خدا نہ کرے…… خدا نہ کرے……
موسم تبدیل ہو رہا ہے سردی اختتام کو پہنچی اور گرمی کا آغاز ہو گیا،سیاسی موسم بھی اس کے ساتھ ہی گرم ہو گیا۔ یلغاروں کا موسم آن پہنچا۔ مولانا فضل الرحمن اسلام آباد پر یلغار کرنے پہنچ چکے۔ مریم اور حمزہ راستے میں ہیں اور عمرانی یلغار تو طوفانی ہے۔ کبھی یہاں کبھی وہاں۔ انہوں نے تو حکمرانی کا نیا انداز متعارف کرا دیا ہے۔ آئینی اور قانونی طور پر تو وہ وزیر اعظم ہیں لیکن اپنے اندازِ بیان سے اپوزیشن لیڈر دکھائی دیتے ہیں۔ حریفوں کو رگیدتے چلے جا رہے ہیں وہ مسند اقتدار پر ہیں لیکن ہمہ وقت تیغ بدست میدانِ جنگ میں دکھائی دیتے ہیں۔ اپنوں کے لئے ان میں خوئے دلنوازی کی کمی اور دوسروں کے لئے بد زبانی وافر پائی جاتی ہے۔ پونے چار سال کے اقتدار نے بھی ان کے اطوار نہیں بدلے انہیں شائد ابھی تک پتہ نہیں چلا کہ وہ وزیر اعظم ہیں حکمران ہیں۔ اپوزیشن لیڈر نہیں پریڈ گراؤنڈ کا جلسہ کامیاب ہی نہیں کپتانی زبان میں تاریخی بھی تھا۔ ابھی یہ طے ہونا باقی ہے کہ 30 اکتوبر 2011ء کا مینارِ پاکستان والا جلسہ بڑا تھا یا 7 مارچ 2022ء کا پریڈ گراؤنڈ والا جلسہ بڑا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں جلسوں کے معاملے میں عمران خان کا مقابلہ خود عمران خان سے ہے۔ وہ بڑے جلسے کا ریکارڈ بناتے ہیں اور پھر خود ہی اسے توڑتے ہیں۔ مانسہرہ کا جلسہ ہو یا کمالیے کا عوام ہر جگہ کپتان کو دیکھنے اور سننے کے لےء امڈ آئے۔ مقابلتاً ان چھوٹے شہروں کے بڑے جلسوں نے ثابت کر دیا کہ خان جب چاہے عوام کا ہجوم اکٹھا کر سکتا ہے۔ گزشتہ دو تین سال میں مہنگائی اور بیروزگاری نے جس طرح عوام کو رگیدا ہے اس سے خیال یہ تھا کہ اب پی ٹی آئی قیادت عوام کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہی۔
حکمران جب بھی ایوانوں یا محلات سے باہر نکلیں گے عوامی رد عمل کا سامنا کریں گے۔ یہ بھی عام تاثر تھا کہ طرز حکمرانی نے عمران کی مقبولیت گرا دی ہے۔ بعض مستند اداروں کے سروے بھی کہہ رہے تھے کہ اب وہ عوام کے محبوب ترین اور مقبول ترین نہیں رہے اور یہ کہ آئندہ الیکشن ان کے لئے ڈراؤنا خواب بننے جا رہا ہے۔ اس دوران ہونے والے ضمنی انتخابات نے بھی اس تاثر کو مستحکم کیا۔ اپوزیشن یہ صورتحال دیکھ کر چڑھ دوڑی۔ تحریک عدم اعتماد قومی اسمبلی میں جمع کرا دی۔ حکومتی اور حلیف ارکان سے رابطے بڑھا دیئے یوں لگا کہ ”دل کا جانا ٹھہر گیا ہے صبح گیا یا شام گیا“ اتحادی مشکوک ہو گئے اور کچھ انصافی ارکان قومی اسمبلی ڈانواں ڈول ہو گئے۔ کپتان اور ان کی ٹیم کے حالات دگرگوں دکھائی دینے لگے۔ ایسے میں کپتان نے بیک فٹ پر جا کر دفاعی کھیل کھیلنے کی بجائے حریفوں پر حملہ آور ہونے کا فیصلہ کیا حریف ایوان کے اندر نقب زن تھے تو کپتان نے باہر میدان سجا لئے۔ اس جارحانہ اننگز کا چھکا پریڈ گراؤنڈ میں لگانے کا فیصلہ کیا گیا۔ اتنے بڑے گراؤنڈ کو بھرنا مشکل دکھائی دے رہا تھا مگر کپتان کے متوالوں نے یہ بھی کر دکھایا۔ تین چار دن کی تیاری سے ملک کے کونے کونے سے کارکنوں کو متحرک کر کے دارالحکومت پہنچانا آسان کام نہیں تھا۔ اس سے کارکنوں کا جذبہ تو ایک بار پھر دکھائی دیا مگر اس سے بڑھ کر پارٹی کے فعال نیٹ ورک کا بھی پتہ چلا۔
کراچی سے مارگلہ ریلوے سٹیشن اسلام آباد تک ٹرینیں چلانا۔ گلگت بلتستان اور بلوچستان سے بسوں، ویگنوں کے ذریعے کارواں جلسہ گاہ تک پہنچانا ہزاروں بینروں، پرچموں اور لاکھوں سکارفوں کی فراہمی منظم تنظیم کی برق رفتاری کی آئینہ دار ہے۔ ڈیڑھ ڈیڑھ دو دو دن کی مسافت طے کر کے کئی کئی گھنٹے سے منتظر جم غفیر سے پونے دو گھنٹے طویل خطاب کے دوران شرکاء کا جوش و خروش دیدنی تھا۔ خان کے ایک ایک جملے پر کارکنوں کا رد عمل ان کے انتھک اور تروتازہ ہونے کا مظہر تھا۔ غالباً یہ خان کی زندگی کا طویل ترین اور مؤثر ترین خطاب تھا۔ خان کے چاہنے والوں نے ایک بار پھر پہلے سے بھی بڑھ کر خان کو سرخرو کر دیا۔ روز بروز بڑھی مایوسی کی فضا میں اتنا جاندار مظاہرہ مدتوں یاد رکھا جانے لگا۔ بھٹو کے جلسوں کے بعد عمران خان بھی بڑے اور پرجوش جلسوں کی سیریز چلانے پر قادر نظر آتے ہیں۔ پریڈ گراؤنڈ میں انہوں نے یوں بھی بھٹو کی یاد تازہ کی کہ انہیں خود دار لیڈر قرار دے کر خراج تحسین پیش کیا اور جیالوں کو اپنی طرف راغب کرنے کی کوشش کی۔ ان کا پیغام یہ تھا کہ بھٹو عظیم لیڈر تھا جس نے مصالحت کی بجائے پھانسی چڑھنا قبول کر لیا مگر اس کے داماد زرداری اور نواسے بلاول نے اس کے قاتلوں سے دوستی کر لی ہے یہ بھٹو کے حقیقی وارث نہیں ہیں۔ ان کا ساتھ نہ دو کپتان نے بھٹو کے ہی انداز میں جیب سے ایک کاغذ نکال کر لہرایا اور کہا کہ انہیں ”ایبسو لیوٹلی ناٹ“ کہنے پر دھمکی آمیز خط آیا ہے اس کے ساتھ ہی امریکہ اور مغربی و یورپی ممالک کو متنبہ کیا کہ دوستی سب سے کریں گے غلامی کسی کی نہیں کریں گے۔
یاد رہے کہ 1977ء میں جب انتخابی دھاندلی کے خلاف شروع کی گئی پاکستان قومی اتحاد (پی این اے) کی تحریک زوروں پر تھی۔ حالات بے قابو ہو چکے تھے۔ راولپنڈی میں بھی کرفیو لگ چکا تھا تو وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو ایک جیپ پر سوار ہو کر صدر بازار راولپنڈی پہنچ گئے۔ وہاں دو تین درجن افراد جمع ہو گئے جن میں سے بیشتر سرکاری ملازم تھے ان سے خطاب کرتے ہوئے بھٹو نے امریکہ کو سفید ہاتھی قرار دیتے ہوئے للکارا۔ جیب سے ایک کاغذ نکال کر لہرایا اور بتایا کہ انہیں امریکہ کی جانب سے دھمکی آمیز خط ملا ہے جس میں خطرناک انجام سے ڈرایا گیا ہے۔ مگر وہ ڈرنے والے نہیں۔ اسی تحریک کے دوران بھٹو نے یہ الزام بھی لگایا کہ پی این اے کی تحریک چلانے کے لئے باہر سے ڈالر آ رہے ہیں۔ پھر جو ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ پورا ملک جامد ہو گیا۔ تو فوج نے عوام پر گولی چلانے سے انکار کر دیا حکومت اور اپوزیشن کے مابین مذاکرات ہوئے۔ حکومت اور اپوزیشن کے مابین مذاکرات ہوئے جب اتفاق رائے ہو گیا تو معاہدے پر دستخط کرنے کی بجائے بھٹو مرحوم غیر ملکی دورے پر چلے گئے۔ واپس آئے تو اگلے ہی دن فوج نے انہیں معذول کر کے اقتدار سنبھال لیا۔ ان پر سابق ایم این اے احمد رضا قصوری کے والد نواب محمد احمد خان کو قتل کرانے کی سازش کے الزام میں مقدمہ چلا۔
لاہور ہائی کورٹ نے سزائے موت سنائی۔ سپریم کورٹ میں اپیل دائر ہوئی مگر سزا برقرار رہی۔ بھٹو کی پہلی بیوی امیر بیگم نے صدر جنرل ضیاء الحق سے رحم کی اپیل کی جو مسترد کر دی گئی اور 4 اپریل 1979ء کو علی الصبح بھٹو کو راولپنڈی جیل میں پھانسی دیدی گئی۔ ان کی میت ہیلی کاپٹر پر گڑھی خدا بخش پہنچائی گئی جہاں درجن بھر افراد نے نماز جنازہ کے بعد انہیں سپرد خاک کر دیا۔ یوں اپنے وقت کا مقبول ترین رہنما منوں مٹی تلے آسودہ ہو گیا۔ بھٹو کے نقش قدم پر چلنے کی آرزو رکھنے والوں کو یہ منظر بھی ذہن میں رکھنا چاہئے۔ اگرچہ بھٹو کی طرح عمران پر قتل کی کوئی ایف آئی آر نہیں ہے مگر غداری کا الزام تو کسی بھی وقت کسی پر بھی لگایا جا سکتا ہے۔ پھر جب عدالت بھی اپنی ہو، وکیل بھی اپنا، گولی بھی گواہ بھی اپنے ہوں اور شہادتیں بھی تیار تو سمری ٹرائل میں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ کچھ بھی کیا جا سکتا ہے۔ اللہ ان کے منہ میں خاک ڈالے کہ جو یہ کہہ رے ہیں کہ جلسہ تو اخیر تھا۔ کہیں آخری نہ ہو۔ بات عدم اعتماد تک ہی رہے کہ اقتدار سے جانے والا حیات ہو تو واپس بھی آ سکتا ہے۔