جعلی ڈگری اور ملکی وقار
کچھ سال پہلے بلوچستان کے وزیر اعلیٰ نواب اسلم رئیسانی کا ایک جملہ بہت مشہور ہوا تھا کہ ’’ڈگری ڈگری ہوتی ہے، اصلی ہو یا نقلی‘‘ خیر، نواب صاحب تو ایک غیر سنجیدہ اور بادشاہ ٹائپ آدمی تھے۔ ان کی وزارتِ اعلیٰ چلی گئی، لیکن ان کا یہ فقرہ ایک تاریخی ضرب المثل بن کر آج بھی لوگوں کو محظوظ کرتا ہے۔ ان دنوں جعلی اور اصلی ڈگریوں کا ہماری سیاست میں بہت ذکر رہتا تھا، کیونکہ جنرل پرویز مشرف کے بنائے ہوئے قانون کے تحت اسمبلی کا الیکشن لڑنے کے لئے گریجویشن کی شرط رکھ دی گئی تھی۔ سیاست دانوں کی ایک بڑی تعداد اس شرط پر پورا نہیں اترتی تھی چنانچہ کچھ نے تو الیکشن سے کنارہ کشی اختیار کرتے ہوئے اپنے خاندان کے دوسرے گریجویٹ لوگوں کو الیکشن لڑانا شروع کر دیا تھا، لیکن کچھ نے جعلسازی کا سہارا لیتے ہوئے جعلی ڈگریوں پر الیکشن میں حصہ لیا۔آئے روز جعلی ڈگریاں عدالتوں میں چیلنج ہوتیں اور ایک تماشا سا لگا رہتا۔
اصلی اور جعلی ڈگریوں کے اسی پنگ پانگ کے دوران بلوچستان کے وزیر اعلیٰ نواب اسلم رئیسانی نے اپنا یہ جملہ کچھ ایسے انداز میں کہا کہ لوگ آج تک اس جملے کی شگفتی سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ پھر ایک وقت آیا کہ گریجویشن کی شرط ختم ہو گئی اور ہمارے یہاں جعلی ڈگری کی بحث بھی آہستہ آہستہ پس منظر میں چلی گئی۔ قریب تھا کہ پاکستان میں لوگ جعلی ڈگری کی باتوں کو بھول جاتے کہ اچانک ایک دن یہ بحث طوفانی انداز میں دوبارہ سے ملکی افق پر چھا گئی۔ 18 مئی کو امریکی اخبار ’’نیو یارک ٹائمز‘‘ نے ایک سٹوری چھاپی کہ پاکستان کی ایک آئی ٹی کمپنی ایگزیکٹ بہت بڑے پیمانے پر جعلی ڈگریوں کے کاروبار میں ملوث ہے۔ اس خبر کا چھپنا تھا کہ پورا ملک ایک بڑے سونامی کی زد میں آ گیا جو دیکھتے ہی دیکھتے الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر چھا گیا اور آج بھی نارمل صورت حال کی طرف واپسی کا عمل شروع نہیں ہو سکا ۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ عالمی میڈیا میں جعلی ڈگریوں کا سکینڈل منظر عام پر آنے سے پاکستان کی بہت بدنامی ہو رہی ہے۔ مغربی اور بھارتی میڈیا پہلے ہی مختلف حوالوں سے پاکستان کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑا رہتا ہے اور ہماری کسی نہ کسی کمزوری کو اُچھالنے کے مواقع کی تلاش میں رہتے ہیں۔ جعلی ڈگری کا معاملہ بھی ایک ایسا معاملہ ہے جس سے ملک کی کافی بدنامی ہوئی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مذکورہ کمپنی کا یہ کاروبار طویل عرصے سے جاری تھا اور اس نے ہزاروں لوگوں کو جعلی ڈگریاں بیچ کر اربوں روپے کمائے۔ اس طوفانی ماحول میں پاکستان کے وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے نے خبر کی اشاعت کے بعد ایگزیکٹ کمپنی کے دفاتر پر چھاپے مارے اور بہت سے ملازمین کو حراست میں لے کر تفتیش شروع کر دی، اس کے علاوہ کمپنی کا ریکارڈ اور کمپیوٹر قبضے میں لے کر ان کا معائنہ کیا جا رہا ہے تاکہ اگر شواہد موجود ہیں تو انہیں اکٹھا کیا جا سکے۔ ظاہر ہے یہ ایک سنگین معاملہ ہے اور حکومت کو چاہئے کہ ایگزیکٹ کمپنی پر لگائے گئے الزامات کی بے لاگ تحقیقات کرے تاکہ اصل حقائق سامنے آسکیں۔جعلی ڈگریوں کے کاروبار کی کسی صورت میں بھی حمایت نہیں کی جا سکتی ا ور وہ بھی خاص طور پر اس لئے کہ اس سکینڈل سے پاکستان کی دنیا بھر میں بد نامی ہوئی ہے۔ حکومت کی طرف سے فوری ایکشن لینا قابل تعریف ہے، جس کے نتیجے میں ایف آئی اے نے وقت ضائع کئے بغیر پہلی ترجیح کے طور پر تحقیقات شروع کر دی ہیں۔
یہ سٹوری چھاپنے والے صحافی کے پس منظر کو بھی ملحوظ خاطر رکھا جائے کیونکہ دو سال قبل مئی 2013ء میں ڈیکلن والش کو ناپسندیدہ قرار دے کر پاکستان سے نکال دیا گیا تھا۔ اسی طرح اس صحافی کی ماضی میں بھی پاکستان اور اس کے حساس اداروں کے خلاف منفی رپورٹنگ کا جائزہ لینا چاہئے کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ ڈیکلن والش نے پاکستان سے اپنے بغض کا اظہار کیا ہو اور ایک چھوٹے معاملے کو بہت زیادہ بڑھا چڑھا کر بیان کیا ہو۔ ایگزیکٹ کمپنی پر ماضی میں بھی مختلف الزامات لگتے رہے ہیں، لیکن ان کی کبھی تحقیقات نہیں کروائی گئیں۔ اگر ان الزامات میں کوئی صداقت نہ ہو، تب بھی اس بات کا معلوم ہونا انتہائی ضروری ہے کہ اس اربوں کا کاروبار کرنے والی اس کمپنی کے ذرائع آمدنی کیا ہیں؟ ’’نیو یارک ٹائمز‘‘ اور ڈیکلن والش کی سٹوری غلط ہے تو پھر اس کے خلاف حکومت کی طرف سے بھی قانونی چارہ جوئی کی جائے، کیونکہ بہرحال اس سکینڈل سے ملکی وقار کو دھچکا لگا ہے۔ نواب اسلم رئیسانی کی بات ہنسی مذاق کی حد تک تو ٹھیک ہے، لیکن اگر ملکی وقار داؤ پر لگ جائے تو پھر معافی یا رعایت کی ہرگز کوئی گنجائش نہیں رہتی۔ جعلی ڈگری بے ایمانی ہوتی ہے اور اس کے ذمہ دار قانون کے مطابق سزا کی حق دارہیں۔