حراست میں خودکشی!

حراست میں خودکشی!
حراست میں خودکشی!

  


خواتین و حضرات گزشتہ دنوں دو ایسی خبریں پڑھیں جو تقریباً ہر اخبار میں شائع ہوئیں اور جن کی صدا ٹیلی ویژن کے چینلوں پر بھی گونجتی رہی۔ یہ دونوں خبریں پولیس کی حراست میں دو نوجوان مبینہ ملزمان کی خود کشی کرنے سے متعلق تھیں۔ ایک خبر فیصل آباد سے تھی،جہاں ایک نوجوان نے جو زیادتی کیس میں گرفتار تھا، پولیس کے روبرو خودکشی کرلی۔ خبر میں مزید بتایا گیا ہے کہ ملزم کے پاس سے، تلاشی کے دوران آلہ قتل برآمد ہوا تو اس نے قریبی نہر میں کود کر خودکشی کرلی۔ اسے بے ہوشی کی حالت میں ہسپتال لایا گیا، لیکن وہ دم توڑ گیا۔ پولیس نے نہ تو اسے روکا اور نہ ہی اس نے موقع دیا۔ پولیس کی دانست میں اس نے شاید نہانے کے لیے نہر میں چھلانگ لگائی ہوگی۔ ملزم نے اعتراف جرم کرلیا تھا اور بتایا تھا کہ بچے سے زیادتی کے بعد اسے ہلاک کر کے نہر میں پھینک دیا۔پولیس نشاندہی کے لئے اسے یہاں لائی تھی، لیکن کیا وہ اسے یوں ہی آزادانہ لے کر گھوم رہی تھی اور وہ بھی پولیس سے اس قدر خوف زدہ تھا کہ نہر میں کود گیا اور موت کو گلے لگالیا؟


اسی سے ملتی جلتی ایک اور خبر میں بتایا گیا ہے کہ تھانہ غربی، پشاور میں حوالات میں بند ایک نو عمر بچے نے خودکشی کرلی۔ بچے کے جسم پر تشدد کے نشان سامنے آ گئے۔ خدشہ ہے کہ بچے نے پولیس کے تشدد سے تنگ آکر خودکشی کی۔ بچے کو دکان سے گرفتاری کے بعد تھانے لاتے وقت راستے میں مارا گیا۔ سوال یہ ہے کہ بچے کی خودکشی کے وقت پولیس کہاں تھی؟ اور پھر حوالات میں بند کرتے وقت کسی نے بچے کی تلاشی لی یا صرف تشدد پر ہی اکتفا کیا۔


پولیس کی حراست میں ہلاکتیں، پولیس حراست سے ملزمان کا مفرور ہوجانا اور پولیس مقابلوں میں اس کا مارا جانا یا پار لگا دینا جیسے واقعات سے اب لوگ مانوس ہوچکے ہیں۔ گزشتہ دِنوں ایک ٹیلی ویژن چینل پر جعلی پولیس مقابلے کی فوٹیج بھی دکھائی گئی، تاہم پولیس کی حراست میں ملزمان کی خودکشی کے واقعات ایک نئی   بات ہے۔ اس سے اس امر کو بھی تقویت ملتی ہے کہ تھانوں میں ملزمان کے ساتھ کس قدر خوفناک سلوک ہوتا ہوگا کہ وہ موت کو گلے لگا لینا زیادہ آسان سمجھتے ہیں اور مرجانا قبول کرلیتے ہیں۔ اس سلسلے میں کئی سوالات اٹھ رہے ہیں۔ سب سے زیادہ حیرت والی بات تو یہ ہے کہ تھانے میں قید یا ہتھکڑی میں جکڑا ہوا کوئی ملزم کیونکر خودکشی جیسا قدم اٹھا سکتا ہے؟اس وقت پولیس کہاں ہوتی ہے؟ اسے روکنے والا کوئی موجود نہیں ہوتا؟ جب کسی مشکوک شخص کو یا مبینہ ملزم کو تھانے لایا جاتا ہے تو کیا لاک اپ میں بند کرنے سے قبل اس کی تلاشی نہیں لی جاتی کہ کہیں اس کے پاس کوئی ایسا آلہ تو موجود نہیں جس سے وہ خود کو نقصان پہنچا سکے یا خود پولیس اہلکار کو زخمی کردے۔ یہ اس قدر آسان کیوں ہے کہ کوئی ملزم پولیس کی حراست میں خودکشی جیسا فعل کر گزرے۔

یہ ہم اس لیے عرض کر رہے ہیں کہ پولیس مقابلے اور پولیس کی حراست میں ہلاک ہوجانے والے واقعات کے بعد اب پولیس کی سپردگی میں خودکشی کے واقعات سر نہ اٹھا لیں۔ یہ بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ پولیس کو بھی ان کی کسی نا اہلی، غفلت اور جرم سر زد ہونے پر سزا دی جاتی ہے۔ اخبارات میں پولیس کے سپاہی کو وردی میں ملبوس تھانے میں سلاخوں کے پیچھے موجود دکھایا جاتا ہے۔ پولیس اہلکاروں کو معطل بھی کیا جاتا ہے اور ٹرانسفر بھی، انہیں قید بھی کیا جاتا ہے، لیکن اس کے بعد کی کارروائی کا ذکر آج تک نہ دیکھا نہ سنا……مثلاً آپ کو یاد ہوگا قصور میں ایک پولیس والے نے ایک حافظ قرآن نوجوان کو  عید الفطر کے روز گولی مار کر ہلاک کردیا تھا۔ اسے محض اس بات پر ہلاک کیا گیا کہ اس نے اس پولیس کے سپاہی کی ناپاک جنسی خواہش کو پوا کرنے سے انکار کردیا تھا۔ اس سپاہی کو گرفتار کرکے جیل بھیج دیا گیا۔ اس کے بعد کی کارروائی کی کوئی خبر کبھی دیکھنے، سننے اور پڑھنے میں نہیں آئی۔ اسی طرح ہم سوشل میڈیا پر پولیس والوں کی حرکات، بشمول غریب ریڑھی والے سے بزور طاقت مفت گنڈیریاں لے کر چوسنا، موٹر سائیکل اور ٹرک والوں سے لوگوں کی نظر سے چھپ کر پیسے لے کر چالان نہ کرنا (مگر سی سی کیمرے سے نہ چھپ پانا) اور عوام پر سرعام تشدد کرنا دیکھتے ہیں۔ ان واقعات کا فوری نوٹس بھی لیا جاتا ہے، کیونکہ یہ سب پر عیاں ہوجاتا ہے، لیکن اس کے بعد کی کارروائی اور فالو اپ کے بارے میں کوئی نہیں جانتا۔


اگر پولیس چوکی اور تھانوں میں سی سی ٹی وی کیمرے نصب کیے جائیں تو پولیس تشدد اور پولیس کی حراست میں خودکشی جیسے واقعات کی روک تھام میں مدد ملے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ آج کل پولیس کی ایک اور کارروائی،بلکہ واردات بہت ”مقبول“ ہو رہی ہے کہ چلتی گاڑی یا موٹر سائیکل پر جاتے کسی مبینہ ملزم پر معمولی شک کی صورت میں فائرنگ کردینا اور اس کی جان لے لینا۔ اس کی ایک تازہ مثال اسلام آباد میں کار میں سوار ایک نوجوان پر پولیس فائرنگ کرنا اور اس کے نتیجے میں اسے ہلاک کردینا ہے۔ اگر مشکوک شخص کو روکنا مطلوب ہو تو اس کے اور بھی طریقے ہوسکتے ہیں، سواری کے ٹائر کو نشانہ بنایا جاسکتا ہے، رکاوٹ کھڑی کی جاسکتی ہے، آگے موجود پولیس کو اس کے بارے میں مطلع کیا جاسکتا ہے، ہلاک کردینا کسی صورت میں آخری حربہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔


مذکورہ بالا واقعات اور معاملات میں ضروری محسوس ہوتا ہے کہ پولیس کے لئے کسی ایسے ضابطہ اخلاق کا اجراء کیا جائے جو ان حادثات میں کمی کا باعث بنے۔ پولیس کی تقرری، تعیناتی اور تربیتی پروگراموں میں عوام الناس، بالخصوص عورتوں، بچوں اور عمر رسیدہ افراد سے بدسلوکی، بے عزتی اور تشدد سے پیش آنے کے واقعات پر سختی سے پابندی لگائی جائے اور اسے بھی ایک جرم کی حیثیت سے قابل سزا بنایا جائے، ہر تین ماہ میں ایک ہفتہ بطور ”ہفتہ خوش اخلاقی“ منایا جائے۔ پولیس کا عوام دوست ہونا بہت ضروری ہے۔ غریب عوام جو پہلے ہی مالی حالت اور دکھ بیماری کے ہاتھوں زندگی سے تنگ ہیں،انہیں پولیس اپنے تلخ رویوں سے مزید پریشان کن نہ بنائے۔ وہ تو پہلے ہی ”حالات کے مجرم“ ہیں اور زندگی ایک سزا کے طور پر کاٹ رہے ہیں، انہیں مزید آزمائش میں نہ ڈالا جائے۔
قفیل شفائی نے کیا خوب کہا ہے……
لکھنا میرے مزار کے کتبے پہ یہ حروف
مرحوم زندگی کی حراست میں مر گیا

مزید :

رائے -کالم -