اسرائیل کو لگام کون ڈالے گا
حال ہی میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے غزہ میں فوری جنگ بندی کی قرارداد منظور کرتے ہوئے تمام یرغمالیوں کی فوری اور غیر مشروط رہائی کا مطالبہ کیا۔ یہ قرارداد سلامتی کونسل کے 10 رکن ممالک نے پیش کی تھی اور سلامتی کونسل کے 15 میں سے 14 ارکان نے قرارداد کی حمایت کی۔ حیرت اور اچنبھے والی بات یہ ہے کہ امریکہ نے اس قرارداد پر (پہلی بار) ووٹنگ میں حصہ نہیں لیایوں یہ قرارداد منظور کر لی گئی۔ ابھی چند روز پہلے ہی امریکہ نے بھی غزہ میں جنگ بندی کی ایک قرارداد پیش کی تھی جو روس اور چین نے ویٹو کر دی تھی۔ تب اقوام متحدہ میں روس کے سفیر ویسلی نبینزیا نے ووٹنگ سے پہلے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ یہ (امریکہ کی) قرارداد ”انتہائی سیاسی“ ہے اور اس میں اسرائیل کے لیے غزہ کی پٹی کے جنوبی حصے میں واقع شہر رفح میں فوجی آپریشن شروع کرنے کے لیے ایک موثر چھوٹ موجود ہے، جہاں غزہ کے لاکھوں باشندے اسرائیلی حملوں سے بچنے کے لیے عارضی خیموں میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ فلسطینی وزارتِ صحت کے مطابق 7 اکتوبر 2023ء کے بعد غزہ میں اسرائیلی حملوں میں شہید ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد 32 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔
سلامتی کونسل میں اسرائیل کے خلاف قرارداد کو ویٹو نہ کرنے پر اسرائیل امریکہ سے ناراض ہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے افسوس کے ساتھ کہا ہے کہ امریکہ نے اس نئی قرارداد کو ویٹو نہیں کیا، جس میں ایسی جنگ بندی کا مطالبہ کیا گیا، جو یرغمالیوں کی رہائی پر منحصر نہیں‘ یہ جنگ کے آغاز سے سلامتی کونسل میں امریکہ کے مستقل موقف سے الگ موقف ہے۔
بہرحال اسرائیل کے خلاف قرارداد کی منظوری اچھا اقدام ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اس پر عمل درآمد کون کرائے گا؟ یہ سوال اس لیے سامنے آیا ہے کہ اسرائیل نے اقوام متحدہ کی جنگ بندی قرارداد کو ہوا میں اڑا دیا ہے اور غزہ پر حملے جاری رکھے ہوئے ہیں‘ بلکہ اسرائیلی وزیر دفاع نے فلسطینیوں کے خلاف جارحیت روکنے سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ کو بتا دیں گے‘ اسرائیل حماس کے خلاف ہر جگہ کارروائی کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیلی یرغمالیوں کی واپسی تک غزہ کی جنگ روکنے کی اخلاقی ذمہ داری ہم پر نہیں، حماس کے خلاف اس جگہ بھی کارروائی کریں گے جہاں اب تک نہیں کی۔
یہ پہلا موقع نہیں کہ اسرائیل کی جانب سے اقوام متحدہ کی قرارداد کو یوں مسترد کیا گیا ہے۔ یہ سلسلہ گذشتہ سات دہائیوں سے جاری ہے۔ اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر جب بھی اسرائیل کے خلاف قرارداد لائی گئی امریکہ نے اسے ویٹو کر دیا اور اگر قرارداد کبھی منظور ہو گئی تو اسرائیل نے اسے مسترد کر دیا۔ لیکن اسرائیل اب وہ ضدی بچہ بن چکا ہے جس پر کسی الزام‘ کسی سرزنش‘ کسی جھڑکی کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ یہ سب امریکہ اور اس کے حامی مغربی ممالک کی جانب سے سات دہائیوں تک روا رکھی گئی جانبداری کا نتیجہ ہے کہ آج اسرائیل امریکہ کو ہی آنکھیں دکھا رہا ہے۔ یہ آنکھیں اس حقیقت کے باوجود دکھائی جا رہی ہیں کہ امریکہ نے اپنا ویٹو کا حق سب سے زیادہ اسرائیل کے حق میں استعمال کیا۔ 1945ء سے اگست 2023ء تک امریکہ نے 82 مرتبہ اپنا ویٹو کا حق استعمال کیا‘ اور ان میں 34 مرتبہ یہ حق سلامتی کونسل میں اسرائیل کی مذمت پر مبنی قراردادیں روکنے کے لیے کیا گیا۔ یاد رہے کہ ساٹھ دہائیوں سے زیادہ عرصے میں اسرائیل کے حق میں کل 36 بار ویٹو کا حق استعمال کیا گیا‘ اور 36 میں سے 34 بار یہ حق امریکہ نے استعمال کیا۔ دراصل امریکہ نے اسرائیل کے حق میں کل46 بار ویٹو کی طاقت استعمال کی‘ لیکن ان میں سے 34 بار اسرائیل فلسطین تنازع کے حوالے سے ویٹو کیا گیا۔
عالمی برادری کے فیصلوں کے حوالے سے اسرائیلی ہٹ دھرمی کا ایک وسیع اور طویل ٹریک ریکارڈ ہے۔ 2015ء سے 2023ء کے اختتام تک اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اسرائیل کے خلاف 140 قراردادیں منظور کیں جبکہ اسی عرصے کے دوران اس عالمی ادارے نے دنیا کے دیگر متعدد ممالک کے خلاف کل 68 قراردادیں منظور کی تھیں۔ اسی طرح 1967ء سے 1989ء تک اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے 131 ایسی قراردادیں منظور کیں‘ جن میں عرب اسرائیل تنازع پر فوکس کیا گیا تھا‘ لیکن ان میں سے کسی پر عمل درآمد نہیں ہوا۔ سوال یہ ہے کہ اس طرح قراردادیں منظور کرنے کا کیا فائدہ اگر ان پر عمل درآمد ہی نہیں ہونا۔ اقوام متحدہ میں فلسطینی انتظامیہ کے سفیر ریاض المنصور نے کہا کہ اسرائیل کی طرف سے وحشیانہ قتل عام اس بات کی گواہی ہے کہ سلامتی کونسل مفلوج ہو کر رہ گئی ہے اور جب تک ویٹو کے استعمال کا سلسلہ جاری ہے فلسطینیوں کو ان کی زندگیوں سے اسی طرح محروم کیا جاتا رہے گا۔ سوال یہ ہے کہ اب جبکہ امریکہ ویٹو کا حق استعمال نہیں کیا اور فوری اور غیر مشروط جنگ بندی کی قرارداد منظور ہو چکی ہے تو اسرائیل پر اس کا کتنا اثر ہوا ہے؟۔ اقوام متحدہ اور عالمی برادری سے سوال یہ ہے کہ اگر ایران‘ شام‘ عراق اور دوسرے ممالک کو راہ راست پر لانے یا ان سے اپنی مرضی کے مطالبات منوانے کے لیے ان پر اقتصادی پابندیاں عائد ہو سکتی ہیں تو کیاسلامتی کونسل کی قرارداد کو تسلیم نہ کرنے پر ایسی ہی پابندیاں اسرائیل پربھی عائد ہوں گی؟