عالمی یوم صارفین
آج عالمی یوم صارفین ہے۔یہ عالمی دن ہر سال پوری دنیا میں اور تمام ممالک میں منایا جاتا ہے۔ تمام اقوام عالم کے ان صارفین کو جن کو عام طور پر خریدار کہا جا تا ہے، آگاہی کے پروگرامز کے ذریعے خواب خرگوش سے جھنجوڑا جا تا ہے اور جگانے کی کوشش کی جاتی ہے……”ہر وہ شخص جو کسی بھی شے یا کسی بھی طرح کی خدمات کا خریدار ہوتا ہے……اور اس کے بدلے میں کوئی رقم خرچ کرتا ہے،اسے صارف کہتے ہیں اور صارف کی جمع صارفین ہے“…… ہم آج صارفین کا دن اس لئے مناتے ہیں کہ ہر طرح کے خریدار،یعنی صارف کو اس بات کا احساس اور آگاہی ہوجائے کہ وہ اگر کسی شے کا صارف ہے یا خریدار ہے تو وہ اپنے بطور صارف حقوق جان لے۔وہ تمام حقوق کون کون سے ہیں؟اس سے وہ آشنا ہو جائے اور ان حقوق کو حاصل کرنے کے طریقے جان لے،پھر ان کو حاصل کرکے اپنی زندگی کو بامقصد اور مفید بنا سکے۔ اپنے گھر کے کچن کو بحال کر سکے۔
معزز قارئین! پچھلے اڑھائی سال میں حالات کی گھمبیرتا نے عام شہری کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے اور لوگ بدحالی کی انتہا کو پہنچ چکے ہیں۔ پہلے پہل جب پورے سال میں بارہ یا تیرہ خود کشیاں ہوا کرتی تھیں تو اس کے برعکس آج ہر روز 20، 20 خودکشیاں اور خود سوزیاں ہورہی ہیں۔ آج ہر روز ہر دن اور ہر طرف قتل و غارت ہو رہی ہے۔والدین بچوں کو فروخت کرنے کے لئے کسی نہ کسی چوک میں آئے ہوتے ہیں۔والدین اپنے محبوب بچوں کو چند روپوں کی خاطر کسی سیٹھ کے گھرفروخت کر رہے ہوتے ہیں۔مائیں اپنے لخت جگر بچوں کو آگ لگاکر اپنے ہاتھ سے جلا رہی ہوتی ہیں۔ باپ اپنے بچوں کو خود گولیوں سے بھون رہے ہیں۔ہمارے ایڈیٹر،رپورٹر دیگر کالم نگار اور دانشور جب کسی خود کشی کی رپورٹنگ کرتے ہیں تو وجہ یہ بتاتے ہیں کہ گھریلو ناچاقی کی وجہ سے کسی نے خودکشی کر لی اور کسی نے ماں باپ کی ڈانٹ کے بعد خودکشی کر لی۔
جب وہ قلمکار کسی خودکشی،کسی خود سوزی یا گھریلو ناچاقی،کسی قتل و غارت،کسی بھی طرح کے جرائم اور ماں باپ کی اپنی اولاد کے ہاتھوں قتل جیسی وارداتوں کو اپنی سرخیوں اور خبروں کا حصہ بناتے ہیں تو وہ یہ کیوں نہیں لکھتے کہ یہ آج کی خودکشی مہنگائی او رملاوٹ، نقلی ادویات کی وجہ سے ہوئی ہے۔وہ کیوں نہیں لکھتے کہ آج کسی گھر میں کسی عورت کے خودسوزی کرنے کا واقعہ اس لئے ہوا کہ گھر میں حددرجہ مہنگائی کی وجہ سے بڑھ جانے والی غربت کی خرابیوں کی وجہ سے ہمیشہ گھریلو لڑائیاں ہوا کرتی ہیں۔ وہ کیوں نہیں لکھتے کہ آج ماں نے اپنے دونوں بچوں کو جلا دیا وہ مہنگائی اور صارفین سے متعلقہ اتنی پیچیدہ قسم کی خرابیوں کا ہی نتیجہ تھا۔ مہنگائی اور صارفین سے متعلقہ خرابیوں نے اتنی پیچیدگی اختیار کر لی کہ گھریلو بجٹ متاثر ہو گیا اور تمام اشیاء صارفین کی پہنچ سے انتہائی زیادہ ہو گئی تھیں کہ شو ہر بے چارہ کیا کرتا ان بچوں کا باپ کیا کر تا جو پندرہ ہزارکی تنخوامیں ان چیزوں کو نہیں خرید سکتا تھا۔ میرے
معزز قارئیں یہ وہی چیزیں ہیں،یہ وہی گھریلو استعمال میں ہونے والی کچن کی اشیاء، سبزیاں دالیں ہوتی ہیں،پورے کا پورا راشن جو کبھی صرف دو تین ہزارمیں پورے مہینے کے لئے آجایا کرتا تھا، وہ معلوم ہے آج کہا ں سے کہاں تک پہنچ چکا ہے۔سوئے ہوئے دِل و ماغ کے مالک صارفین! وہ آج پچاس ہزار تک پہنچ چکا ہے۔یہ وہ بجٹ ہے جو صرف گھریلو اشیا ئے ضروریہ اور کھانے پینے کی اشیاء کا ہے اور جو سکولوں کی فیس ہیں بچوں کے ٹرانسپورٹ کا خرچ ہے، بجلی اور سوئی گیس کے بل ہیں،واسا کا بل ہے۔ اس کی تو بات ہی نہیں کی گئی، اب تک مہینے کے لئے بجٹ ایک لاکھ سے اوپر تجاوز کر رہا ہے۔ ایسے میں ہماری گھریلونا چاقیاں ہوں گی یا نہیں ہوں گی۔ کیوں ماں بچوں سے نہ لڑے اور کیوں نہ بیگم اپنے شوہر کا احترام کرنا ہی چھوڑ دے اور اس سے روزانہ لڑنے جھگڑنے لگ جائے اور کیوں نہ بچے بلک بلک کر سو جائیں۔