این آر او سے کوئی تعلق نہیں : پاک فوج ، باجوہ ڈاکٹرائن کا تعلق ملک میں قیام امن سے ہے 18ویں ترمیم یا عدلیہ سے نہیں ، بھارت امن کی خواہش کو کمزور ی نہ سمجھے : میجر جنرل آصف غفور

این آر او سے کوئی تعلق نہیں : پاک فوج ، باجوہ ڈاکٹرائن کا تعلق ملک میں قیام ...

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


اسلام آباد(سٹاف رپورٹر)پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل آصف غفور نے کہا ہے کہ باجوہ ڈاکٹرائن کا 18 ویں ترمیم اور این آر او سے کوئی تعلق نہیں اسکا مطلب صرف ملک میں امن کا قیام ہے، جنرل باجوہ سے اینکرز کی ملاقات آف دی ریکارڈ تھی جس میں کچھ لوگ موجود نہیں تھے، پھر بھی اس پر آرٹیکلز لکھے،، ملک چلانے کیلئے آپس میں رابطے ہوتے ہیں، شہباز شریف ایک صوبے کے وزیرِ اعلی ہیں ، آرمی چیف سے شہباز شریف کی کوئی ملاقات نہیں ہوئی، تمام ادارے اپنا اپنا کام کر رہے ہیں،میٹنگ پر اعتراض نہیں لیکن بغیر کسی ثبوت کے چھپ کر ملاقات اور این آر او کا تاثر دیا گیا جس کی وضاحت ضروری تھی، پاک فوج کا کسی بھی این آر او سے کوئی تعلق نہیں ہے،ملک میں ترقی تب ہی ہو گی جب تمام ادارے اپنی حدود میں رہتے ہوئے کام کریں گے،غیر مستحکم پاکستان بھارت کے مفاد میں نہیں دہشتگردوں کے خلاف کارروائی میں پاکستان کا کردار نہ ہوتا تو خطرہ بھارت تک پہنچ چکا ہوتا، بھارت کو بھی ہمارا شکریہ اداکرنا چاہیے، بھارت میں ہمارے سفارتکاروں کے ساتھ غیر مناسب سلوک روا رکھا گیا، ہم ایک ذمہ دار ملک ہیں لیکن ہماری امن کی خواہش کو بھارت کمزوری نہ سمجھے، بھارت نے کوئی مہم جوئی کی توسخت جواب ملے گا،کنٹرول لائن پر اشتعال انگیزی سے منفی اثرات مرتب ہونگے، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ٹوئٹ سے باہمی تعلقات پر فرق پڑا، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے تعاون سے ہی امریکا سپر پاور بنا ہے، سب سے پہلا چیلنج پاکستان کیلئے سی پیک ہے جسے کامیاب بنانا ہے ، منصوبے سے پورا خطہ مستفید ہوگا ،آرمی چیف کے دورہ ایران سے سرحدی صورتحال بہتر ہوئی ، 8 ماہ سے پاک فوج نے اپنی توجہ بلوچستان پر مرکوز رکھی ہوئی ہے ،سعودی عرب بھیجی جانے والی پاکستانی فوج یمن جنگ کا حصہ نہیں ہوگی، کراچی میں آج کوئی شٹرڈان ہڑتال نہیں ہوتی اور کوئی نو گو ایریا نہیں، کراچی میں ابھی بہت کام کرنے کی ضرورت ہے، ہمیں اپنی تمام انٹیلی جنس ایجنسیز پر فخر ہے، آئی ایس آئی، ایم آئی اور آئی بی سمیت باقی اداروں کی محنت نہ ہوتی توآج پاکستان میں امن نہ ہوتا، پاکستان کی انٹیلی جنس ایجنسیاں اور افواج دشمن کے ناپاک عزائم کو کامیاب نہیں ہونے دے رہیں۔گزشتہ روز پریس بریفنگ دیتے ہوئے میجر جنرل آصف غفور نے کہاکہ سیکیورٹی کے حوالے سے 23مارچ اور پی ایس ایل کا ایونٹ بہترین رہا، کراچی کے عوام نے فائنل کیلئے بہت تعاون کیا اور بھرپور شرکت کی، دنیا جیو پالیٹیکس سے جیواکنامی کی طرف مڑ رہی ہے، پاکستان نے آج اپنا مثبت کردار ادا نہ کیا ہوتا تو شائد آج امریکہ بھی یونی سپر پاور نہ ہوتا، پاکستان کے کردارکی وجہ سے بہت سے سینٹرل ایشیائی ریاستیں بھی آج آزادی کی سانس نہ لے رہی ہوتیں۔ انہوں نے کہا کہ صدر ٹرمپ کے ٹویٹ سے دوطرفہ تعلقات پر فرق ضرور پڑا ہے، خطے میں پاکستان کے کردار کو مثبت نظر سے دیکھنا ہو گا، پاکستان القاعدہ کے خلاف کارروائیوں میں امریکہ کا ساتھ نہ دیتا تو شائد آج یہ دہشت گرد تنظیم انڈیامیں بھی پھیل چکی ہوتی، پاکستان کی خطے کیلئے خدمات کو سراہے جانے کی ضرورت ہے۔ میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ غیر مستحکم پاکستان انڈیا کیلئے بھی فائدہ مند نہیں ہے اور خطے کیلئے بھی مفید نہیں ہے، ہم نے اپنی طرف سے ہر وہ کوشش کی ہے کہ ہمارے تعاون سے خطے میں امن کی راہ ہموار ہو، ہم چائنہ کے ساتھ مل کر سی پیک کے پراجیکٹ پر کام کر رہے ہیں، اس منصوبے کی کامیابی سے پاکستان، چائنہ سمیت پورے خطے کو اس کا فائدہ ہو گا، اگر انڈیا اس کو ناکام کرنے کی کوشش کرے گا تو اس سے شائد باقی ممالک فائدہ نہ اٹھا سکیں مگر ہم تو پھر بھی اس منصوبے کو مکمل کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ خطے کیلئے ہماری خدمات کوشک کی نظر سے دیکھا جائے گاتو یہ بھی ہمارے لئے حوصلہ افزاء4 بات نہیں ہو گی، ہماری خواہش ہے کہ خطے کے ممالک اور دوسرے پاور پلیئرز پاکستان کو ساتھ ملا کر چلیں تا کہ ہم نے جو قربانیاں دے کر خطے میں امن قائم کیا ہے اس کا فائدہ پاکستان سمیت پورے خطے کو ہو۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ہم نے امن کیلئے جانی و مالی بے انتہا قربانیاں دی ہیں، اس وقت بھی پاکستان کی معیشت پر بڑا بوجھ ہے، ہمیں معیشت کو بہتر کرنے کیلئے اکنامک سرگرمیوں کی ضرورت ہے، آرمی چیف نے اس تناظر میں بہت سے غیر ممالک کے دورے بھی کئے تا کہ باقی ممالک کے ساتھ سیکیورٹی تعاون بڑھایا جائے، آرمی چیف سری لنکا، کابل، جرمنی، برونائی، ملائیشیا گئے اور اس کے علاوہ ایران اور جاپان کے وزرائے خارجہ کے ساتھ ملاقات کی، انہوں نے جرمنی، ترکی، ایران، آسٹریلیا، چائنہ اور افغانستان کے سفیروں سے بھی ملاقاتیں کیں۔ انہوں نے کہا کہ لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے 2018کا آغاز بھی 2017سے مختلف نہیں ہے، 2017میں پچھلے تمام سالوں سے زیادہ سیز فائر کی خلاف ورزیاں کی گئی تھیں اور 2018میں ابھی 948بار خلاف ورزی کی جا چکی ہے، جس کے نتیجے میں شہادتیں بھی ہوئیں اور لوگ زخمی بھی ہوئے، ایک بچی کی ٹانگ کاٹنی پڑی، بھارت کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اس قسم کی خلاف ورزیوں سے امن کی صورتحال کے خراب ہونے کا اندیشہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ آرمی چیف کے دورہ ایران سے بارڈر کی صورتحال بہتر ہوئی ہے، اس دورے کے بلوچستان کی ترقی کے حوالے سے مثبت اثرات سامنے آرہے ہیں، سعودی عرب کا بھی آرمی چیف نے دورہ کیا اور ان کے ساتھ بات چیت بھی ہوئی، پاکستان اور سعودی عرب کا 1982سے دوطرفہ سیکیورٹی معاہدہ ہے جس کے تحت پاکستان کی فورسز سعودی عرب میں انہیں تربیت دینے اور ایڈوائس کیلئے جاتی رہی ہیں، ہمارے دستے وہاں موجود رہے ہیں، اس معاہدے کے تحت مزید فورسز بھیجی جائیں گی، اس فورسز کا آئی ایم سی ٹی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔آصف غفور نے کہا کہ ہمارا یہ تعاون باقی تمام خلیجی ممالک کے ساتھ بھی ہے، گزشتہ چھ ماہ سے ہماری توجہ بلوچستان کے امن پر مرکوز ہے، بلوچستان میں جہاں جہاں پراجیکٹ چل رہے ہیں وہاں ہماری سیکیورٹی زیادہ ہوتی ہے، آپریشن ردالفساد کے تحت کاروائیاں بھی ہورہی ہیں، بلوچستان میں پانی، بجلی اور کمیونیکیشن نیٹ ورک کے مسائل درپیش ہیں، ان مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے وزیراعظم نے خوشحال بلوچستان کا پروگرام دیا تھا، جس کے تحت ان مسائل کو حل کیا جا رہا ہے، تربت میں 10ہزار سے زائد لوگوں کے مجمعے پر مشتمل میوزک کانسرٹ کیا گیا جو وہاں پرامن کی نشانی ہے، آج کا کراچی اور 2013کے کراچی میں بہت زیادہ فرق ہے، اب ٹارگٹ کلنگ اور بھتہ خوری میں نمایاں کمی ہوئی ہے،کراچی دنیا کے چھٹے خطرناک شہر کے نمبر سے 56ویں نمبر پر آ گیا ہے، اب کراچی میں کوئی نوگوایریا نہیں ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ کراچی میں سوشل ایونٹ بھی بھرپور طریقے سے ہو رہے ہیں مگر ابھی بھی وہاں بہت کام کی ضرورت ہے، آپریشن ردالفساد کے تحت 26میجر آپریشنز کئے گئے ہیں، پنجاب میں رینجرز نے مختلف علاقوں میں سیکیورٹی کی ذمہ داریاں سرانجام دی ہیں، انٹیلی جنس ایجنسیز کا پچھلے دس ،پندرہ سالوں میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں لیڈ رول رہا ہے، اس کے مثبت اثرات افغانستان میں بھی گئے ہیں، آج ہم انہی ایجنسیز، آئی ایس آئی، آئی جی اور ایم آئی کی وجہ سے ہی کامیاب ہیں، ایجنسیز نے 7بڑے دہشت گردی کے نیٹ ورکس تباہ کئے ہیں۔میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ ایجنسیز کی وجہ سے 573ایسے واقعات ہیں جنہیں وقوع پزیر ہونے سے پہلے ہی روک لیا گیا، اینٹی پاکستان عناصر کو پاک فوج اور آئی ایس آئی کامیاب نہیں ہونے دے رہی ہیں، ہماری امن کی خواہش کو کسی کو بھی ہماری کمزوری نہیں سمجھنا چاہیے، 23مارچ کی پریڈ میں انڈین ہائی کمیشن کو مدعو کیا جاتا، ہماری ڈپلومیٹک نارمز کوریفلیکٹ کرتا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ چیئرمین پی سی بی کا شکریہ کہ وہ پاکستان میں کرکٹ واپس لے کر آئے، اگلے پی ایس ایل میں ہمارا پلان ہو گا کہ ملک کے باقی شہروں میں بھی میچز کروائے جائیں۔ سی ایم پنجاب کی آرمی چیف سے ملاقات کے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پاکستان ہمارا ایک ہی ملک ہے اور اسے چلانے کیلئے آپس میں رابطے ہوتے رہتے ہیں، میڈیا پر کچھ ایسی خبریں چل رہی تھیں کہ 72گھنٹے میں 2ملاقاتیں سی ایم پنجاب اور آرمی چیف کی ہوئی ہیں اور شاید کوئی این آر او ہو رہا ہے، اسی تناظر میں میں نے ٹوئیٹ کے ذریعے کلیئر کیا تھا کہ یہ ملاقاتیں افغانستان کے بارڈر پر باڑ لگائے جانے کے متعلق امور کی وجہ سے ہوئی تھیں، انہوں نے مالی امدادکی آفر کی تھی۔ انہوں نے کہا کہ آرمی چیف کی میڈیا اینکرز سے آف دی ریکارڈ ملاقات تھی، جس کے ذریعے سیکیورٹی صورتحال پر بات چیت کی گئی، کچھ اینکرز نے باہر جا کر بات کی اور کچھ لوگ جو ملاقات میں موجود بھی نہیں تھے پھر بھی انہوں نے کالمز لکھے، باجوہ ڈاکٹرائن کا میڈیا انٹریکٹ سے کوئی تعلق نہیں ہے، باجوہ ڈاکٹرائن ملک کو سیکیورٹی کے لحاظ سے فول پروف بنانا ہے۔ میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ باجوہ ڈاکٹرائن ملک کی سلامتی اور امن و امان کی صورتحال سے متعلق ہے، یہ ہر پاکستانی کی ڈاکٹرائن ہونی چاہیے، باجوہ ڈاکٹرائن کا 18 ویں ترمیم اور این آر او سے کوئی تعلق نہیں، باجوہ ڈاکٹرائن کا مطلب صرف ایک ہے اور وہ ہے پرامن پاکستان، کچھ اور مطلب نہ لیا جائے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ باجوہ ڈاکٹرائن میں 18ویں ترمیم اور جوڈیشری کے حوالے سے کوئی ذکر نہیں ہے، اس کو صرف سیکیورٹی کے لحاظ سے ہی دیکھا جائے، پاکستان بھارت کی طرف سے ہر وقت خبردار ہے اور ہم ہر قسم کے خطرے کیلئے ہر وقت تیار بھی ہیں اور یکجا بھی ہیں، آرمی کا این آر او سے کوئی تعلق نہیں ہے، تمام چیزیں اپنے آرڈر میں چل رہی ہیں، 2018 انتخابات کا سال ہے، پاکستان اس وقت ترقی کرے گا جب ہر ادارہ اپنا کام کرے گا۔ ایک سوال کے جواب میں آصف غفور نے کہا کہ بھارت کو فوجی دستے ان کی ضرورت کے مطابق بھیجے جاتے ہیں، ہم یمن جنگ کا حصہ نہیں ہیں، آئی ایم سی ٹی اتحاد دہشت گردی اور دہشت گردوں کی فنڈنگ کے خلاف ہی بنا ہے، پاکستان کسی ایسے اتحاد کا حصہ نہیں بنے گا، جوکسی دوسرے ممالک کے مفاد کے خلاف ہیں،امریکہ سے مختلف امور پر ابھی بات چیت چل رہی ہے، پاکستان میں کوئی منظم دہشت گردی کا گروہ نہیں ہے، افغان امن میں بھی پاکستان کا کردار ہے، آرمڈ فورسز کا تعلق سیکیورٹی سے ہے، پشتون تحفظ موومنٹ کے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پچھلے دس پندرہ سالوں میں ہماری دہشت گردی کے خلاف جنگ فاٹا اور کے پی کے کیلئے بھی سب سے زیادہ تھی، آپ کو یہ دیکھنا چاہیے کہ فاٹا اور کے پی کے کی سیکیورٹی صورتحال پہلے سے بہتر ہے یا نہیں، کسی بھی پاکستانی کے حق کو نہیں دبانا چاہیے،نقیب قتل سے یہ تحریک شروع ہوئی، افغانستان سے ان کو مدد ملنی شروع ہو گئی، منظور پشتون سے میں خود ملا ہوں، وہ ونڈرفل نوجوان ہے اس کی وزیراعظم سے بھی ملاقات ہوئی، ان کی ڈیمانڈ تو پوری کر دی گئی ہیں، پاکستان میں پوسٹیں شوق سے نہیں عوام کے تحفظ کیلئے ہیں۔
ترجمان پاک فوج

مزید :

صفحہ اول -