پاکستان اقتصادیات کے انتظام 15ویں بین الاقوامی کانفرنس بدلتے قومی اور بین الاقوامی ماحول میں اقتصادی چیلنجزپہلے دن کی کاروائی
لاہور سکول آف ایکونومکس کی پاکستانی اقتصادیات پر سالانہ کانفرنس جس کا عنوان ہے بدلتے قومی اور بین الاقوامی موحول میں اقتصادی چیلنجز کا آج افتتاح ہوا۔ یہ کانفرنس چھ اجلاسوں پر مشتمل ہے جن کا ہدف ان کلیدی اقتصادیات کو درپیش ہیں خاص طور پر مالیاتی محاذ پر کانفرنس کے باقاعدہ اجلاس اکیس پیپرز پر مشتمل ہیں۔
ڈاکٹر شاہد امجد چودھری ( ریکٹر لاہور سکول آف ایکونومکس ) نے استقبالیہ خطاب سے کانفرنس کا افتتاح کیا۔ استقبالیہ خطاب میں ممتاز سکالرز، پالیسی ساز، ماہرین تعلیم، طالب علم اور ممتاز عوامی شخصیات موجود تھیں۔ ڈاکٹر شاہد نے بیان کیا کہ پاکستانی اقتصادیات کے کلیدی چیلنجز میں بڑھتا ہوا مالی اور کرنٹ اکاونٹ خسارہ آمدنی کی ناکامی پیداوار اور اقتصادی ترقی کی سست رفتاری شامل ہیں ان چیلنجز کا سامنا کرنے کے لیے حکومت کو آمدنی بڑھانے، کرنٹ اکاونٹ خسارے کو قابو کرنے اور اقتصادی ترقی کر رفتار تیز کرنے کے اقدامات متعارف کرنے ہوں گے اور مستقبل کے لیے قلیل المیعاد پالیسی ایڈجسٹمنٹ جیسے مالیاتی نظم وضبط، شرح تبادلہ کی ایڈجسٹمنٹ اور آئی ایم ایف کے ساتھ بیل آوٹ پیکج پر گفت وشنید ( مارکیٹ کا اعتماد بحال کرنے اور بیلنس آف پیمنٹ کے لیے قرضہ جات حاصل کرنے ) کے ساتھ ساتھ حکومت کو ایسی اصلاحات متعارت کروانا پڑیں گی جن سے بڑے پیمانے پر اقتصادی استحکام اور طویل مدتی اور پائیدار ترقی جیسے اہداف حاصل کیے جاسکیں۔ کانفرنس کے بارے میں بات کرتے ہوئے، ڈاکٹر صاحب نے حاضرین کو کانفرنس کے چھ اجلاسوں کا اظہار کریں گے۔ ان عنوانات میں بڑے پیمانے پر اقتصادی استحکام، پاکستان میں عوامی فنانس، بیلنس آف پیمنٹ کے چیلنجز، زرعی شعبہ، تجارتی پالیسی، اور سی پیک کے امکانات شامل ہیں اپنے افتتاحی خطاب سے ڈاکٹر صاحب نے پہلے اجلاس کی صدارت کی جس کا عنوان تھا بڑے پیمانے پر اقتصادیات۔
ڈاکٹر راشد امجد ( اقتصادیات کے پروفیسر اور گریجویٹ انسٹیٹیوٹ آف ڈیویلپمنٹ سٹڈیز، لاہور پاکستان کی چلتی رکتی اقتصادی گردش سے چھٹکارا: کیا مالیاتی خسارے کا کلیدی کردار ہے 1999 سے 20118 ؟ کے عنوان سے کیا اس اجلاس میں 1999 سے 2018 تک کے عر صے میں پاکستان کی اقتصادی کارکردگی پر روشنی ڈالی گئی تاکہ اس امر کی شناخت کی جاسکے کہ ایسے کون سے رجحانات اور عوامل تھے جو اس عرصے کی مجموعی خراب اقتصادی کار کرردگی کا باعث بنے۔ نتیجاتاً یہ پتا چلا کہ اقتصادی ترقی پر مالیاتی خسارے کا منفی اثر ہوتا ہے اور یہی بات 2001ء سے 2018ء اور 1982ء سے 2108ء دونوں عرصوں کے لیے کہی جاسکتی ہے۔ کرنٹ اکاونٹ خسارے کی قدر 2001ء سے 2018ء کے عرصے میں منفی ہے۔ لیکن یہی قدر 1982ء سے 2018ء کے عرصے میں مثبت رجحان پیش کرتی ہے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جتنا بڑا کرنٹ اکاونٹ خسارہ ہوگا اتنی ہی زیادہ اقتصادی ترقی ہوگی۔ مجموعی نتیجہ یہ کہ پاکستان کے اقتصادی پالیسی سازوں کو مالیاتی خسارہ نہایت احتیاط سے مانیٹر کرنا پڑے گا۔ اس سے پہلے کہ معیشت ایک ایسی جگہ پہنچ جائے جہاں سخت استحکامی اقدامات ناگزیر ہوں جائیں۔
دوسرا اجلاس ڈاکٹر معزم محمود (پروفیسر آف ایکونومکس لاہور سکول آف ایکونومکس) اور شمائلہ چودھری ( اسٹنٹ پروفیسر ان ایکونومکس اینڈ بزنس ایڈمنسٹیشن ) نے منعقد کیا۔ اس کا عنوان تھا: پاکستان میں Bop کا بحران: استحکام بمقابلہ ترقی۔ اس اجلاس میں بتایا گیا کہ ملک سے بڑے پیمانے پر مالیاتی انخلا ہورہا ہے۔
اس اجلاس میں شرح تبادلہ اور شرح سود کے مشترکہ تجزیے سے ایک قابل عمل پالیسی کا تعارف کرایا گیا۔ اسا سے یہ بھی بتا چلا کہ صرف فرسودگی کرنٹ کاونٹ خسارے کو سنبھالنے کے لیے کافی ہے۔ تجویز دی گئی کہ مالیاتی ہے انخلا کی روک تھام اقتصادی استحکام کا باعث بن سکتی ہے ترقی کی شرح کو روکے بغیر۔
ڈاکٹر اعظم چودھری ( پروفیسر اینڈ ڈین آف ایکونومکس دیمپارٹمنٹ، لاہور سکول آف ایکونومکس ) سے گل اندامان کے ساتھ لکھا گیا پیپر پیش کیا۔ جس کا عنوان تھا: بقایا جات کی ادائیگی: پاکستان کی ترقی میں حائل بڑھتی ہوئی ترسیلات، برآمدات اور درآمدات کا تجزیہ کر کے اس نتیجے پہ پہنچا گیا کہ Bop کی محدود شرح نمود 4.41 فیصد سالانہ ہے۔ یہ بھی اخذ ہوا کہ Bop شرح جب اس قدر سے بڑھ جاتی ہے تو درآمدی بل بھی بڑھ جاتا ہے۔ جس سے بقایا جات کی ادائیگیوں میں مسئلہ آتا ہے۔ اس سے یہ پتا چلا کہ شرح تبادلہ میں سودگی کی بجائے پاکستان کے لیے طویل مدتی حل بر آمدات کی قدر بڑھانے میں ہے۔
پہلے اجلاس کا آخری خطاب معذم محمود اور اعظم چودھری صاحب نے کیا۔ اس پیپر میں ایمل تنویر (ریسرچ اسوسیٹ لاہور سکول آف ایکونومکس) کی بھی شمولیت تھی۔ اس اجلاس میں پاکستان کے لیے GE میکرو موڈل پیش کیا گیا۔ اس تصوراتی ڈھانچے میں ایسے ایجنسٹس کا ذکر کیا گیا ہے۔ جو کلیدی مارکٹوں میں اپنا کردار ادا کریں گے۔
کانفرنس کا دوسرا حصہ ڈاکٹر راشد امجد کی صدارت میں منعقد ہوا۔ اس کا عنوان تھا: صوبائی اکاونٹس اور ڈی سنڑلائزیشن۔
حافظ پاشا نے صوبائی حکومتوں کا وسائل کا استعمال پر خطاب کیا۔ اس اجلاس کا مقصد مختلف صوبائی ترقی پسند ٹیکسوں کی تشخیص تھا۔ دوم اس بات کا بھی اندازہ لگایا گیا کہ ان ٹیکسوں سے کتنی آمدنی وصول کی جاسکتی ہے۔ پھر یہ بھی انکشاف کیا گیا کہ صوبائی حکومتوں کے پاس ٹیکس کے علاوہ بھی آمدنی پیدا کرنے کے وسائل ہیں۔
کانفرنس کا دوسرا حصہ حبس پیپر پر اختتام پزیر ہوا اس کا عنوان تھا: پاکستان میں سب نیشنل GDP اور شرح نمود کے تخمینے کے لیے نائٹ ٹائم لائٹ ڈاٹا کا استعمال۔ یہ پیپر تھریسا چودھری اور ہنور آصف نے لکھا تھا۔ اس پیپر میں اس نئی تکنیک کا تجزیہ نہایت خوبصورت انداز میں پیش کیا گیا۔
کانفرنس کا تیسرے حصے کی صدارت ڈاکٹر راشد امجد نے کی اور اس کا عنوان تھا: پاکستان میں عوامی فنانس اس حصے کی شروعات جس پیپر سے ہوئی اس کا عنوان تھا: بیرونی قرضوں کا انتظام 2019 تا 2024 ۔ جیسے سیدکلیم حیدر اور مہک اعجاز نے پیش کیا۔ اس میں پاکستان کے مستقبل کے ممکنہ قرضوں پر بحث کی گئی۔
ڈاکٹر محمد اشفاق احمد (DG انٹرنیشنل ٹیکس۔ FBRاسلام آباد ) اور ڈاکٹر عنایت منگہ نے پاکستان: مالیاتی بحران کاحل 2019۔2024 : آمدنی کا نقطہ نظر کے عنوان خزانہ پچھلے چند ادوار میں نہایت ناقص طریقے سے چلا یا گیا ہے اور نظام کو ٹھیک کرنے میں کم ازکم دوسال کا عرصہ دوکار ہوگا۔
جمشید اپل اور محمدد خالد نے پاکستان کا باربار پیش آنے والا مالیاتی بحران۔ اداریاتی حکمت عملی مالیاتی مضبوطی کے لیے۔ کہ عنوان سے خطاب کیا۔ اس میں بتایا گیا کہ پاکستان کا مالیاتی بحران جو ہر کچھ عرصے بعد سر اٹھا لیتا ہے اس کی جڑ ہمارے سیاسی اور اقتصادی محکمے ہیں۔ ان بحرانوں کو طویل مدتی حل ان محکموں کو مضبوط اور توانا کرنے کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔
دن کا اور اجلاس کا آخری خطاب احمد مسعود خالد نے کہا جس کو عنوان تھا: مستقبل کی مالیاتی منصوبہ بندی کو لاہک چیلنجز۔ اس پیپر کی اشاعت میں عبداللّہ عصمت بچہ بھی شامل ہیں۔
پہلے دن کا اختتام نہایت تفریح فرما کھانے پر ہوا۔