شوقِ تشہیر
بے شک یہ ایک بدلا ہوا اور مختلف شہر تھا،بیتے چند ہفتوں میں اس نے پورے ملک کی سیاسی حرکیات کو ایک نئی پہچان اور جہت سے ہم کنار کیا،یوں پورے سیاسی منظر نامے کا نقشہ ہی بدل گیا ۔
زیارت سے واپسی پر جہاں ہم جناب عبدالکریم ثاقب کے لگائے پودے الہجرہ سکول اور کالج کی چودہ سالہ تقریبات میں شرکت کے بعد واپس آئے تھے ،اسی کوئٹہ کے بازاروں میں گھومتے ہوے میں سوچ رہا تھا کہ صوبائی اسمبلی میں ہونے والی بغاوت کی بنیاد، ایک وزیر اعلیٰ کے انتخاب میں کیوں نہیں ڈھونڈی جا سکتی ،ڈاکٹر مالک کی حکومت کے پورے عرصے میں ایسی کسی سرگرمی کا سراغ بھی نہیں ملتا اس سے زیادہ افسوس ناک صورت یہ رہی کہ سیاسی طور پر وفاق میں حکومت کرنے والی پارٹی کا ردعمل اور حکمت عملی نام کی کسی چیز کا وجود ہی نظر نہیں آیا،بغاوت کے بعد بھی کوئی تنبیہ ،کوئی انضباطی کارروائی نہ کرنا کونسی حکمت عملی تھی ،باغی اراکین کو ڈی سیٹ کرنے کی نہ تو کوئی کارروائی ہی کی گئی اور نہ ہی اس بارے میں کچھ سوچا ہی گیا یوں باغی اراکین نے اب ایک نئی سیاسی پارٹی کو جنم دے ڈالا ہے ،یہ ان کی ہے یا ’’ان ‘‘ کی، اب کیا فرق پڑتا ہے ،اب روز پریس ریلیزیں جاری ہوا کریں گی ۔
حقیقت یہ ہے کہ سیاسی فیصلوں میں میاں نواز شریف کی اس تیسری حکومت پر مجموعی طور پر ’’ سلو ‘‘ہونے کا الزام بار بارلگتا رہا ہے اور ان شیروں نے بھی ہر بار ہر سیاسی اور انتظامی معاملے میں کمال بے نیازی ، بلکہ پسپائی دکھائی اور اب تک دکھاتے چلے آرہے ہیں ،اللہ جانے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سے وزیر اعظم کے اعلی سطحی رابطے کا خیال کیسے آگیا ۔
کچھ دنوں سے ایک لفظ بار ہاسماعتوں سے ٹکرانے لگا ہے ،اخبارات میں دکھائی دینے لگا ہے ،یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے سوچئے تو اس پر حکومت کا فوری ردعمل بنتا ہے۔
اگلے قدم کی چاپ میں کوئٹہ کے درو دیوار پر دیکھ کر چونکا ہوں ،ایسا ابھی تک کسی شہر میں نہیں ہوا اور اگر یہ رسم چل پڑی تو ایک نیا لفظ ہماری صحافتی زندگی میں داخل ہونے سے کوئی نہیں روک سکے گا اور اس کا فوج کو بحثیت ادارہ نقصان بھی بھگتنا ہوگا ،فوج ایک قومی اثاثہ ہے، اس کی ایک چین آف کمانڈ طے ہے ،اس کا ایک ہی چیف ہوتا ہے، یہاں تک کہ چیف کا باس یعنی چیئرمین جائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی بھی فوج کی کمانڈ اور راہنمائی نہیں کر سکتا نہ ہی اس کی اس طرح کوئی پروجیکشن کی جاتی رہی ہے ،عسکری قیادت کوئی لفظ ہے ہی نہیں ،فوج کا کمانڈر ہوتا ہے اور باقی سبھی اس کے ماتحت اور جواب دہ، اس سے آرڈرز لیتے ہیں اور فالو کرتے ہیں ،ان میں سے کوئی الگ سے لیڈر اور ہیرو نہیں ہوتا اور نہ ہی بنایا جاتا ہے ،یقین نہ آئے تو جنرل ضیا کا عہد دیکھ لیں جنرل چشتی نے یہ کوشش کی اور تاریخ کا رزق بن گئے ، جنرل فضل حق نے اپنی اوقات سے زیادہ حق مانگا اور بے نشان ٹھہرے ،جنرل راحیل کی مدت ملازمت ہو یا جنرل کیانی کی ،کوئی دوسرا جرنیل نمایاں نہیں ہوا ،آپ کو شاید یاد ہو ایک بار کوئٹہ کے کور کمانڈر جنرل طارق نے صرف وزیر اعظم سے ایک ملاقات کی تھی ،اسی شام سے پہلے وہ اپنی کمان اور جاب دونوں سے محروم ہو چکے تھے ،یہ نزاکت اور حساسیت فوج کے کام اور مزاج کے مطابق بھی ہے ،اسی لئے ہمیشہ فوج کے سربراہ کی بات کی جاتی ہے، اسی کی بات اور رائے چلتی ہے ،آئی ایس آئی کے سربراہ اور اور آئی ایس پی آر کے جرنیلوں کی ذاتی کوریج نہیں روکی گئی تو اس کا اگلا نتیجہ وہ نکلا جو میں کوئٹہ کی در ودیوار پر دیکھ کر چونکا ہوں،یہ بظاہر ہر کھمبے پر ایک اقلیتی راہنما کی طرف سے لٹکے اور لٹکائے گئے فلیکس تھے جس پر جنرل باجوہ کی تصویر کے سائز کی کور کمانڈر باجوہ کی تصویر بھی مقابلے پر تھی چونکہ وہ آئی ایس پی آر کے سربراہ رہ چکے ہیں اور شہرت اور تشہیر کا مزہ چکھ چکے ہیں تو آزاد کمانڈ کے دوران تو یہ سہولت اور آسان ہو جاتی ہے ،اسے کسی خوشامدی آدمی کا کام کہہ کر نظر انداز بھی کر دیا جائے تو شہر کے مرکزی چوک میں جو فوجی علاقہ ہی ہے سرکاری طور پر لگائے گئے ڈیزائین اور تصاویر بھی اس سے مختلف کہانی نہیں سنا رہی تھیں ،یہ ہماری قومی فوج ہے اس کی قیادت منتخب نہیں ہوتی مقرر کی جاتی ہے اور فوج میں اس کی خدمت کا وقت اور عرصہ بھی متعین اور مقرر ہوتا ہے جسے نہ تو وہ اور نہ ہی اس کے کمانڈرز مل کر بڑھا سکتے ہیں اس لئے عسکری قیادت کے لفظ کو استعمال کئے جانے پر مجھے گہری تشویش ہے یہ کوئی اجتماعی قیادت نہیں ہے ،اہل نظر اس کی نزاکتوں اور حساسیت کو بآسانی جان سکتے ہیں،کل کلاں ہر کور کمانڈر کو یہی شوق چرایا تو کوئی روکنے والانہیں ہوگا ،اس لئے فوج کا یہ اصول بہت عمدہ اور بنیادی نوعیت کا ہے کہ قیادت صرف سیاسی ہوگی اور اسی کی راہنمائی میں فوج اپنے کمانڈر کے ماتحت کام کرے گی ۔
اپنی تشہیر کس کو بری لگتی ہے مگر اس بے ضرر نظر آنے والے شوق کی بڑی قیمت بھی چکانی پڑتی ہے ۔پانچ ججوں کے جملوں اور ان کی روزانہ کی بنیاد پر پذیرائی سے شروع ہونے والی کوریج نے آج یہ صورت کر دی ہے کہ چیف جسٹس صاحب کے ہر ہر جملے کو محفوظ کیا جانے لگا ہے ،ان کے چلتے رکتے قافلے کی کوریج کا پہلے سے انتظام کیا جانے لگا ہے ،ہیلی کاپٹر کے استعمال پر سوشل میڈیا پوسٹوں سے بھرا ہوا ہے ،پشاور اور کوئٹہ کی بار کونسلوں کی طرف سے احتجاج شروع ہے کہ ایک جسٹس دوست محمد کو الوداعی ریفرینس نہیں دیا گیا اور دوسرے [جسٹس فائز عیسی ٰ]کے دس سال گزرنے کے بعد کسی بات سے ناراض ہو کر ان کی ہائی کورٹ کی ملازمت کے خلاف کیس سننے کے لئے کھول لیا گیا ہے۔
یہی روایت رہی ہے کہ کبھی سپریم کورٹ کی طرف سے کوئی بات ہوتی تو رجسٹرار کی طرف سے وضاحت آجاتی اب عالم یہ ہے کہ سپریم کورٹ یعنی چیف صاحب کی کوریج کے لئے الگ سے ترجمان مقرر کر لیا گیا ہے جو وضاحتیں کرتا ہے کہ وزیر اعظم کی درخواست پر ملاقات ہوئی ،پریس ریلیز میں دو بار درخواست کا ذکر اتفاق سے نہیں آتا ، برتر اور منتخب سیاسی ادارے کی قیادت کے سامنے سرکاری نوکری کرنے والے اپنے باس کی عظمت منوانے کی اس طرح کی شعوری کوشش کیا رنگ لائے گی۔ کیا آنے والے کل ہم عدالتی لیڈر شپ کا لفظ بھی سن پائیں گے جہاں صوبائی چیف وفاقی چیف کے ساتھ مل کر پالیسیاں طے کریں گے۔
حد یہ ہے کہ نیب کے سربراہ جنہیں اپنی فائلوں اور مقدموں سے فرصت نہیں ہونی چاہئے روزانہ کی بنیاد پر پریس ریلیز اور تصاویر شائع کرا رہے ہیں یہ پروٹوکول میں کیا وزارت عظمیٰ کے منصب سے آگے نکل گیا ہے ،موصوف اپنی تعریف میں خود بھی باقاعدگی سے فرمودات جاری فرماتے ہیں، اگر یہ سب جائز قرار دینا ہے تو پھر باقی سرکاری اداروں کے بیچارے سربراہوں کو کیوں احساس محرومی کا شکار کیا جائے! ان کو بھی شوق تشہیر پورا کرنے دیں، بلکہ ٹاک شوز میں بھی آنے دیں کچھ دن تو رش لے ہی لیں گے ،اینکر بیچارے بھی تاریخ میں مقبولیت کی نچلی سطحوں پر جا کر دوسرے ہم عصر اینکرز کو اب تجزیہ نگاروں کے طور پر بلانے اور سنانے لگے ہیں۔