دہشت گردی ختم کرنے کی سنجیدہ کوششیں
21ویں ترمیم کی حمایت کرنے والی سیاسی جماعتوں کے بعض رہنماؤں کے بیانات کا لب لباب یہ ہے کہ انہوں نے اس ترمیم کی حمایت اسلام یا اسلام پسندوں کے خلاف نہیں کی، بلکہ دہشت گردوں کے خلاف کی ہے جو دین اور رسول کریم ؐکے احکامات کو غلط استعمال کر رہے ہیں۔اب سوال یہ ہے کہ دہشت گردی جیسے گھناؤنے رد عمل کو روکنے کے حوالے سے دین اور رسول کریم ؐ کے احکامات کا جو صحیح استعمال ہے کیا وہ بھی کہیں نظر آرہا ہے؟وزیر اعظم نواز شریف اس عزم کا اظہار کر چکے ہیں کہ ’’دو سال میں دہشت گردی کا گند صاف ہو جائے گا‘‘۔اس گند کو صاف کرنے کی ضرورت پہلے بھی اسی شدت کے ساتھ ناگزیز تھی، اور اس کے باوجود یہ گند صاف نہیں ہو سکا جبکہ اس کی وجہ صرف یہ نہیں تھی کہ پہلے فوجی عدالتیں موجود نہیں تھیں اس لئے گند صاف نہیں ہو سکا تھا اور اب محض اس لئے یہ گند صاف ہو جائے گا کہ اب فوجی عدالتیں موجو د ہیں۔اس گند کو صاف کرنے کے لئے محض فوجی عدالتوں کے قیام کے انتظام کو کافی سمجھ لینے کا مطلب ہے کہ صرف سزا کو جرم کے خاتمے کے لئے کافی سمجھ لیا گیا،جبکہ عمرانی علوم کے مطابق سزا دینا جرم کو ختم کرنے کی کوششوں کا محض ایک حصہ ہوتا ہے اورمحض سزا کے ذریعے جرم کے اسباب کا مکمل خاتمہ نہیں ہوتا۔
جن مذہبی جماعتوں نے یا کم ازکم جماعت اسلامی نے اگر 21ویں ترمیم پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے تو اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ اس کی ہمدردیا ں دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ ہیں۔اور جن جماعتوں نے اس ترمیم کو منظور کرنے کی حمایت کی ہے، ان کی حمایت کا مطلب بھی یہ نہیں کہ انہیں اس ترمیم کے حوالے سے تحفظات نہیں ہیں۔ حکومت اور اپوزیشن کا 21ویں ترمیم پر متفق ہونا دونوں کے الگ الگ مقاصد کی تکمیل کرتا ہوا نظر آرہا ہے ۔حکومت کو پانچ سال پورے کرنے کا تحفظ چاہیے اور اس کے لئے وہ فوج سے تعلقات بگاڑنا نہیں چاہتی،جس کا واضح مطلب یہی ہے کہ سول حکومت کوئی بھی ہو،کسی بھی جماعت کی ہو،سیاسی استحکام یا جمہوری حکومت کو چلنے دینے کے لئے پاک فوج ایک اہم عنصر بہرحال رہے گی، جس کی آشیر باد کے بغیر سیاسی استحکام ممکن نہیں۔مولانا فضل الرحمٰن نے نواز شریف کے دباؤ میں آجانے کے حوالے سے جو بیان دیا تھا، وہ اسی کی نشان دہی کر رہا تھا۔دوسری جانب اپوزیشن نے اس ترمیم پر اس لئے حکومت کا ساتھ دیا کہ اس کے ایجنڈے کے لئے پہلی بار راہ ہموار ہوئی، جسے آئینی ترمیم کے ذریعے قوت دی گئی ہے۔یہ وہ کام تھا جو کوئی سیکولر تاثر کی حامل سیاسی جماعت اپنے دور حکومت میں نہیں کر سکتی تھی۔اگر کرتی تو وہ مسلم لیگ (ن) سمیت تمام دائیں بازو کا تاثر رکھنے والی جماعتوں کے لئے ایک ایسی تحریک کی بنیاد فراہم کر دیتی، جس کے نتیجے میں کسی بھی سیکولر حکمران یا سیاسی جماعت کواپنی آئینی مدت پوری کرنا مشکل ہو جاتا۔لہٰذا 21ویں آئینی ترمیم دہشت گردی کا خاتمہ بھلے نہ کر سکے اُس نے مسلم لیگ (ن) کے ہاتھو ں یہ کام ضرور کروا دیا جو ایم کیو ایم اورپیپلزپارٹی مل کر بھی حکمرانی کے اپنے دور میں نہیں کر سکتی تھیں۔
جماعت اسلامی کا موقف تھا کہ ’’مدارس‘‘کی بجائے ترمیم میں ’’تعلیمی اداروں‘‘کا لفظ لکھا جائے، مگر حکومت نے اس پر عمل نہیں کیا۔ دہشت گردی کا واحد مطلب یہ برآمد کیا گیا ہے کہ مدرسے کے طلبہ کو ورغلا کر دہشت گردی پر آمادہ کیا جاتا ہے، وہ جنت کے لالچ میں جان دینے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں اور مدارس چلانے والوں کے اشاروں پر جہاں چاہیں خودکش حملہ یا بم دھماکہ کر دیتے ہیں،کیونکہ یہی خالصتاً دہشت گردی دریافت ہوئی ہے، لہٰذا اس کو ختم کرنے کا واحد ذریعہ بھی یہی ہے کہ مدارس کو ختم کیا جائے۔ مدراس میں پڑھا یا جانے والا نصاب دہشت گردی کی حقیقی وجہ ہے، اس نصاب ہی کو تبدیل کر دیاجائے۔ اس طرح دہشت گردی تو ختم ہویا نہ ہو،ا لبتہ مدارس اور ان کے نصاب پر ہاتھ صاف کرنے کا موقع فراہم کر لیا گیاہے۔۔۔(مدارس کے نصاب کو اصلاح کی ضرورت تو بہرحال تھی، لیکن یہ اصلاح کی نہیں کہ اس نصاب کو امریکی اصلاحات کے سانچے میں ڈھال دیا جائے)
وال چاکنگ کرنا دہشت گردی قرار پایا ہے۔کوئی بتائے تو سہی اب تک کہاں کس کس قسم کی ایسی وال چاکنگ دیکھنے میں آئی ہے جسے دہشت گردی کو فروغ دینے کا ذریعہ سمجھا جا سکے؟ وال چاکنگ کے ذریعے لکھے گئے کچھ جملے عوام کے سامنے پیش تو کئے جائیں جن سے دہشت گردی کو فروغ دینے کا پیغام ملتا ہو۔ کوئی دینی کالعدم یا غیر کالعدم تنظیم وال چاکنگ کے لئے بے قرار نہیں،وال چاکنگ کسی دینی تنظیم کا ذریعہ ابلاغ نہیں رہی، جس کی بندش انہیں کسی قسم کے نظریاتی ،فکری یا مالی قسم کے نقصان کا ذریعہ بن سکے۔وال چاکنگ کو دہشت گردی قرار دینے پر اعتراض کرنے والوں کا اعتراض یہ نہیں ہے کہ آپ وال چاکنگ کو بند کیوں کرا رہے ہیں یا اسے دہشت گردی کیوں قرار دے رہے ہیں۔اعتراض دراصل یہ ہے کہ ان کوششوں کے ذریعے یہ بات آشکار ہو جاتی ہے کہ حکمرانوں اور سیاستدانوں میں معاملے کو سمجھنے کی اہلیت ہی نہیں ہے۔یہ تدبیروں کے ذریعے دہشت گردی کا تدارک کر رہے ہیں، جن پر حیرت ہوتی ہے۔(جاری ہے)
انسداد دہشت گردی کی مضحکہ خیز کوششیں دہشت گردی کے تدارک کے لئے اخبارات میں جو اشتہارات دئیے گئے، وہ بھی کم مضحکہ خیز نہیں تھے۔پارلیمنٹ میں یہ بات تسلیم کی گئی کہ دہشت گردی کی کوئی واضح تعریف موجود نہیں ہے۔ یہ کیسی عجیب بات ہے کہ ایک جرم کی نوعیت کا تعیّن تو کیا نہیں گیا اور اس کے خلاف قانون سازی کرلی گئی۔کیا دنیا میں کوئی ایسی پارلیمنٹ ہماری پارلیمنٹ کے علاوہ بھی موجود ہے، جس میں ایسے جرم کی روک تھام کے لئے قانون سازی کی گئی ہو؟ جس جرم کی حدود وقیود، وضع اور نوعیت ہی کا تعیّن نہ کیا گیا ہو؟ مزید مضحکہ خیزی ملاحظہ ہو ۔۔۔جس جرم کی واضح تعریف پارلیمنٹ میں نہیں کی جاسکی، اُس کا تعیّن حکومت کی جانب سے شائع کردہ اُس اشتہار میں کر دیا گیا جو پڑھنے والوں کو بیک وقت حیران و پریشان کرنے،رونے اور ہنسنے کا اپنے اندر خاصا مواد رکھتا ہے۔اخبارات میں’’ 1717انسداد دہشت گردی ہاٹ لائن‘‘کے عنوان سے شائع کئے گئے، اس اشتہار میں عوام سے اپیل کی گئی ہے کہ اس قسم کی حرکات وسکنات پر نظر رکھیں، مثلاً کوئی دہشت گردوں کو مجاہدین تو نہیں کہہ رہا،کوئی دہشت گردوں کا ہمدرد تو نہیں ہے، کوئی ان کے حق میں دعا تو نہیں کررہا،کوئی کالعدم تنظیم وال چاکنگ تو نہیں کر رہی،صدقات و عطیات کی آڑ میں کالعدم تنظیموں کے لئے چندہ تو اکٹھا نہیں کیا جا رہا، ہسپتالوں ،دکانوں پر چندے کے ڈبے تو نہیں رکھے ہوئے،قدرتی آفات یا فلاحی کاموں کے نام پر عطیات تو نہیں لئے جارہے؟اس اشتہار کے مطابق قربانی کی کھالیں جمع کرنا، کسی گھر میں اجنبی افراد کی آمد و رفت اور کسی شخص کا محلے میں میل جول نہ رکھنا وغیرہ دہشت گردی کی ایسی علامتوں میں سے پائے گئے،جن کی اطلاع فوری ’’1717‘‘ پر کی جانی چاہیے۔
کیامعاشرے اسی صورت میں دہشت گردی سے پاک ہو سکتے ہیں جب ان میں خیر اور بھلائی کے کاموں کو ختم کر دیا جائے؟ان تدابیر کے ذریعے گھیرا دہشت گردوں کے گرد تنگ ہو رہا ہے یا دین اور دینی جماعتوں کے گرد؟قربانی کی کھالیں تو اب جماعت اسلامی یا دیگر دینی جماعتوں کے علاوہ ایم کیو ایم بھی اکٹھی کرتی ہے اور تحریک انصاف بھی۔سب نے کسی نہ کسی طرح اپنی ذیلی تنظیموں کے فلاحی و رفاہی ادارے بنا رکھے ہیں۔حکومت بیشتر سیاسی جماعتوں کے عسکری ونگز تو ختم کرانہیں سکی جو کسی نہ کسی طرح دہشت گردی کے فروغ کا ذریعہ بن رہے ہیں، لیکن دینی جماعتوں اور دینی تنظیموں کے فلاحی و رفاہی ادارے ختم کرانے کی ٹھان لی ہے۔کوئی بتائے تو سہی رفاہی اداروں کی سرگرمیوں کے نتیجے میں اب تک کہاں، کون سی اور کیسی دہشت گردی وجودمیں آئی ہے؟ان فلاحی و رفاہی اداروں کے خلاف حکومتی کارروائی پر تنقید کرنا ان کے ساتھ ہمدردی ہونے کو ضروری قرار نہیں دیتا۔اس تنقید کے ذریعے تو صرف یہ توجہ دلائی جا رہی ہے کہ آپ کس قسم کی سرگرمیوں پر وقت اور سرمایہ خرچ کر کے وہ نتائج حاصل کرنا چاہتے ہیں جن نتائج کے اسباب ہی کا آپ کو علم نہیں۔
دہشت گردی کی موجودہ شکل اپنی نوعیت میں بین الاقوامی عوامل اور اسباب کی حامل ہے۔مغربی قوتیں اپنے ایک خاص ایجنڈے کے تحت اس خطے میں موجود ہیں اور وہ قوتیں امریکہ کی سرپرستی میں اپنے مقاصد کے لئے کام کررہی ہیں۔عراق کو اس کی بربادی کے بعد عملاً تین حصوں میں تقسیم کر دیا گیا،افریقہ کے خوشحال ترین ملک لیبیا کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی ،افغانستان کو تورا بورا بنا دیا گیا،پاکستان کی دینی ،فکری ،سیاسی وحدت کو پارا پارہ کر کے اسے ناکام ریاست قرار دلوانے کی جانب عمل درآمد جاری ہے آپ اتنے بڑے تصادم اور ایجنڈے کا تدارک محض مقامی فرقہ وارانہ فسادات کے پس منظر میں دیکھ رہے ہیں۔دہشت گردی کاجو علاج پاکستانی حکمرانوں اور سیاستدانوں کی جانب سے پیش کیا جا رہا ہے ،وہ پاکستان میں پائی جانے والی فرقہ وارانہ نفرت سے تعلق رکھتا ہے جو دہشت گردی سے ایک مختلف برائی کا نام ہے اور یہ برائی پاکستان میں موجودہ دہشت گردی سے پہلے بھی موجود تھی، موجودہ دہشت گردی خالصتاً اس برائی کا نتیجہ نہیں ہے، البتہ فرقہ واریت کی اس برائی میں دہشت گردی کی شکل تک پہنچنے کا پوٹینشل موجود ہے، لیکن اس کے باوجود حقیقت یہی ہے کہ دہشت گردی کی موجودہ شکل نے محض فرقہ واریت کے بطن سے جنم نہیں لیا،البتہ ملک دشمن غیر ملکی قوتیں فرقہ واریت کو اپنے ان مذموم مقاصد کے لئے استعمال کرنا چاہ رہی ہیں جس کے نتیجے میں دہشت گردانہ واقعات ملکی سطح پر پھیل جائیں، جیسا کہ عراق میں امریکہ نے یہ سب کر دکھایا ہے۔پاکستانی معاشرے نے اس ضمن میں کسی حد تک تحمل وتدبر کاثبوت دیتے ہوئے دشمن کو اس کے مقاصد میں کامیاب نہیں ہونے دیا۔کئی موقعوں پر ہمارے علماء نے برملایہ کہاکہ غیر ملکی دشمن قوتیں ہمیں آپس میں لڑانے کے لئے خود تخریب کارانہ کارروائیاں کررہی ہیں یا اپنے ایجنٹوں کے ذریعے کروا رہی ہیں۔ اگرچہ فرقہ واریت ایک لعنت ہے اور امتوں کے فکری ،نظریاتی اور اخلاقی وجود کو دیمک کی طرح چاٹ جاتی ہے۔اس مرض کے علاج کی ضرورت تو بہرحال ہے، لیکن یہ علاج دہشت گردی کے علاج سے قدرے مختلف نوعیت کا ہے۔ اس کا تدراک ہم نے مقامی سطح پر کرنا ہے۔ جبکہ دہشت گردی کے علاج کا تعلق زیادہ تر خارجہ پالیسی اور بین الاقوامی تعلقات کے ساتھ منسلک ہے۔یہ وہ حقیقی میدان ہے، جہاں جرأت کامظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے۔جو گذشتہ ڈیڑھ عشرے سے پاکستان کے حکمران طبقوں کے بس کا روگ نظر نہیںآرہا۔