات مکمل نہیں ہوگی، پاکستان کرکٹ ٹیم کے چیف کوچ جنوبی افریقین مکی آرتھر ہیں یہ پی ایس ایل میں کراچی کنگز کے بھی کوچ تھے۔ ان مکی آرتھر کے رویے کے حوالے سے میڈیا کے سامنے جو کچھ آیا وہ یہی ہے کہ مکی آرتھر بہت سخت گیر ہیں اورمخصوص گالیاں بھی دیتے ہیں، یہ کھلاڑی کی غلطی پر برہم تو ہوتے ہی ہیں تاہم اس کا اظہار گالی سے کریں یہ کچھ ’’تہذیبی‘‘ معاملہ محسوس ہوتا ہے۔
یوں بھی یہ کھلاڑی کے پاس جا کر اسے پیار سے سمجھانے کا تکلف نہیں کرتے اور دور ہی سے بُرا بھلا کہنا شروع کر دیتے ہیں، بیٹسمین کے لئے گرانٹ فلاور اور باؤلروں کے لئے اظہر محمود جو ہیں یہ تو ان کی ذمہ داری ہے۔ مکی آرتھر تو نگرانی کریں گے۔ورزش اور فٹ بال کھیلتے دیکھیں گے اور پھر پسند نا پسند کی بنا پر کھلاڑیوں کو ان اور آؤٹ کرتے رہیں گے۔
ہم اگر ماضی اور حال کا موازنہ کریں تو جاوید میاں داد، وسیم اکرم، محمد حنیف، وسیم راجہ، رمیض راجہ اور ظہیر عباس سے لے کر فضل محمود، محمود حسین، امتیاز احمد، مقصود احمد، انتخاب عالم، ماجدخان اور کپتان عمران خان جیسے کھلاڑی پیدا ہوئے اور ملک کا نام بھی روشن کیا۔
آج صورت حال بالکل مختلف ہے پاکستان ٹیم کو قابل اعتماد بیٹسمین ہی دستیاب نہیں ہیں اور آج یہ بھی ہو رہا ہے، کوئی کھلاڑی نظر میں آیا اس کی تعریفوں کے پل باندھ دیئے گئے اور پھر اپنی پسند کے مطابق کھلاڑی چن لیا جاتا ہے اور جب یہی معزز کھلاڑی آگے چل کر کچھ نہیں کرتا تو پھر اس پر ملبہ ڈال کر کسی دوسرے کا کیرئیر تباہ کرنے کا عمل شروع کر دیا جاتا ہے۔
دوسرے کئی کھلاڑیوں کے ساتھ یہ سب ہو چکا تازہ ترین تو یہ چل رہی ہے کہ مکی آرتھر قومی کھلاڑی عمر اکمل کی شکل بھی دیکھنا پسند نہیں کرتے اور اسی بناء پر شائد اس کے بھائی کامران اکمل کی شاندار پرفارمنس بھی ان کو مطمئن نہیں کر پائی۔ جہاں تک عمر اکمل کا سوال ہے تو اس کے خلاف نظم و ضبط کی خلاف ورزیوں کا الزام بھی ہے۔
لیکن جو سلوک اب اس کے ساتھ کیا جا رہا ہے، اس کے مطابق تو عمر اکمل راندہ درگاہ ہو چکا اب ان کا ہدف کامران اکمل ہیں جو ڈومیسٹک کرکٹ میں شاندار کارکردگی سے سب کو متاثر کر چکے لیکن اگر کسی پر کوئی اثر نہیں ہوا تو وہ مکی آرتھر ہیں، جنہوں نے اس کھلاڑی کو اتنا مایوس کیا کہ وہ پی ایس ایل فائنل میں ٹھیک طرح سے کھیل ہی نہیں سکا، اگرچہ اس کے باوجود وہ ٹورنامنٹ کے بہترین بیٹسمین کا ایوارڈ لے ڈوبا اور اگر مخالفانہ ریمارکس نہ دیئے جاتے تو فائنل میں بھی اچھا کھیل ہی جاتا، اب اگر بات کریں عمر اکمل کی تو وہ ایک بڑا کھلاڑی ہے جو میچ جتوانے کی اہلیت رکھتا ہے لیکن وقار یونس کے بعد اب مکی آرتھر کے نشانے پر ہونے کے باعث کھیل ہی نہیں پا رہا حالانکہ وسیم اکرم نے اس کو سمجھایا کہ وہ اپنے کھیل سے ان اعتراض کرنے والوں کو جواب دے اور زبان کھولنا بند کردے، لیکن شاید اس پر ابھی پوری طرح اثر ننہیں ہوا۔
اب ویسٹ انڈیز کے خلاف پندرہ رکنی ٹیم کا اعلان ہو چکا اور اس میں اکمل برادران کے ساتھ محمد حفیظ بھی شامل نہیں ہے یوں آئندہ ورلڈکپ کے لئے نوجوان کھلاڑیوں پر بھروسہ کیا گیا ہے اور تجربہ پیش نظر نہیں رکھا گیا۔ اس سے کیا نتائج برآمد ہوں گے اللہ ہی جانتا ہے، تاہم مکی آرتھر اینڈ کمپنی کو ٹیم سے کیا غرض؟معاہدہ پورا ہوا تو وہ واپس چلا جائے گا، بہتر ہوگا کہ اس سلسلے میں ابھی سے سوچ لیا جائے۔ کوچ تو برادرانہ شفقت کا حامل ہونا چاہیے۔