ایک کالم کورونا سے ہٹ کر
گزشتہ اتوار آپ کو یہ خبر سنائی تھی کہ ہمارے بی بی سی کے یاور عباس، جو آئندہ ستمبر میں سنچری پوری کرنے والے ہیں، انسانی حقوق کی کارکن نور ظہیر کے ساتھ رشتہء ازدواج میں منسلک ہو گئے۔ پاکستان میں یہ خبر بریک کرنے کا اعزاز روزنامہ ڈان کے حصے میں آیا اور پھر ہندوستانی اخبارات سے لے کر بی بی سی ورلڈ تک ”گویا دبستاں کھُل گیا“۔ نئے زمانے میں خبر کی طرح ہر نجی ٹی وی چینل کی قیاس آرائیوں کو بھی بریکنگ نیوز سمجھ لیا جاتا ہے۔ یاور صاحب کے ساتھ بھی یہی ہوا، مگر افرا تفری میں خبر کا یہ پہلو دب سا گیا کہ ہمارے ممدوح نے آئی ایس پی آر کے کپتان یاور عباس کے طور پر 14 اگست 1947 ء کو کراچی میں ایک اہم تقریب کی فلم بندی بھی کی۔ وہی جس میں انگریز وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے اقتدار اولین گورنر جنرل قائد اعظم محمد علی جناح کو منتقل کر دیا تھا۔
کورونا وائرس کے موسم میں میری اِس تحریر کا مُکھڑا پڑھ کر صوبہء پنجاب کے قارئین چونک اٹھے ہوں گے کہ ”لوؤ، ہُن اِک ہور رولا پین لگا جے“۔ میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں، نہ جس شخصیت کے بارے میں یہ انکشاف کیا انہیں کبھی اِس حوالے سے شہرت کی خواہش رہی ہے۔ آپ میری وضاحت سُن کر بھی یہ کہہ سکتے ہیں کہ ”شاہد ملک مائنڈ نہ کرنا، لگتا یہ کوئی چکر ہی ہے“۔ چکر کوئی نہیں، بس آپ یاور عباس کو جانتے نہیں۔ بس اتنا پتا ہے کہ بزرگی کی عمر میں شادی رچا کر وہ بین الاقوامی شہ سُرخیوں کا عنوان بن گئے ہیں یا یہ کہ اُنہیں 1942 ء میں متحدہ ہندوستان کی فوج میں کمیشن ملا، انتقالِ اقتدار کی تقریب کی کیمرہ مینی سے اگلے مرحلے پر میجر کے منصب پہ ترقی پائی اور پھر برطانیہ آ بسے جہاں بحیثیت اسکرپٹ رائٹر، فلم میکر اور براڈ کاسٹ جرنلسٹ نام کمایا۔
جو لوگ سوشل میڈیا پہ یاور عباس کے مفصل تعارف کا مطالبہ کر رہے ہیں اُن کے لئے ذاتی تعلق کی کہانی بی بی سی لندن کے ساتھ اپنی وابستگی سے شروع کروں گا۔ وہاں جاتے ہی پتا چل گیا تھا یاور عباس صاحب عمر میں میرے والد سے چار سال بڑے ہیں۔ فرق یہ ہے کہ والد کے برعکس اُن سے پہلے ہی روز ملاقات بُش ہاؤس کے کلب میں ہوئی اور کلب میں شام گئے جو کچھ ہونا چاہئیے وہ بھی ہوا۔ باتوں باتوں میں گیارہویں سِکھ رجمنٹ کی پنجابی مسلمان کمپنی میں اُن کی ڈیٹ آف کمیشن کا ذکر آیا تو میرے منہ سے نکلا ”سر، آپ تو مجھ سے فخریہ کہہ سکتے ہیں کہ جب ہم یونیفارم میں تھے تو تم ُلیکیوڈ فارم‘ میں تھے“۔ یاور صاحب، جو یو پی میں پیدا ہوئے اور الہ آباد یونیورسٹی میں تعلیم پائی، میری بات سُن کر بے تحاشہ ہنسے۔ یہ لمحاتی خوشدلی عمر بھر کے لئے ہماری دوستی کا پیش خیمہ بن گئی۔
بی بی سی میں ہمارا ہفتہ وار ڈیوٹی روسٹر مہینے ڈیڑھ مہینے تک ایک سی ترتیب کے مطابق چلتا تھا۔ جیسے ابتدا میں پیر اور منگل کو دن کی ٹرانسمیشن میں کونٹی نیوٹی اناؤنسمنٹ کا کام میرے سپرد ہوتا اور ساتھ ہی حالات ِ حاضرہ کے پروگرام سیر بین کے لئے معاونت۔ بدھ اور جمعرات کو میرے فرائض سامعین کے لئے معلوماتی سوال و جواب اور انگریزی بول چال کے اسباق کی تیاری اور ریکارڈنگ تھی۔ جمعہ کے جمعہ خبریں پڑھنے کی باری آ جاتی۔ کبھی کبھی ہمارے سینئر اطہر علی، وقار احمد اور سارہ نقوی سالانہ چھٹی پہ جاتے تو اسپورٹس راؤنڈ اپ، کلچرل پروگرام ’سب رس‘ اور ہفتہ وار سائنس کلب کی ترتیب و پیش کش بھی میرے ذمہ ہوتی۔ پھر شبینہ ڈیوٹیاں شروع ہوئیں تو رضا علی عابدی، سید راشد اشرف اور آصف جیلانی کی بدولت پتا چلا کہ براڈ کاسٹ جرنلزم کہتے کسے ہیں۔ پر یاور صاحب کی بات کچھ اور تھی۔
آپ کہیں گے کہ ’کچھ اور‘ تو ذومعنی اشارہ ہوا۔ جواب میں توقع کے برعکس مَیں یاور عباس کی موجودگی میں بھی آپ کی ہاں میں ہاؤں ملاؤں گا کہ ”جی ہاں، اِس کے کئی معانی نکالے جا سکتے ہیں“۔ سب سے پہلے تو یہ کہ یاور صاحب اپنے ذوق اور طبیعت کے لحاظ سے کرنٹ افیئرز کے آدمی نہیں تھے اور نہیں ہیں۔ وہ شاید اِس کام کو اپنی ماہرانہ سطح سے کم تر خیال کرتے تھے۔ دراصل اُن کی تخلیقی صلاحیت کا اظہار اعلی پائے کی وہ دستاویزی فلمیں ہیں جنہیں دیکھ کر بعد کے فلم میکرز کو اپنی منزل کے آثار نظر آنے لگے۔ کمال کی پکچرائزیشن اور ایڈٹنگ، اسکرپٹ انگریزوں والی انگریزی میں اور لب و لہجہ ایسا کہ اسکوائش کے کھیل پر ’خانز آف پاکستان‘ اور اُس سے پہلے شاہکار ڈاکومنٹری ’انڈیا مائی انڈیا‘ دیکھ کر مَیں پہروں سوچتا رہا کہ یہ یاور صاحب کی آواز ہے یا سر السٹئیر برنٹ بول رہے ہیں۔
اُن دنوں یاور عباس ہفتے بھر میں دو یا تین مرتبہ رات کی خبریں پڑھنے اردو سروس میں آتے اور ڈیوٹی آپریشنز مینیجر کو آمد کی اطلاع دیتے ہوئے کہتے ”ہیلو، ڈی او ایم، یور فرینڈلی اردو نیوز ریڈر یاور عباس“۔ نہائت رعب دار آواز کے ساتھ پڑھنے کی رفتار ایسی کہ ایک بار مَیں نے کہا ”یاور صاحب، آپ بلیٹن خوب فراٹے سے پڑھتے ہیں“۔ بھاری لہجہ والے دوست علی احمد خاں کی طرف دیکھ کر پوچھنے لگے ”خاں صاحب کیسے پڑھتے ہیں؟“ عرض کیا ”خراٹے سے“۔ ”اور غیور صاحب؟“ میرا جواب تھا ”سناٹے سے‘‘۔ یہاں تک تو ٹھیک ہے، مگر ایک روز حد ہو گئی۔ مَیں صبحِ کاذب کے وقت ’جہاں نما‘ کر رہا تھا کہ یاور صاحب نے خبریں پڑھیں اور ساڑھے نو منٹ کا بلیٹن ساڑھے پانچ منٹ میں ختم کر دیا۔ یا الہی بی بی سی پر چار منٹ کا گیپ۔ مَیں نے اُس دن کھیلے جا رہے پاک بھارت ہاکی میچ پہ فوراً چار سوال لکھے اور یاور صاحب نے میرا فی البدیہہ انٹرویو کر لیا۔ اسٹوڈیو سے باہر نکل کر دونوں کافی دیر تک بآوازِ بلند ہنستے رہے۔
تب سے تازہ خانہ آبادی تک قدو قامت اور خوش لباسی میں یکتا یاور عباس کی شخصیت پہ اکثر جمالی پہلو ہی غالب دیکھا۔ جیسے ایک دن مَیں دفتر پہنچا تو نظر پڑی کہ ہم دونوں نے ایک ہی ڈیزائن کے سوٹ پہنے ہوئے ہیں اور ملتے جلتے رنگ کی ٹائیاں۔ مَیں نے مزا لینے کے لئے اپنی ٹائی کو چھوا اور کہا ”یاور صاحب، یہ چیز“۔ یاور عباس مسکرائے اور اپنی ٹائی کی الٹی سائیڈ سامنے کرتے ہوئے، جس پہ ’کرسچین ڈئیور‘ لکھا ہوا تھا، ایک احساسِ برتری کے ساتھ کہنے لگے ”مگر یہ چیز“۔ مَیں نے بھی ٹائی الٹائی اور اُسی لہجہ میں کہا ”اور یہ چیز“۔ یاور صاحب نے بے اختیار قہقہہ لگایا کیونکہ اُن کے مقابل میری ٹائی پہ ’ہیروڈز‘ کا لیبل لگا ہوا تھا۔ اِسی اسٹور کے مالک کے صاحبزادے دودی الفائد کے ساتھ شہزادی ڈیانا کی قربت کی داستانیں مشہور ہوئیں اور اب سے بیس سال پہلے دونوں پیرس میں المناک موت سے دوچار ہوئے۔
خوش باشی کے تسلسل میں یاور عباس کے ہمکاروں نے اُن کی جلالی طبیعت کے مناظر بھی دیکھے ہیں۔ وہ واقعہ تو بھولتا ہی نہیں جب انہوں نے بی بی سی اردو کے پرانے منتخبہ پروگراموں میں سے اقتباسات لے کر ’صدائےِ بازگشت‘ کے نام سے ایک سلسلہ شروع کیا تھا۔ مَیں یہ کہنے کا سزا وار ہوا کہ ’باز گشت‘ ہی کافی تھا۔ ”باز گشت؟ کِس کی بازگشت؟‘‘ ”عام طور پہ آواز ہی کی ہوتی ہے“۔ ”بے معنی“۔ اِس مرحلے پر آصف جیلانی نے، جو ہفتہ وار پروگرام ’انجمن‘ بھی کرتے تھے، صرف اتنا کہا کہ بعض سامعین نے اپنے خطوط میں یہی بات لکھی ہے۔ ”مَیں مانتا ہوں کہ آپ کو اردو آتی ہے، لیکن میرا تعلق اُس علاقہ سے ہے جہاں اردو کی ابتدا ہوئی“۔ ورلڈ وار والے میجر یاور کا غصہ ٹھنڈا ہونے میں نہیں آ رہا تھا۔ مَیں نے ہاتھ جوڑ کر التجا کی کہ کلب چلتے ہیں۔ یاور صاحب مسکراتے ہوئے سیڑھیاں اترنے لگے۔
یہ بتیس سال پہلے کا قصہ تھا۔ ڈھائی سال پہلے مجھ سے ملنے کے لئے اُس وقت کے ستانوے سالہ یاور عباس نے لندن میں اِسی مسکراہٹ کے ساتھ ممتا گپتا کے اپا رٹمنٹ کی سیڑھیاں چڑھیں۔ کھانے کا دور ہو گیا تو انہوں نے تازہ نظمیں سنائیں۔ داد دینے والوں میں ممتا، سید راشد اشرف، دردانہ انصاری، مَیں اور میرا بیٹا ہی نہیں، بی بی سی ہندی کی سابق سربراہ اچلا شرما، اُن کے شوہر پرویز عالم، لندن میں لاہوری زندہ دلی کی علامت بھارتندو وِمل اور یاروں کے یار لَلِت موہن جوشی بھی تھے۔ دردانہ انصاری، جنہیں تعلیمی خدمات پر ’او بی ای کا تمغہ‘ اور رائل نیوی میں کمانڈر کا اعزازی عہدہ مِل چکا ہے، کہتی رہیں کہ یہ تقریب شاہد ملک کے خیرمقدم کے لئے ہے۔ پھر بھی راشد اشرف اور مَیں نے مِل کر یاور عباس صاحب کی اوریجنل سینیارٹی کو ڈسٹرب نہ ہونے دیا۔ یوں ہمارے درمیان یونیفارم اور ’لیکویڈ فارم‘ کا فرق آج بھی برقرار ہے۔