یہ سوِل سوسائٹی ہے کیا؟
سچ پوچھیں تو مجھے بھی آج سے15، 20 سال پہلے تک سوِل سوسائٹی کے اصل مطلب کا کچھ پتہ نہیں تھا۔ ڈکشنری کے حساب سے اگر میں سمجھنے کی کوشش کرتا تو یہ ہی پتہ چلتا کہ یہ ایک ایسی انجمن ہوتی ہے جس کی رُکنیت غیر سرکاری افراد پر مشتمل ہو۔ اگر سابق چیف جسٹس آف پاکستان کا جنرل پرویز کے ساتھ لفڑا نہ ہوتا تو ہم ٹیلی ویژن اور اخباروں میں سوِل سوسائٹی کا نام شائد ہی اِس تواتر سے سُن پاتے اور اگر سنتے بھی تو شائد اس اَن دیکھی ہستی سے اِتنے خوفزدہ نہ ہوتے جتنا ہمیں میڈیا والوں نے سوِل سوسائٹی کا نام سُنا سُنا کر ڈرپوک سا بنا دیا تھا۔ حکومت سے لے کر ایک عام آدمی تک کو سوِل سوسائٹی ایک ڈراؤنی سی چیز لگتی تھی۔ سوِل سوسائٹی یہ کر دے گی، سوِل سوسائٹی حکومتی اقدام کو ردّ کر دے گی، سوِل سوسائٹی اعلیٰ عدالتوں میں چلی جائے گی۔ ایسے جملے سُن کر اس طرح لگتا تھا کہ سوِل سوسائٹی کوئی عفیفہ ہیں اور اُن کی شکل محترمہ عاصمہ جہانگیر سے مماثلت رکھتی ہے، کیونکہ ہمیں ٹیلی ویژن پر اِن جیسی نِڈر اور بارعُب شخصیت اور تو کو ئی نظر آتی نہیں ہے ۔اللہ بخشے ایک فوزیہ وہاب ہوتی تھیں وہ اللہ کو پیاری ہو گئیں۔ اُس وقت سچ جانو، مَیں ،سوِل سوسائٹی کی اِصطلاح سے آشنا نہیں تھا ، مَیں تو میڈیم فوزیہ کو ایک بہادر خاتون کی شکل میں سمجھتا تھا۔ دو خواتین اور ہیں جو ٹی وی پر بڑی جیداری سے مولویوں اور مرد اینکروں کا مقابلہ کرتی نظر آتی ہیں۔ اگر مجھے نام غلط یاد نہیں ہے تو ایک خاتون کا نام تو مسز باری ہے اور دوسری شائد مس عبداللہ ہیں۔ مَیں مغربی اخباروں میں بھی سوِل سوسائٹی کا نام پڑھا کرتا تھا۔ ’’اوھو‘‘ ، مَیں نے سوچا یہ سوِل سوسائٹی تو مغرب والوں کو بھی ’’دبکاڑے‘‘ لگا رہی ہے۔ اَب مجھ سے نہ رہا گیا۔ گوگل کی طرف رُخ کیا اور سوِل سوسائٹی کے بارے میں جان کاری حاصل کرنے کی کوشش کی۔ مجھے اپنے آپ پر بڑی شرم آئی۔ میری پڑھائی لکھائی کا کیا فائدہ کہ مَیں سوِل سوسائٹی کو نہ جان سکا۔ دراصل NGO's کا دوسرا نام سوِل سوسائٹی ہے اور NGO's کو سوِل سوسائٹی کا یہ لقب ابھی پچھلے پندرہ بیس سال میں ہی مِلا ہے۔
NGO's کا وجود اقوامِ متحدہ کی پیدائش سے منسلک ہے، یعنی 1945 عیسوی۔ ایک ایسا غیر حکومتی اِدارہ جو اِنسانی بہبود کے کسی بھی شعبے میں اپنے ذرائع سے رضا کارانہ کام کرے تو وہ NGO کہلائے گا یا کہلائے گی۔ اِنسانی بہود کے شعبے تو اَن گنت ہیں، جیسے تعلیم ، صحت، پینے کا صاف پانی ، شخصی آزادیاں ۔۔۔بس یہیں ٹہر جایئے۔ انسانی بہود کے اَب جو مزید شعبے آئیں گے وہ حکومتوں کے کام میں بلاواسطہ یا بالواسطہ دخل اندازی کے مترادف ہونگے اور پھر یہیں سے جھگڑے شروع ہوں گے، جن کی جھلکیاں آپ عموماً ٹی وی چینلز پر بھی دیکھتے ہیں۔ بتایئے یہ جو فضائی آلودگی ہے،انسانی حقوق جس میں خواتین کے حقوق کی لمبی لسٹ بھی شامل ہے، قیدیوں کے حقوق ہیں، جنگلی حیات کے حقوق ہیں ، بھلا یہ کوئی اِتنے اہم شعبے ہیں کہ اُن کے لئے شور مچا کر گلا خراب کیا جائے اور حکومتی اہل کاروں اور وزرائے کرام کی نیندوں میں خلل ڈالا جائے۔
جیسے کہ میں نے عرض کیا کہ UNO کی پیدائش کے ساتھ ہی NGO's کا تصوّر پیدا ہو گیا تھا۔ اُس وقت اِن کے مقاصد اُتنے ہی معصومانہ تھے جیسے UNO کے، لیکن جب سرد جنگ شروع ہوئی اور امریکہ نے UNO ، IMF ورلڈ بینک اور اِن کے ذیلی اِداروں پر بالواسطہ قبضہ جمانا شروع کر دیا تو NGO's بھی نہ بچ سکیں، بلکہ امریکی CIA نے تو اپنے خفیہ فنڈز سے ایشیاء ، یورپ،لاطینی اور افریقی ممالک میں NGO's بنوائیں۔ بعض NGO's تو بین الاقوامی سطح کی بنیں۔ اِن میں مشہور ہیں Green Peace ، آواز، ہیومن رائٹزواچ، ایمنیسٹی انٹرنیشنل، ڈاکٹرز بغیر ملکی حدود (Doctors without borders)۔ بہت ساری مقامی NGO's جو کسی دوست مُلک میں بھی ہو سکتی ہیں، اُنہیں بھیCIA خفیہ طور پر امداد دیتی ہے۔ بعض امریکی NGO باقاعدہ کانگریس کے منظور شدہ بجٹ سے چلتی ہیں جیسے USAid ،National Endowment for Democracy یہ دونوں NGO's ظاہرہ طور پر پوشیدہ نہیں ہیں، لیکن اِن کے بعض اغراض پوشیدہ ہوتے ہیں۔ یہ امریکی امداد سے چلتی ہیں، اور CIA کی فرنٹ ایجنسیزہوتی ہیں جو باقاعدہ امریکی مقاصد کے حصول کے لئے غریب اور کمزور ملکوں میں دھڑلے سے کام کرتی ہیں۔ یہ اِمدادی قسم کے اِدارے جمہوریت کے نام پر چھوٹے ، کمزور یا انتشار زدہ ممالک میں جمہوریت کا بوگس ڈرامہ چلا کر کام کرتے ہیں۔ مقامی NGO's اور مقامی میڈیاکو بعض مرتبہ جھوٹی خبریں دے کر مزید گرد اُڑائی جاتی ہے اور اُس گرد کے پردے میں مقامی NGO's اِمدادی اِداروں یا ڈونرز کے دیئے ہوئے ایجنڈے پر کام کرتی ہیں۔ ضروری نہیں کہ ہر NGO غیر ملکی سرمائے سے غیر ملکی ایجنڈے کو پورا کرنے کے لئے کام کرتی ہو۔ ہمارے مُلک میں بہت اعلیٰ مقاصد کے لئے بے لوث کام کرنے والی NGO's بھی ہیں، لیکن یہ ضرور ہے کہ دشمن کی کوشش ہوتی ہے کہ کوئی بے ضرر سے نام والی NGO ، اُس کے زیر اثر آجائے۔ بطور قاعدے کلیے کے یہ بتادوں کہ دشمنوں کو ایسی NGO's پسند ہوتی ہیں،جن میں سڑکوں پر آنے اور بلوہ کرنے کا کوئی رجحان نہ ہو۔ بعض مرتبہ دانشوروں ، صحافیوں اور آرٹسٹوں کی انجمنوں میں بھی CIA یا ایسا ہی کوئی غیر ملکی اِدارہ اپنی جگہ بنا لیتا ہے۔
بعض NGO's کے مشکوک پس منظر کو دیکھتے ہوئے،غیر ملکی عوامی تحریکوں نے اپنے آپ کو NGO's سے الگ کر لیااور اپنے لئے سوِل سوسائٹی کا نام تجویز کر لیا۔ یہ نام امریکہ سے ہی شروع ہوا اور بقیہ ممالک تک پہنچا۔ سوِل سوسائٹی میں NGO's بھی شامل ہو سکتی ہیں، مختلف پیشوں سے تعلق رکھنے والی ٹریڈ یونینز بھی۔ میڈیا اور پڑھا لکھا شہری طبقہ بھی ہو سکتا ہے۔ NGO's ہوں یا سوِل سوسائٹیز، اِن کی Origin ہمیشہ شہری پس منظر سے ہو گی لیکن دیہاتی کسانوں کی NGO مشکل سے ہی نظر آئے گی ، کیونکہ تمام دنیا میں کسان اپنی کسی قسم کی با اثر (Effective) تنظیم بنا ہی نہیں سکتے۔ اس لئے اُنہیں سوِل سوسائٹی کا حصہ نہیں سمجھا جاتا۔ سوِل سوسائٹی جس طرح سڑکوں پر آکر خاص Issuesکو اُجاگر کر سکتی ہے وہ دیہاتی آبادی نہیں کر سکتی۔ فرانس کے کِسان البتہ سڑکوں کو بلاک کر سکتے ہیں اوراپنی زمینوں پر اُگائے ہوئے ٹماٹر پیرس کی سڑکوں پر میل ہا میل پھینک کر حکومتِ سے اپنی مانگیں منوا سکتے ہیں۔
سوِل سوسائٹی کا کردار عموماً جمہوری معاشروں میں زیادہ اہم ہوتا ہے، جن ملکوں میں جمہوری روّیے مضبوط ہوتے ہیں وہاں عوام میں اپنے تمدنی حقوق کا شعور بھی زیادہ ہو گا۔ سوِل سوسائٹیاں دراصل بنتی ہی حقوق کی حفاظت کے لئے ہیں۔ 1980 یعنی کمیونزم کے خاتمے کے بعد سوِل سوسائٹی کے اِدارے کا تیسری بار جنم ہوا، حالانکہ تمدنی سوسائٹیاں ارسطو کے زمانے سے ہی موجود تھیں،لیکن اُن کا دائرہ کار بہت محدود تھا۔ کسی بھی مُلک کا سوشل کیپیٹل(Social Capital) جتنا متنوع اور تعداد میں زیادہ ہو گا وہاں سوِل سوسائٹی کی اہمیت بھی زیادہ ہوگی۔ سوشل کیپیٹل کی تشکیل ایسے اِداروں کے ذریعے ہوتی ہے،جو عوام کو ذہنی اور جسمانی تفریح کے مواقع فراہم کرتے ہیں۔ مثلاً مشاعرے، کھیل کُودکے کلب، اجتماعی میلے، ادبی اور موسیقی کی محفلیں، مقصد یہ کہ اِنسانوں کو آپس میں آزادانہ ملنے جلنے کے ایسے مواقع میسر ہوں جہاں تفریح بھی ہو سکے اور دِلوں کی بات بھی کہی جا سکے۔ جہاں سوشل گھٹن ہو گی وہاں سوِل سوسائٹی کا اِرتقا بھی رُک جائے گا اور اُس کی افادیت بھی۔ مارشل لاء اور ڈکٹیٹرشپ میں چونکہ آزادیِ اظہار پر پابندی ہوتی ہے اِس لئے ایسے معاشرے میں سوشل آسودگی بھی نہ ہو گی۔ روٹی ضرور ہو گی ، مکان بھی شائد مِل جائے ، لیکن اگر تقریر پر بابندی ہو گی تو عوامی نفرت ناگزیر ہو جائے گی۔ جنرل پرویز مشرف کا ایک کارنامہ ضرور تھا کہ اُس نے آزادیِ تقریر کو پابند نہ کیا، گو اُسی آزادیِ تقریر نے جنرل کی حکومت کے خاتمے کا آغاز بھی کیا۔
آج کے پاکستان میں سوِل سوسائٹی کی اِصطلاح ابھی بھی کنفیوژن کا شکار ہے، جس مُلک کی 70فیصد آبادی دیہاتی ماحول میں اپنے جاگیرداروں ، اپنے روحانی مُرشدوں اور اپنی برادری کے دباؤ کے نیچے رہتی ہو وہ کبھی کسی قومی Issue پربات نہیں کر سکتی۔ ظاہرہ طور پر ہمارے ہاں جمہوریت بھی ہے، اِبلاغ کے اِدارے بھی آزاد ہیں، تھوڑی بہت سوِل سوسائٹی کی جھلک بھی نظر آتی ہے، لیکن بہت گھٹن بھی ہے اور اجتماعی نااُمیدی بھی۔ یا تو میڈیا جھوٹ بول رہا ہے کہ متواتر بدعنوانیوں اور کرپشن کے قصے سُناتا رہتا ہے یا حکومت ضدّی اور سرکش ہے کہ وہ اِن اِلزاموں کا مناسب تدارک نہیں کرتی۔ رہ گئی سوِل سوسائٹی ، وہ تو آج کل نظر ہی نہیں آتی۔ کہاں ہیں پبلک Opinion کا اِظہار کرنے والے، کوئی تو نِکالو اِن نکمِے اور بے حِس عوام کو اِس کنفیوژن سے تاکہ حکومت ڈھنگ سے کام کر سکے۔ ہماری لاغر اور کمزور سی سوِل سوسائٹی کا گلہ دبوچنے کے لئے ایک مختصر سا، لیکن بڑا مضبوط گروہ پاکستان میں موجود ہے۔ یہ ہے مولویوں اور فتوے بازوں کا گروہ، جو لبرل سوچ کے پیچھے لٹھ لئے پھرتا ہے۔ سوِل سوسائٹی کا بین الاقوامی نام بھی لبرل سوچ ہے جو ہمارے ہاں قابلِ مواخذہ سمجھی جاتی ہے۔ کتنے ہی قابل، مخلص اور پاکستان کے لئے اچھی سوچ رکھنے والے افراد اِن تنگ نظر ملاؤں کے شرکا شکار ہو چُکے ہیں۔ مذہبی سوچ رکھنے والی انجمنیں بھی سوِل سوسائٹی کا حصہ ہوتی ہیں بشرطیکہ اُن کے اغراض و مقاصد میں عصبیت نہ ہو۔ مثلاً ’’اُخوت‘‘ہے، ’’انجمن حمائتِ اسلام ‘‘ہے، ’’جماعت الدعوہ‘‘ ہے (کیا ہوا اگر امریکہ نے اس جماعت پر پابندی لگا دی ہے) ہم سب کو معلوم ہے کہ یہ جماعت فلاح کے کام کرتی ہے اور مذہبی تعصبات سے بالاتر ہو کر زلزلہ زدگان اور سیلاب زدگان کی گرم جوشی سے اِمداد کرتی ہے۔ خیال رہے کہ ہر NGO سوِل سوسائٹی نہیں ہو سکتی ہے، لیکن ہر سوِل سوسائٹی NGO یا NPO (Non Profit Organisation) ہو سکتی ہے۔