نئے چینی ریلوے انجن: حقائق کے آئینے میں
پاکستان ریلویز کے لئے چین سے آنے والے نئے لوکوموٹیوز خبروں اور تبصروں کا موضوع بنے ہوئے ہیں۔ بیشتر خبریں اور تبصرے حقائق سے لاعلمی کا نتیجہ ہیں۔ حقیقتِ حال کے اظہار کے لئے چند معروضات پیشِ خدمت ہیں۔پاکستان ریلویز کے لئے چینی لوکوموٹیوز کی خریداری کی کہانی جنرل جاوید اشرف قاضی کی وزارتِ ریلوے کے دور سے شروع ہوتی ہے جب چین سے ڈالیان کمپنی کے بنے ہوئے 69لوکوموٹیوخریدے گئے۔ یہ لوکوموٹیو ڈانگ فانگ کمپنی نے سپلائی کئے تھے اور معاہدہ بھی اسی سے ہوا تھا۔ بدقسمتی سے یہ انجن بے کار ثابت ہوئے لیکن اسی دوران اس کمپنی کے اسی طرح کے مزید 75لوکوموٹیوز کی خریداری کا معاہدہ طے پا چکا تھا۔ اس کے لئے 15% ایڈوانس ادائیگی بھی کردی گئی تھی جو ڈیڑھ ارب روپے سے زائد تھی.... (یہ جناب غلام احمد بلور کی وزارت کا دور تھا)
گزشتہ سال جون میں نئی حکومت میں خواجہ سعد رفیق وزیر ریلوے بنے تو ان کے علم میں 75 لوکوموٹیوز کی خریداری کا معاہدہ لایا گیا۔ ریلوے کے سینئر مکینکل انجینئرز اور دیگر اعلیٰ افسران نے ان لوکوموٹیوز کے معیار اور کارکردگی پر سخت عدم اطمینان کا اظہار کیا اور بتایا کہ اس سے قبل خریدے گئے 69لوکوموٹیوز کس انجام سے دوچار ہوئے ہیں، چنانچہ یہ سودا منسوخ اور ڈانگ فانگ کو بلیک لسٹ کر دیا گیا۔ سودے کی منسوخی کے باوجود ایڈوانس ادا کی گئی رقم واپس لینے میں کامیاب رہی ۔ بلور صاحب کے دورمیں چین سے 58لوکوموٹیوز کی خریداری کا آرڈر دیا جا چکا تھا(ان میں نصف 2000ہارس پاورکے اور باقی نصف3000ہارس پاور کے تھے) لیکن اس بار یہ ایک مختلف کمپنی تھی ، CSR Ziyang(چائنا سدرن کمپنی ژیانگ)، جسے 15% ایڈوانس ادائیگی کی جا چکی تھی(ایک ارب ستر کروڑ روپے)۔ اب اس کنٹریکٹ کا مستقبل نئی وزارتِ ریلوے کے ہاتھ میں تھا۔ اس کے لئے ماہرین سے مشاورت کا وسیع تر سلسلہ شروع ہوا۔ ریلویز کے سینئر مکینکل انجینئرز کے اجلاس ہوئے جو 8سے 10گھنٹوں پر محیط ہوتے تھے ۔ چیئر پرسن اور جنرل منیجر آپریشنز سمیت دیگر اعلیٰ حکام بھی موجود ہوتے، وزیر ریلوے بھی بیشتر وقت موجود رہے۔ CSR ژیانگ کے نمائندے بھی شریک ہوئے۔
ان لوکوموٹیوز میں انجن، امریکہ کی معروف کمپنی کیٹر پلر کا استعمال ہوتا ہے ، چنانچہ اس کے نمائندوں کو بھی بلایا گیا۔ ان میٹنگز میں ان لوکوموٹیوز کے حوالے سے بعض انجینئرز کی طرف سے تحفظات سامنے آئے۔ انہیں چین بھجوایا گیا تاکہ قصہ¿ زمین برسرِ زمین کے مصداق یہ خود اپنی آنکھوں سے حقائق کا جائزہ لیں۔ یہ تین گروپوں میں 14افراد تھے جنہوں نے چین کا دورہ کیا۔ وہ ان لوکوموٹیوز کے متعلق اطمینان کے ساتھ واپس آئے۔ ریلویز کو نئے لوکوموٹیوز کی اشد ضرورت بھی تھی، چنانچہ اس سودے کو قائم رکھنے کا فیصلہ ہوا( اور اتفاق ِ رائے سے ہوا) ۔دُنیا میں کوئی بھی کمپنی لوکوموٹیوز کے سارے آلات اور پرزہ جات خود نہیں بناتی، بعض چیزیں دوسری کمپنیوں کی استعمال کی جاتی ہیں۔ چنانچہ اِن لوکوموٹیوز میں بھی انجن، امریکہ کی مشہور کمپنی کیٹر پلر کا ہے، ایئر کمپریسر بھی امریکن کمپنی (Webtec) کا ہے۔ بریکنگ سسٹم امریکن کمپنی Westinghouse کا ہے۔ الیکٹرانک سسٹم کا اہم ترین پرزہ IGBT جرمنی کا بنا ہوا ہے۔
1966 میں قائم ہونے والی CSR Ziyang ، چائنا ریلوے لوکوموٹیو مینوفیکچرنگ کمپنیز میں ممتاز مقام کی حامل ہے۔ چین کی مین لائن ریلوے میں اس کے 5000 لوکوموٹیوزبروئے کار ہیں(ا ن میں 4500ہارس پاور تک ڈیزل الیکٹرک لوکوموٹیوزاور 6000 ہارس پاور تک الیکٹرک لوکوموٹیوزشامل ہیں۔یہ کمپنی 600 لوکوموٹیوز دُنیا کے 23ممالک کو فروخت کرچکی ہے، اِن میں آسٹریلیا، جنوبی افریقہ، ملائیشیا، ترکی ، قازقستان، ترکمانستان اور سوڈان شامل ہیں۔ مکمل طور پر کمپیوٹرائزڈ یہ لوکوموٹیوز پہلی بار پاکستان ریلویز میں شامل ہوئے ہیں۔ اس کے لئے 50 افراد ایک مہینے کی ٹریننگ کے لئے چین گئے۔ ان میں مکینکل انجینئر، فورمین مکینکل ، فورمین الیکٹریکل، ڈرائیور،انسٹرکٹر، کمپیوٹر پروگرامر اور ٹیکنیشن شامل تھے۔ جبکہ مکینکل انجینئرز، فورمین الیکٹرانک اور ٹیکنیشن نے ان لوکوموٹیوز کے 14بارمفصل اور مکمل معائنے کئے ۔ یہ لوکوموٹیوز 2سال کی وارنٹی میں ہیں، اس دوران خراب کل پرزوں کی مرمت یا تبدیلی (کسی قیمت کے بغیر ) CSR ژیانگ کی ذمہ داری ہوگی۔مختلف آلات کے حوالے سے یہ ضمانت 3سے 5سال تک ہے۔
اب تک 14لوکوموٹیوز آچکے ہیں، 9لوکوموٹیو جون کے پہلے ہفتے آجائیں گے، 20لوکوموٹیوز جولائی میں اور باقی ماندہ ستمبر تک پہنچ جائیں گے۔ یہ بات درست نہیں کہ لوکوموٹیو پہلے ہی سفر میں ”فیل “ ہوگئے۔ 25اپریل سے 22مئی تک 143 مختلف گاڑیوں کے لئے یہ لوکوموٹیوز استعمال ہوئے، ان میں لاہور۔ کراچی۔ لاہور اور لاہور۔ روہڑی۔ لاہور کی 129مسافر گاڑیاں اور لاہور۔ کراچی ۔ لاہور کی 14مال گاڑیاں شامل ہیں۔جو دو تین لوکوموٹیوز خبروں کا موضوع بنے ، وہ ”فیل“ نہیں ہوئے تھے،معمولی نوعیت کے کچھ ٹیکنیکل مسائل سے دوچار ہوئے ۔فنی ماہرین اس حقیقت کو سمجھتے ہیں کہ نئی ٹیکنالوجی کی حامل کسی بھی چیز میں ابتدا میں ایسے چھوٹے موٹے مسائل پیش آتے رہتے ہیں۔
امریکن لوکوموٹیو AGE-30 (جنہیں بلیو ٹائیگر کہا جاتا ہے) دُنیا میں بہترین لوکوموٹیوز سمجھے جاتے ہیں۔ میاں نواز شریف صاحب کی دوسری حکومت میں یہ 30لوکوموٹیوز امریکہ سے خریدے گئے ۔ ابتدا میں ان میں بھی کچھ تکنیکی مسائل پیدا ہوئے۔ ہٹاچی لوکوموٹیوز کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہوا، اور کچھ عرصے بعد یہ مسائل بھی ختم ہوگئے۔ وارنٹی کے عرصے کے دوران چینی انجینئر پاکستان میں موجود رہیں گے اور وہی کسی خرابی کی اصلاح کے ذمہ دار ہوں گے۔ جدید ترین کمپیوٹرائزڈ ٹیکنالوجی کے حامل ان لوکوموٹیوز میں کچھ مسائل ہمارے ڈرائیوروں اور دیگر عملے کی جدید ٹیکنالوجی میں ضروری مہارت پر عبور نہ ہونے کے باعث پیدا ہوجاتے ہیںیہ معمول کا مسئلہ ہے جس پر قابو پایا جارہا ہے۔ چین جا کر ایک ماہ کی ٹریننگ لینے والوں میں تین ڈرائیورانسٹرکٹر بھی شامل تھے ، جنہوں نے واپس آکر باقی ڈرائیوروں کو تربیت دی، اب تک 165ڈرائیور تربیت حاصل کر چکے ہیں، مزید کلاسیں جاری ہیں۔ چینی ماہرین کے ساتھ بسا اوقات زبان کے حوالے سے بھی مسائل پیدا ہوجاتے ہیں اور ضروری ابلاغ(پراپر کمیونیکیشن) نہیں ہوپاتا۔ اس کے لئے چین سے 3ترجمان آرہے ہیں۔ قصہ¿ المختصر یہ کہ اِن لوکوموٹیوز میں اگر کوئی مسئلہ پیدا ہوجاتا ہے تو یہ معمول کی بات ہے۔ اُمید ہے کہ چند ہفتوں کے اندر یہ مسائل ختم ہوجائیں گے۔ چین سے آمدہ یہ لوکوموٹیوز پاکستان ریلویز کے لئے ایک مفید اور قابلِ قدر اثاثہ ثابت ہوں گے، انشاءاللہ۔