وزیراعظم کا بائی پاس؟

وزیراعظم کا بائی پاس؟
 وزیراعظم کا بائی پاس؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

وہ بضد تھے اور دعویٰ کر رہے تھے کہ یہ ان کا براہ راست اور ذاتی علم ہے کہ وزیراعظم محمد نوازشریف اور ان کے اہل خانہ،بھائی سمیت بہت بڑے کھابہ گیر ہیں۔ پائے، کھدیں کھاتے ہیں۔ مرغن غذاؤں کا نتیجہ تو یہی نکلنا تھا۔ ہماری یہ گزارش ہوا میں اُڑا دی گئی تھی کہ یہ درست نہیں افواہ ہے کہ دونوں بھائی اچھی خوراک کے شوقین ضرور ہیں لیکن کھاتے واتے نہیں۔ یہ پرانی بات ہے جب ان کے دستر خوان پر بہت سے پکوان ہوتے اور وہ خود بھی کھاتے تھے لیکن عرصہ سے پرہیز کر رہے ہیں اور اب تو ایک چپاتی پر گزارہ ہے لیکن مخاطب صاحب مان ہی نہیں رہے تھے، ہم نے بھی اصرار چھوڑ دیا کہ ممکن ہے بھینس کے آگے بین بجانے والی بات ہی ہو۔


وزیراعظم محمد نوازشریف کی اوپن ہارٹ سرجری (بائی پاس) کے حوالے سے خبر چلی اور چلی جا رہی ہے۔ گفتگو کا موضوع بھی یہی ہو جاتا ہے اور پھر سنی سنائی باتوں کو عینی شاہد کے طور پر بیان کرنے کا سلسلہ دراز ہوتا چلا جاتا ہے۔ یہ سب بھی میڈیا ہی کی مہربانی کہلائے گا کہ مختلف سیاسی زعماء کی طرف سے پائے اور کھدیں منسوب کر دی جاتی اور امرتسر کے ساتھ ساتھ گوالمنڈی کا حوالہ دیا جاتا ہے ، ہم دونوں بھائیوں کی کالج والے زمانے کی بات تو نہیں کرتے البتہ ان کے والد میاں محمد شریف کی زندگی اور کاروباری دور کی یاد تازہ کر لیتے ہیں کہ ایک آدھ مرتبہ اپنے بزرگوں کے ساتھ ماڈل ٹاؤن جانے کا اتفاق ہوا ان کا ’’اتفاق‘‘ والوں کے ساتھ کاروباری رشتہ تھا اور اس دوران ایک دوپہر کے کھانے میں بھی شرکت کی۔ تب فرشی دستر خوان لگتا تھا، کھانے میں بہت کچھ تھا(ماسوا پائے+کھدیں) یعنی دو تین قسم کے سالن اور سلاد وغیرہ تاہم جب کھانا کھایا گیا تو سب نے اپنے اپنے معمول ہی کے مطابق کھایا تھا اور پھر اپنے رپورٹنگ کے زمانے میں سرکاری اور نجی طور پر دونوں بھائیوں کی طرف سے کھانے میں شرکت کا موقع ملا تب بھی یہی کیفیت تھی۔ عمدہ کھانا اور کئی لوازمات ہوتے، لیکن کھانا اسی طرح کھایا جاتا حال کی پوزیشن تو یہ ہے کہ وزیراعلیٰ محمد شہباز شریف ایک ہی چپاتی پر گزارہ کرتے ہیں۔یہ سب تشہیرکا کیا دھرا ہے کہ میڈیا میں بھی دوسروں کی طنزیہ گفتگو کو ویسے ہی نشر یا شائع کر دیا جاتا ہے، جب سے الیکٹرونک میڈیا کا دور آیا تو پیشہ صحافت سے متعلق کئی سوال اورمسائل پیدا ہو گئے ہیں کہ اب ٹکر اور ریٹنگ کا مسئلہ ہے اور فکر مندی یہ ہوتی ہے کہ ٹکر پہلے چلنا چاہیے چنانچہ رپورٹر حضرات زیادہ تردد نہیں کرتے اور ابتدائی خبر سنی سنائی چلا دیتے ہیں، چنانچہ اکثر خبروں میں بعدازاں کئی بار ترمیم ہوتی ہے اور تحقیق کا تو عنصر ہی غائب ہو چکا، انویسٹی گیٹو جرنلزم کی بات تو ضرور کی جاتی ہے لیکن یہ تحقیق گلا پھاڑ کر چیخنے اور زور زور سے بول کر سامعین و ناظرین کو یقین دلانے کی کوشش پر مبنی ہوتی ہے کہ وہ (اینکر) جو کہہ رہے ہیں وہی سچ ہے، حالانکہ یہ گلاس آدھا بھرا ہوا بھی نہیں ہوتا، یہی وجہ ہے کہ خبر کو لے اڑنے اور زیادہ سے زیادہ سنسنی پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔


وزیراعظم محمد نوازشریف کی بیماری کے حوالے سے بھی ایسا ہی ہوا ہے۔ ایک ماہ قبل جب وہ لندن گئے اور چیک اپ کرایا تو اس خبر کی مزید تحقیق نہیں کی گئی اور یہ تاثر دیا گیا جیسے وزیراعظم بیماری کا بہانہ کرکے کسی اور مشن پر آئے ہیں۔ ایسا ہی اب کیا گیا تاوقتیکہ ہسپتال اور خاندانی ذرائع سے یہ نہیں بتایا گیا کہ وزیراعظم علیل ہیں ان کے ٹیسٹ وغیرہ مکمل ہوئے اور اب طے پایا ہے کہ ان کی اوپن ہارٹ سرجری (بائی پاس) ہو گی اور آپریشن منگل کو ہے۔اس اطلاع کے بعد بھی پس منظر کو نہیں دیکھا گیا۔ ذرا توجہ دی جاتی تو 2011ء کا وہ وقت بھی یاد آ جاتا جب محمد نوازشریف نے ہسپتال میں طبی معائنہ کرایا تو سٹنٹ کی ضرورت پیش آ گئی۔ جب یہ عمل ہونے لگا تو ان کی طبیعت بگڑ گئی تھی اور پھر یہ عمل جو منٹوں کا ہے پانچ چھ گھنٹوں کے لئے طویل ہو گیا تھا کہ کچھ پیچیدگی پیداہو گئی تھی، اس بات کو پوشیدہ بھی نہیں رکھا گیا اور بتا بھی دیا گیا تھا، چنانچہ ایک ماہ قبل بھی مریض اور ڈاکٹروں کے درمیان اعتماد والا رشتہ تھا۔ وزیراعظم گئے تو یہاں سیاسی کھیل شروع ہو چکا تھا اور تاثر دیا گیا کہ اب وہ گئے کہ گئے، چنانچہ انہوں نے اپنے معالجین سے زبردستی اجازت لی اور واپس آ کر جوابی مہم شروع کر دی۔ تسلسل سے جلسے کرنے اور دوسری سرگرمیوں کی وجہ سے ان کو پھر سے تکلیف ہو گئی اور وہ مجبور ہو کر پھر لندن چلے گئے۔


وہ ایک ماہ قبل ’’معائنہ‘‘ کے لئے گئے تو ہم نے عرض کی تھی کہ وہ واقعی علیل ہیں ان کو پریشان نہ کیا جائے لیکن ان کی طرف سے حقیقت کو دبایا گیا تو کسی صحافی نے تحقیق بھی نہ کی اور پھر وقت آ گیا کہ ان کی بیماری کا بتا دیا گیا۔یہ آپریشن پہلے سے تجویز کردہ ہے خود وزیراعظم نے سیاسی ہلچل کی وجہ سے ملک کے اندر نہ صرف وقت گزارا بلکہ سیاسی ماحول کو بھی گرمایا تھا، اب وہ معالجین کے کنٹرول میں ہیں اور انہی کی مرضی سے وقت گزاریں گے۔ ڈاکٹروں کی رائے کے مطابق بائی پاس ہو گا، اس کے بعد بھی ان کو نگہداشت کے شعبہ میں رکھا جائے گا اور یقین ہونے کے بعد ہی سفر کی اجازت ہوگی بتایا گیا کہ ان کا خون ذرا گاڑھا (Thick) ہو گیا ہے۔ آپریشن سے قبل ادویات کے ذریعے اسے بھی معمول کے مطابق لایا جائے گا۔یہ اچھی علامت ہے کہ بلاول بھٹو،عمران خان، سید خورشید شاہ اور دوسرے حضرات کی طرف سے صحت کی دعا کی گئی ہے، دعا ہی کرنا چاہیے کہ اللہ ان کو تندرستی اور لمبی عمر عطا فرمائے، اس وقت ماہر ڈاکٹروں کے زیر علاج ہیں، اور دیکھ بھال بھی ہو رہی ہے۔ امریکہ جانے تک کی خبر غلط ثابت ہو گئی ہے۔ اللہ کرے منگل کو 2011ء کی طرح کوئی مشکل پیش نہ آئے، تب انجیو پلاسٹی معمول کا علاج مشکل اور طویل ہو گیا تھا۔

مزید :

کالم -