۔۔۔اور انقلاب نہیں آئے گا
مدتوں سے پاکستان میں سبز ، سرخ، لال، پیلے غرض ہر قسم کے انقلاب آنے کے نعرے بلند ہوتے رہے ہیں۔ پاکستان کے ہر بڑے شہر کی عمارتوں کی دیواروں پر آپ کو کسی نہ کسی قسم کے انقلاب کی نوید ضرور ملے گی۔ ہر نئے شہید کے خون سے نئے انقلاب کی امید جگانے کی کوشش کی جاتی ہے،مگربقول فیض احمد فیض خطرہ یہ ہے کہ یہ نظام ایسے ہی چلتا رہے گا۔ ایک دور میں تو لوگوں کو انقلاب سے اتنی زیادہ امیدیں وابستہ تھیں کہ ہر شہر میں آپ کو دو چار ایسے لوگ ضرور مل جاتے تھے جو اپنے نام کے ساتھ انقلابی یا باغی جیسے القابات لگاتے تھے، مگر اب ناموں میں انقلابیت کی بجائے جدیدیت زیادہ نظر آتی ہے۔ کچھ عرصہ قبل اناٹول لیوین کی کتاب ’’پاکستان اے ہارڈ کنٹری‘‘ نے خاصی مقبولیت حاصل کی تھی۔ اس کتاب میں ایک پاکستانی نوجوان نے مصنف کوبتایا ہے کہ پاکستان میں انقلاب نہیں آ سکتا، کیونکہ اگر کسی شخص کے پاس ملک کی تقدیر سنوارنے کا بہترین نسخہ بھی ہو تو بہت سے لوگوں کو یہ محض اس لئے پسند نہیں آئے گا کہ پیش کرنے والے کا تعلق کسی دوسری ذات برادری سے ہے۔1757ء میں پلاسی کی جنگ میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد انگریزوں نے پورے برصغیر پر حکمرانی کی منصوبہ بندی شروع کر دی تھی۔ ہندوستان کا معاشرہ ان کے لئے نیا تھا مگر انہوں نے سائنسی انداز میں اس کا تجزیہ کیا اور حکمرانی کے لئے متعدد ہتھکنڈے استعمال کئے۔ انگریزوں کی آمد سے پہلے ہی برصغیر میں ذات پات کا نظام موجود تھا اور ہندوؤں کی معاشرت پر اس کے گہرے اثرات تھے۔ مسلمانوں نے اس خطے کو اسلام کے نور سے منور کیا تھا اور مساجد میں محمود وایاز ایک ہی صف میں کھڑے نظر آتے تھے جو ہندؤوں کے لئے ایک منفرد مشاہدہ تھا مگر ہندو سے مسلمان ہونے والے اکثر لوگ کسی نہ کسی انداز میں ذات پات کے زیر اثر تھے۔ کچھ ذاتوں کا احترام کرنا فرض تھا تو کچھ کی تذلیل کرنے کی روایت تھی۔ انگریزوں نے برصغیر میں روشن خیالی کا نعرہ لگایا۔ انہوں نے اس خطے کو جدید تعلیم سے روشناس کرانے کے عزم کا اظہار کیا، مگر عملاً انہوں نے ذات برادری کے نظام کو اپنے اقتدار کے لئے استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔
چند سال قبل ماریہ مسرا کی ایک تحقیقی کتاب "Vishnu's Crowded Temple" لندن سے شائع ہوئی تھی۔ ماریہ آکسفورڈ یونیورسٹی میں ماڈرن ہسٹری کی لیکچرار ہیں۔ برطانوی ہندوستان ان کا پسندیدہ موضوع ہے۔ اس سے پہلے "Business, Race and Politics in British India" کے نام سے ان کی ایک کتاب منظر عام پر آ چکی ہے۔ اپنی کتاب میں ماریہ مسرا نے یہ چونکا دینے والی تحقیق پیش کی ہے کہ انگریزوں نے برصغیر کے ذات پات کے نظام کو اپنے اقتدار کو استحکام دینے کے لئے استعمال کیا۔ انگریز ہندو معاشرے میں برہمن کی اہمیت سے واقف تھے۔ انہوں نے برہمنوں اور تاجر پیشہ ذاتوں کو اپنا فطری حلیف سمجھا اور سب سے پہلے انہیں دکن سے لے کر مہاراشٹر تک مالیہ کی وصولی کے نظام کی تشکیل کے لئے استعمال کیا۔ انگریزوں نے برہمنوں کو ایک ایسا منفرد مقام دیا جو انہیں تاریخ میں اس سے پہلے کبھی نہیں ملا تھا۔ انگریزوں سے پہلے بہت سے مندر غیر برہمن ذاتوں کے افراد کے پاس تھے، بلکہ بعض مندروں کی انتظامیہ میں مسلمان بھی شامل ہوتے تھے، مگر انگریزوں نے مندر صرف برہمنوں کے سپرد کرنا شروع کر دیئے۔
برہمنوں کو انگریزوں کی صورت میں ایک ایسا سرپرست مل گیا تھا جو انہیں دوسرے طبقات پر بالادستی دلانا چاہتا تھا۔ انگریزوں نے برصغیر میں صرف برہمنوں کو ہی نہیں نوازا، بلکہ 1871ء میں پہلی مردم شماری کرائی۔ اس کے ذریعے برصغیر کے دور دراز دیہاتوں میں رہنے والے افراد کے متعلق اعداد و شمار اکٹھے کئے گئے۔ دیسی باشندوں کے لئے یہ ایک نیا تجربہ تھا کہ سرکاری طور پر ان کے مذہب، ذات، بچوں اور خاندان کے متعلق تفصیلات اکٹھی کی جا رہی تھیں۔ اس مردم شماری کے متعلق دیہات میں مختلف افواہوں نے گردش کرنا شروع کیا۔ اس میں ایک یہ بھی تھی کہ مردم شماری کا مقصد ہر گاؤں سے ایسی دو کنواری لڑکیوں کا انتخاب کرنا ہے، جنہیں برطانیہ بھجوایا جائے گا اور جو شاہی محل میں ہاتھ سے چلنے والا پنکھا چلائیں گی تاکہ ملکہ وکٹوریہ آرام کی نیند سو سکیں۔1871ء کی مردم شماری سے انگریزوں کے پاس ایسے اعداد و شمار اکٹھے ہو گئے، جن کی بنا پر انہوں نے اپنی پالیسیوں کو مزید موثر بنایا۔ انہوں نے مختلف ذات برادری کے لوگوں کو سرکاری ملازمت کے لئے موزوں اور ناموزوں قرار دینا شروع کر دیا۔
1880ء کے عشرے میں فوجی بھرتی کرنے والے افسروں کو ذات برادری کے متعلق ایک تفصیلی ہینڈبک فراہم کی گئی، جس میں انڈیا کی مختلف مارشل نسلوں کا ذکر کیا گیا تھا۔ اس میں بتایا گیا تھا کہ کس ذات برادری کے لوگ فوج کے لیے زیادہ مناسب ہیں۔ ان کی خصوصیات بیان کی گئی تھیں کہ وہ کس طرح فوج کے لئے بہترین سپاہی ثابت ہو سکتے ہیں۔ جہاں کچھ ذات برادری یا نسلوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو فوج کے لئے اثاثہ کہا گیا وہاں بنگالیوں کو فوج کے لئے ان فٹ قرار دے دیا گیا۔ بنگالیوں کو بتا دیا گیا کہ انہیں فوج میں نوکری نہیں دی جا سکتی۔ تاہم بعدازاں اس پالیسی میں تبدیلی بھی آئی اور تقسیم کے وقت بنگالی بڑی تعداد میں فوج کا حصہ تھے۔ ماریہ مسرا کے مطابق انگریزوں کی ذات پات کو ترجیح دینے کی پالیسی کے نتیجے میں پنجاب میں سکھ مت نے غیر معمولی فروغ حاصل کیا۔ انگریز سکھوں کو خالص مارشل نسل سمجھتے تھے۔ انہوں نے سکھوں کو فوجی بھرتی میں ترجیح دی۔
اس سرکاری پالیسی کی وجہ سے بہت سے ہندو خاندانوں نے بھی اپنے نام کے ساتھ سنگھ لکھنا شروع کر دیا، مگر انگریز اس معاملے میں بہت حساس تھے۔ انہوں نے سکھوں کو فوج میں بال نہ کٹوانے، خنجر رکھنے اور کڑا پہننے کی اجازت دی۔ فوجی بھرتی کرنے والے ایک افسر کے مطابق یہ برطانوی افسر تھے جنہوں نے سکھ مت کو اس کے پرانے معیار کے مطابق برقرار رکھا۔ فوج میں سکھوں کی غیر معمولی پذیرائی دیکھ کر بہت سے ہندوگھرانے بھی سکھ ہو گئے اور انہوں نے اپنے ناموں کے ساتھ سنگھ لکھنا شروع کر دیا اور وہ صورت سے سکھ نظر آنے لگے۔ انگریزوں نے جس طرح بہت سی ذات کے افراد کو سرکاری ملازمتوں کے ذریعے نوازا۔ اسی طرح اس نے بہت سی ذاتوں کے افراد کے لئے مستقل ذلت کا اہتمام کیا۔ 1871ء میں ہی پہلا کریمینل ٹرائبز ایکٹ (Criminal Tribes Act) نافذ ہوا تھا، جس کے ذریعے متعدد ذاتوں کے افراد کو خطرناک قرار دے دیا گیا۔ ان افراد کو یا تو نوکری نہیں ملتی تھی یا وہ صفائی کے ورکر کے طور پر کام کر سکتے تھے۔ انگریزوں نے جرائم پیشہ قبائل کی جو فہرست تیار کی اس میں خواجہ سراؤں کو بھی شامل کرنے کی سفارش کی گئی۔ دلیل یہ دی گئی کہ خواجہ سرا ایک ایسے گروہ کا حصہ ہیں، جو منظم طور پر جسم فروشی کرتا ہے۔
ماریہ مسرا کے مطابق انگریزوں کی برصغیر میں آمد سے پہلے شودروں کے ساتھ برا سلوک ضرور ہوتا تھا، مگر انہیں قانونی طور پر ذلیل قرار نہیں دیا جاتا تھا۔ اب یہ لوگ یا تو شہروں میں گندگی صاف کرتے نظر آتے تھے یا ان کے مقدر میں ریلوے کی ادنی درجے کی نوکری تھی۔ انگریزوں نے سرکاری طور پر ان کے مستقبل کا فیصلہ کر دیا تھا۔ انگریز صرف ان لوگوں کو عزت دیتے تھے جو ان کے اپنے فیصلے کے مطابق اعلی نسل یا ذات سے تعلق رکھتے تھے۔ چھوٹی ذات کے لوگوں سے بُرا سلوک کرنا انہوں نے سرکاری کلچر کا حصہ بنا دیا۔ برطانوی عہد حکومت میں سرکاری طور پر ذات پات پر مبنی معاشرے کو تشکیل دینے کے لئے جو کوششیں ہوتی رہیں۔ اس میں ایک انگریز افسر ہربرٹ ریزلی کے تحقیقی کام کی خاص اہمیت ہے۔ وہ 1870ء کے عشرے میں بنگال میں اعداد وشمار اکٹھے کرنے والے محکمے میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر تھا۔ ریزلی کو یقین تھا کہ ذاتیں درحقیقت نسلی گروہ ہیں۔ اس کے خیال کے مطابق برہمن اور کھتری اعلیٰ نسل کے افراد ہیں جبکہ شودر نسلی طور پر نیچ ہیں۔ اس نے اپنی ایک تحریر میں لکھا تھا کہ آریہ جب برصغیر میں آئے تو وہ اپنے دشمنوں کو ایسے افراد قرار دیتے تھے جن کی ناک ہی نہیں تھی۔ اس کا خیال تھا کہ ناک کو ایک پیمانہ قرار دے کر ہر ذات کی نسل کا تعین کیا جا سکتا ہے۔
1901ء کی مردم شماری میں سرکاری اہلکار مختلف ذات برادریوں کے افراد کے ناکوں کی پیمائش بھی کرتے نظر آئے۔ ریزلی نے چہرے پر ناک کے تناسب کے حوالے سے ایک فارمولہ بنایا، جس کے متعلق ناک کو دیکھ کر کسی بھی شخص کو سرکاری نوکری دینے یا نہ دینے کا فیصلہ کیا جا سکتا ہے۔ برطانوی حکومت میں صرف ناک دیکھ کر کسی آدمی کی قسمت کا فیصلہ کرنے کی پالیسی محض ایک تجویز کی حد تک رہی۔ اس کے متعلق کوئی باقاعدہ قانون سازی نہیں کی گئی۔1947ء میں جب برصغیر آزاد ہوا تو انگریزوں کے کچھ قواعد و ضوابط ان کے ساتھ رخصت ہو گئے۔ اب فوج میں بھرتی کے لئے مارشل ریس کا تصور ختم ہو گیا۔ استاد محترم مجیب الرحمن شامی کے مطابق یہ پاکستان کی برکت ہے کہ یہاں اعلیٰ بیوروکریسی میں کم از کم 70فیصد ایسے افسر ہیں، جن کے خاندان کو ماضی میں کمی کہا جاتا تھا۔ اس کالم میں اس موضوع پر زیادہ تفصیل کی گنجائش نہیں تاہم یہ کہا جا سکتا ہے کہ جب تک پاکستانی معاشرہ ذات پات کے نظام میں گرفتار رہے گا یہاں کسی انقلاب کی امید نہیں کی جا سکتی۔