یہ تصویر فحاشی کے زمرے میں آتی ہے!
ایک سوال جو بڑی مدت سے میرے ذہن میں انگڑائیاں لیتا رہا ہے، وہ بڑا عجیب و غریب سا ہے۔ سوچتا ہوں کہ اسے کالم کی شکل میں ناظرین کے سامنے رکھوں تو شائد بعض قارئین میری عقلِ سلیم کے بارے میں کوئی ایسی رائے قائم نہ کرلیں کہ جو میرا مقصود نہ ہو۔ اور اگر شیئر نہیں کرتا تو لوگ سمجھیں نہ سمجھیں، میں خود اپنے آپ کو منافق سمجھنے لگوں گا۔ شکوک و شبہات کو دور کرنے کا ایک طریقہ یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ دل کو کھول کر برسرِ بازار رکھ دیا جائے اور دیکھا جائے کہ کوئی خریدار اس کی طرف متوجہ ہوتا ہے یا جنسِ بے مایہ جان کر آگے نکل جاتا ہے۔
وہ سوال یہ ہے کہ ہمارے جیسے ترقی پذیر معاشرے، ترقی یافتہ معاشروں کی ہزاروں لاکھوں ایجادات و اختراعات کو تو نہ صرف گلے لگاتے بلکہ روز مرہ استعمال میں لاتے ہیں، لیکن ان معاشروں کے اخلاقی معیاروں کو نشانہء تنقید کیوں بناتے ہیں؟۔۔۔مغربی معاشرے کو مادر پدر آزاد معاشرہ کہہ کر ہم جس اخلاقی برتری کا بُت اپنے سروں میں بسا لیتے ہیں، وہ ہمارا اخلاقی دوغلا پن نہیں تو اور کیا ہے؟۔۔۔ کیا ہمارے اخلاقی پیمانے یہی ہیں کہ اپنی اخلاقیات کو پاکیزہ وعفیفہ سمجھیں اور ان اقوام کی اخلاقیات کو اخلاق سوزی قرار دے کر ’’ہم چو ما دیگرے نیست‘‘ کا نعرہ بلند کرتے رہیں کہ جن کی ایجاد کردہ اشیائے صرف ہماری روز و شب کی مجبوریاں ہوں!
میں اپنے بیڈ روم پر نگاہ ڈالتا ہوں تو چاروں طرف جو کچھ نظر آتا ہے، وہ سب مغربی معاشرے کی ’’عطا‘‘ ہے۔۔۔ بجلی، ٹیلی فون ، موبائل فون، ٹیلی ویژن، ریڈیو( جواب صرف گاڑیوں کا ہو کر رہ گیا ہے) لکھنے کا قلم، اخبارات و رسائل اور کمپیوٹر سے کتابت کی ہوئی کتابیں، لباس، خوشبویات، شیو کا سامان، نہانے کا شیمپو، ٹائلٹ کا سارا اَلا بلا، ٹوتھ پیسٹ، برش، بوٹ پالش، اِستری، ریفریجریٹر، سوئی گیس، اوون،فراہمی ء آب کی ساری فٹننگز (Fittings)، مطالعہ کا چشمہ، مختلف ادویات، الغرض کس کس کا نام لوں۔۔۔ ذرا باہر نکلتا ہوں تو سڑکیں، ان پر دوڑتی ہوئی گاڑیاں اور موٹرسائیکل، سٹریٹ لائٹس، ریل گاڑیاں، ہوائی جہاز، جدید سامانِ حرب و ضرب، ہزارہا اقسام کی مشینری جو ہمارے روزمرہ استعمال کا لازمی جزو بن چکی ہے، کلائی کی گھڑی، افواج کے اسلحہ جات و بارودات۔۔۔ کس کس کا ذکر کروں؟۔۔۔
یہ سب چیزیں ہماری آج کی ایسی بنیادی انسانی ضروریات بن کر رہ گئی ہیں جن کے بغیر عصرِ حاضر کا انسان (خواہ اس کا تعلق چوتھی یا پانچویں دنیا سے ہی کیوں نہ ہو) زیادہ عرصہ تک زندگی کی گاڑی نہیں کھینچ سکتا۔ لیکن جو اقوام اور جو ممالک ان آسائشوں کا منبع و مصدر ہیں، ان کے باشندوں کا اخلاق ہمارے لئے Tabooہے۔ ہم ان معاشروں کو قابلِ نفرت گردانتے ہیں، ان کی اخلاقی اقدار کا مضحکہ اڑاتے ہیں، ان کو مرتبہ ء انسانیت سے گرا ہوا، گمراہ، بھٹکا ہوا اورراندۂ درگاہِ ایزدی سمجھتے ہیں۔ لیکن کیا یہ حقیقت نہیں کہ ہماری اپنی زندگیوں کا دارومدار انہی اقوام پر ہے؟ کیا ہمارا سارا سیاسی ڈھانچہ مغرب کا پیروکار نہیں؟ کیا مغرب کی معاشی خوشحالی، سماجی چکاچوند اور ذہنی زرخیزی ہمارے لئے باعثِ صد رشک نہیں بنتی؟۔۔۔ اور قارئین کرام! اگر یہ سب کچھ درست ہے تو پھر ان کی اخلاقیات کیوں غلط ہیں؟ ان کا طرزِ بودوماند ہمارے لئے کیوں گمراہ کن ہے؟ اگر ہمارے جرم و سزا کے نظام کی کوئی گُتھی سلجھ نہیں سکتی تو ہم مغربی تفتیشی اداروں کا رخ کیوں کرتے ہیں؟ ایگزیکٹ جیسے کیسوں کی چھان بین کے لئے FBI سے کیوں رجوع کر رہے ہیں؟
راقم السطور کی ایک عمر اسلامی اخلاقیات کے مطالعہ میں گزری۔یہ اخلاقی اقدار ہمیں (یعنی مسلم امہ کو) ایسے بنیادی (Basic) اسباق سے آشنا کرتی ہیں جن پر اسلامی معاشرے کی عظیم عمارت استوار کی گئی تھی۔ یہی وہ اسباق تھے جو اغیار (اہلِ مغرب) نے ہم سے سیکھے اور انہیں ’’اپنا‘‘ بنا کر پیش کیا۔ لیکن افسوس کہ آج ہم ان اپنے ہی اسباق کو نشانہ ء تنقید بناتے ہیں، ان کی ہنسی اڑاتے ہیں اور معاشرے کو قبل از اسلام کے دورِ جاہلیت کی طرف لے جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہم اسلامی سوچ اور طالبانی سوچ میں تمیز کیوں نہیں کرتے؟
ہم میں سے کتنے لوگ ہیں جو ’’اجتہاد‘‘ کے نام سے آشنا نہیں، لیکن کتنے لوگ ہیں جو اجتہادی ضروریات کی تشریح و تعبیر کرکے بعض گلی سڑی دقیانوسی اقدار و روایات کو گلے سے لگانے کو عینِ اسلام سمجھتے ہیں؟ میں سمجھتا ہوں کہ اسلام کا ضابطہء اخلاق دوسرے مذاہب و ادیان کے ضابطہ ہائے اخلاق سے زیادہ مختلف نہیں۔ صرف تعبیروں اور تشریحوں میں اختلاف ہے۔ اسلام کا سماجی تانا بانا جن دھاگوں سے بُنا ہوا ہے ان میں فائن ربڑ کی سی لچک ہے۔ آپ ان دھاگوں کو بہت دور تک کھینچ سکتے ہیں۔ مغرب کی یہی لچک پذیری ہے جو اس معاشرے کی اصل روح ہے اور ہمارے لئے شجرِ ممنوعہ بن چکی ہے! ہم نے اپنی راہ کو ایک لکیر کھینچ کر گویا نشان زد کر دیا ہے کہ اس سے آگے بڑھیں گے تو ہمارے پَر جل جائیں گے۔ اگر کوئی قاری مغرب کی اخلاق باختگی کا حوالہ دے تو اس کو اپنی قوم کی اخلاقی باختگی کا گراف بھی یاد رکھنا چاہیے۔ فرق صرف یہ ہے کہ مغرب کی اخلاق باختگی ایک پہلو کو محیط ہوگی اور ہماری دوسرے پہلو کو۔ بلکہ اگر میں ترقی یافتہ اقوام اور معاشروں کی منفی اخلاقیات کو Quantify کرنا چاہوں تو کہوں گا کہ ہماری منفی اخلاقیات کی ’’تعداد و مقدار‘‘ الا ماشااللہ بمقابلہ مغرب کہیں زیادہ ہے۔
ہم اپنے آپ کو دھوکا دینے والی قوم ہیں۔۔۔ ہم ہر روز مغرب سے ہزارہا اشیائے ضروریہ درآمد کرتے ہیں لیکن جب اخلاقی اقدار کی درآمدات کی باری آتی ہے تو اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد الگ تعمیر کرنے لگتے ہیں۔ قارئین سے ایک درخواست اور بھی ہے کہ اخلاقی اقدار سے میری مراد جنسی اقدار نہیں۔ مغربی معاشروں کی جنسی اقدار شدید طور پر نفرت انگیز ہوں گی لیکن میرے اس سوال کا مطلب خدارا غلط نہ لیں کہ ان کی یہ جنسی بے راہروی، ان کے قوائے ایجاد کو کمزور کیوں نہیں کرتی؟ ان کی ذہنی اختراعی خوبیوں کو کیوں نہیں گہناتی؟ اور ان کی مخلوقِ خدا کے لئے رفاہی کاموں کی لگن اور کاوش کو کیوں کم نہیں ہونے دیتی؟۔۔۔ ہماری جنسی اقدار جن ظواہر سے پرہیز کرتی ہیں ہم ان پر بہ باطن دل و جان سے فدا ہیں۔ ہم باہر سے کچھ ہیں اور اندر سے کچھ ہیں۔ عمر خیام نے اپنی ایک مشہور رباعی میں یہی بات ایک طوائف کے منہ سے ایک عابدِ شب زندہ دار کے سامنے یوں کہلوائی تھی:
’’میں تو جو کچھ باطن میں ہوں وہی کچھ ظاہر میں ہوں۔ میرا باطن اور ظاہر سب کے سامنے ہے لیکن حضرت! آپ فرمائیں کہ آپ ظاہر میں جو کچھ نظر آتے ہیں کیا باطن میں بھی ویسے ہی ہیں؟
من آں چناں کہ می نمایم ہستم
تو آں چناں کہ می نمائی ہستی؟
میں سمجھتا ہوں کہ اہلِ مغرب کا جنسی معیارِ اخلاق وہی ہے جس کا وہ (ایک حد تک سہی) بظاہر اور برملا اظہار کرتے ہیں لیکن ہم تیسری دنیا کے مسلم معاشرے ذرا اپنے گریبانوں میں منہ ڈال کر دیکھیں کہ کیا ہمارا ظاہر و باطن ایک ہے؟
کسی بڑے ریلوے سٹیشن پر جا نکلیں، کسی الحاج کے استقبال کے لئے کسی ائرپورٹ پر تشریف لے جائیں، کسی بارونق بازار کی طرف نکل جائیں یا کسی شادی بیاہ کی تقریب میں علاقہ ء خواتین پرنظر دوڑائیں آپ کو لگ پتہ جائے گا کہ ہم ان اخلاقی اقدار سے کتنے دور نکل آئے ہیں جس کے ترانے ہمارے بعض بزرگ گا رہے ہیں۔۔۔ اوپر سے ہم اور کچھ ہیں اور اندر کچھ اور۔۔۔ جوش کی نظم کا ایک بند یاد آ رہا ہے:
اک روز بہرِ فاتحہ اک بنتِ مہر و ماہ
نیچی نگاہ کرکے بڑھی سوئے خانقاہ
زہّاد کے لبوں سے اُٹھی ایک سرد آہ
ہونٹوں پہ دب کے ٹوٹ گئی ضربِ لا الہ
برپا ضمیرِ زہد میں کہرام ہو گیا
ایماں دلوں میں لرزہ براندام ہو گیا
’’ضمیرِ زہد‘‘ سے میرے ذہن میں ’’بول‘‘ کے CEOکامران خان کے مستعفی ہونے کا سبب یاد آیا۔ جونہی ’’بول‘ کے اَن داتاؤں پر افتاد پڑنے کا احتمال ہوا، خان صاحب کا وہ ضمیر جو برسوں سے سویا ہوا تھا، اچانک جاگ اٹھا۔
کل ایک محترم دوست نے کسی اخبار میں ایک نیم عریاں نسوانی تصویر کے خاکے کے کنٹور (Contours) دیکھ کر تبصرہ فرمایا: ’’یہ تصویر فحاشی کے زمرے میں آتی ہے۔‘‘۔۔۔
معاً میرا خیال پاکستان کے الیکٹرانک میڈیا کی طرف جا نکلا۔۔۔ ہمارے کئی چینل خواتین کی فیشن واک (Cat walk) کو اس طرح پیش کر رہے ہیں کہ لاس اینجلز کے ہالی وڈ فلور بھی ویسا نہیں کر پاتے۔ جب سے سوشل میڈیا کی یلغار ہوئی ہے کیا غریب اور کیا امیر، کیا منعم اور کیا گدا گر سب کے سب ’’ڈیلی موشن‘‘ کی چند منٹوں کی ویڈیو فوٹیج سے دل بہلانے کو ’’فحاشی‘‘ نہیں سمجھتے، ’’اضافی معلومات‘‘ گردانتے ہیں۔ انگریزی پریس کے سنڈے میگزین دیکھیں تو چودہ طبق روشن ہوجاتے ہیں۔ کسی بھی اچھی بک شاپ پر چلے جائیں اور سیلز مین / گرل سے پوچھیں کون کون سے ’’اخلاقی ٹائٹل‘‘ ہاٹ کیک ہیں اور کون کون سے بہشتی زیور سٹوروں میں پڑے گل سڑ رہے ہیں۔ آپ کو فحاشی اور نیک چلنی کی تفسیر سمجھ میں آنے لگی گی۔
بیس برس سے شعیب شیخ کا ظاہر کچھ تھا اور باطن کچھ تھا۔۔۔ اور کم از کم دو برس سے ’’بول‘‘ چینل کے آئی کونوں /اینکروں/ ناخداؤں کا ضمیر کچھ اور تھا لیکن جونہی یہ کیس FBI کے حوالے کیا گیا، یہ سارے کہنہ مشق صحافی، جواں سال اینکرز اور ادھیڑ عمر کے ماہرینِ فنونِ لطیفہ کیا خواتین اور کیا مرد حضرات ’’توبہ تائب‘‘ ہو کر ڈوبتے جہاز سے باہر کود گئے ! اخلاقی معیاروں کا یہی وہ دوغلا مرض ہے جو امتِ مسلمہ کو ایک طویل عرصے سے لاحق ہے اور جس کا علاج ہمارے کسی طبیب کے پاس نہیں۔ آپ دیکھ لینا بس چند روز تک یہ ’’بول‘‘ والا شوروغل مچا رہے گا، میڈیا کی رونقیں بحال رہیں گی اور پھریہ سب کچھ قطبِ شمالی کے کسی گلیشیئر میں لے جا کر دفن کر دیا جائے گا۔۔۔ اللہ بس باقی ہوس!۔۔۔ کوئی ہے جو اس کا علاج بتائے؟