دیکھے اَن دیکھے دشمنوں کے وار

دیکھے اَن دیکھے دشمنوں کے وار
 دیکھے اَن دیکھے دشمنوں کے وار

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

جن دنوں پاکستانی اداکارہ نادرہ زندہ تھی، تب اکثر مشکل پیش آتی تھی کہ نادرہ اور نادرا میں کیا فرق ہے؟ انگریزی میں دونوں کے ہجے ایک جیسے ،جبکہ اُردو میں ’’ہ‘‘ اور الف کا فرق پیدا کر کے کام چلایا جاتا تھا۔ آج نادرہ تو دنیا میں موجود نہیں، مگر نادرا بالکل ایک اداکارہ کی طرح کا کردار نظر آ رہا ہے جو نوٹ دکھانے پر ناچتا ہے اور ہر کام کرنے پر تیار ہو جاتا ہے۔ ایک امریکی سینیٹر نے پاکستان کے قومی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ کی ارزانی ہی پر کہا تھا کہ پاکستانی تو ڈالرز کے عوض اپنی ماں بھی بیچ دیتے ہیں، کیونکہ دھرتی کی شناخت بھی ماں جیسی ہوتی ہے۔ اب دیکھتے ہیں کہ یہ چند دن کا شور و غوغا ہے یا واقعی اس بار نادرا سے گندی مچھلیوں کا مکمل صفایا کیا جائے گا۔ اگر ملا منصور کی جلی ہوئی گاڑی اور نعش کے گردونواح میں ولی محمدکا پاکستانی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ نہ ملتا، تو شاید اب بھی وزارتِ داخلہ کی آنکھ نہ کھلتی۔ ایک اتنا بڑا ہائی پروفائل کردار ولی محمد کے نام سے دنیا میں گھومتا رہا اور پاکستانی پاسپورٹ پر بے دھڑک سفر کرتا رہا۔ کسی نے پہچانا اور نہ اُسے پکڑا۔ وہ اچانک ایک دن ڈرون حملے میں مارا گیا تو بڑی صفائی سے اس کا محفوظ پاسپورٹ اور شناختی کارڈ بھی اس کے ساتھ رکھ دیا گیا تاکہ یہ عقدہ بھی حل ہو جائے کہ وہ اب تک دنیا میں کس نام سے زندہ رہا ہے؟

یہ اہم نکتہ ابھی تک حل طلب ہے کہ ولی محمد کا پاسپورٹ اور شناختی کارڈ جائے وقوعہ پر کس نے پھینکا؟ یہ کام کوئی ڈرون نہیں کر سکتا، بلکہ کوئی آدمی ہی کر سکتا ہے۔ وہ آدمی کون تھا، جو اس وقت موقع پر موجود تھا اور جلتی ہوئی گاڑی سے کچھ فاصلے پر یہ دونوں چیزیں پھینک گیا۔ کرائم سین بتانے والی ایجنسیوں اور محکموں نے اس پہلو پر غالباً غور ہی نہیں کیا۔ ساری گتھی اسی نکتے کی تفتیش سے کھل سکتی ہے کہ ملا اختر منصور کو ڈرون حملے کے ذریعے نشانہ بنایا گیا یا اُسے زمینی حملے میں ختم کیا گیا؟ کیونکہ یہ ممکن ہی نہیں کہ پوری گاڑی جل کے کوئلہ ہو جائے اور حساس دستاویزات بچ جائیں۔ پھر یہ بھی ممکن نہیں کہ ملا اختر منصور کو پہلے ہی حملے کا علم ہو گیا تھا اور اس نے اپنی جیب سے یہ دونوں شناختی دستاویزات نکال کے باہر پھینک دیں،جبکہ ڈرون حملے کا تو علم ہی اُس وقت ہوتا ہے جب وہ اپنا ہدف حاصل کر لیتا ہے۔ بات صرف نادرا کے اندر موجود کرپشن تک محدود نہیں رہنی چاہئے، بلکہ اس بات کا بھی کھوج لگانے کی ضرورت ہے کہ ولی محمد نامی شخص کی شناختی دستاویزات کس نے موقع پر اس طرح پھینکیں کہ وہ محفوظ بھی رہیں اور مل بھی جائیں۔ اس کے پس پردہ مقصد کیا ہے اور اس کی منصوبہ بندی جہاں بھی کی گئی ہے، اس کے منصوبہ ساز پاکستانی حساس دستاویزات اورطالبان کمانڈر کویکجا کر کے کیا پیغام دینا چاہتے ہیں؟ پاکستان کی حدود میں ان کے سہولت کار کون ہیں،جنہوں نے ایک چلتی شاہراہ پر گاڑی کو نشانہ بنانے میں مدد کی اور پاکستانی پاسپورٹ اور شناختی کارڈ بھی وہاں تک پہنچایا۔


یہ نکتہ بھی حل طلب ہے کہ امریکہ کو پہلے سے علم تھا کہ ملا اختر منصور پاکستانی پاسپورٹ اور شناختی کارڈ استعمال کررہا ہے یا اسے بھی اس وقت معلوم ہوا جب ڈرون حملے کے بعد جلی ہوئی گاڑی کے پاس ولی محمد نام کے شخص کی شناختی دستاویزات ملیں۔ شواہد بالکل واضح ہیں کہ امریکہ کواس کا پہلے سے علم تھا،آج سے نہیں، بلکہ بہت پہلے سے ہوگا۔ پھراس نے پاکستان کو اس بارے میں بتایاکیوں نہیں؟ اس سوال پر بھی غور ہونا چاہیے کہ امریکہ کی ہمارے ڈیٹا بیس تک رسائی تو نہیں۔ چودھری نثار علی خان اب کہہ رہے ہیں کہ پاکستان کا ڈیٹا بیس غیر محفوظ ہوگیا ہے، نادرا میں موجود کرپٹ عناصر اس حساس اور اہم ترین ادارے کو غیر محفوظ بنا رہے ہیں، کیا اسی سے فائدہ اٹھا کر ہمارا سب کچھ امریکیوں کی دسترس میں تو نہیں آگیا؟ اگراتنا بڑا طالبان کمانڈر پاکستان کا شناختی کارڈ اور پاسپورٹ آسانی سے حاصل کرسکتا ہے تو تمام غیر ملکی کتنی آسانی سے حاصل کرلیتے ہوں گے۔ ولی محمد کے پاسپورٹ سے ثابت ہوتا ہے کہ اس نے ایک درجن سے زائد بارغیر ملکی سفر کئے، وہ کراچی میں ایک فلیٹ کا بھی مالک نکلا اوربلوچستان میں بھی اس کا قیام رہتا ہوگا۔ صرف شناختی کارڈ کا نام تصدیق کرنے والے تحصیلدار تک معاملہ نہیں رکنا چاہیے، بلکہ اس شناختی کارڈ کے نام پر موبائل سمز، بینک اکاؤنٹس اور اس کے ذاتی تعلقات کا کھوج لگانے کی بھی ضرورت ہے۔ یہ معاملہ صرف اتنا ہی نہیں کہ نادرا کے کچھ لوگ ہی اس کے ذمہ دار ہیں ۔۔۔یہ تو گونگلوؤں سے مٹی جھاڑنے والی بات ہوگی، اصل کام ولی محمد کی ماضی میں سرگرمیوں اور مصروفیات کا پتہ لگانا ہے، تاکہ ان کرداروں اور سہولت کارروں کا علم ہو سکے، جنہوں نے پاکستانی سرزمین پر ایک ایسے کردار کو چھپنے کی سہولت فراہم کی، جو ہمارے امن کو تباہ کرنے والے لوگوں کا کمانڈر تھا۔

جس طرح دہشت گردی کے ایک بڑے واقعہ کے بعد پورے ملک میں ہائی الرٹ کر کے عوام کی زندگی اجیرن کردی جاتی ہے، اسی طرح کے اقدامات وزیر داخلہ نادرا کے ذریعے اٹھانے جارہے ہیں۔ انہوں نے آناً فاناً یہ حکم جاری کردیا ہے کہ اب تک جتنے شناختی کارڈز جاری ہوئے ہیں، ان کی دوبارہ تصدیق کی جائے۔ اب پتہ نہیں اس کے لئے کیا لائحہ عمل بنایا جاتا ہے، البتہ یہ واضح ہے کہ اس حکم پر اگر اندھا دھند عمل کیا گیا تو وہی حال ہوگاجو کچھ عرصہ پہلے کراچی میں ہواتھا، جب ایس ایس پی ٹریفک نے لائسنس کے بغیر گاڑیاں چلانے پر پابندی لگا دی تھی اور ہزاروں لوگوں نے ٹریفک کے دفتر پر دھاوا بول دیا تھا کہ انہیں لائسنس جاری کیا جائے۔ نادرا کے دفاتر کی اس وقت بھی صورت حال قابل رحم ہے۔ چھوٹی چھوٹی دکانوں میں یہ دفاتر قائم کئے گئے ہیں۔ یہاں ہزاروں لوگ روزانہ آتے ہیں اور اذیت کا شکار ہو کر شام کے وقت نامراد لوٹ جاتے ہیں۔اب اگر موبائل سموں کی طرح شناختی کارڈز کی دوبارہ تصدیق کا پنڈورا بکس بھی کھولا گیا تو ملک میں افراتفری پھیل جائے گی، بہتر یہ ہے کہ نادرا احکام پہلے اپنے ڈیٹا بیس کے ذریعے مشکوک شناختی کارڈز کا تعین کریں اور اس کے بعد صرف انہی کی دوبارہ تصدیق کا کوئی طریقہ کار وضع کریں۔ ایک واقعہ کو بنیاد بنا کر جس طرح نادرا کے پورے نظام کو دنیا کی نظر میں خود ہم نے مشکوک بنادیا ہے، وہ بھی ہمارا ہی ’’کارنامہ‘‘ ہے۔


وزارتِ خارجہ اور وزارتِ داخلہ نے جس طرح اس معاملے کو حل کرنے کی کوشش کی ہے، اسے دانشمندانہ ہرگز قرارنہیں دیا جاسکتا۔ آصف علی زرداری کا یہ سوال بہت بامعنی ہے کہ جب یہ ثابت ہوگیا کہ نعش کے پاس ولی محمد کا شناختی کارڈ اورپاسپورٹ تھا تو پھر اختر منصور کہاں سے آگیا؟ وزارتِ خارجہ نے وہ کیا شواہد اکٹھے کئے، جن کی بنیاد پر یہ تسلیم کرلیا گیا کہ ولی محمد ہی ملا اختر منصور تھا؟ یا وزارتِ داخلہ کو صرف اسی ایک واقعہ سے خیال کیوں آیا کہ نادرا کا ڈیٹا بیس محفوظ نہیں ہے۔امریکہ کے بچھائے ہوئے جال کے سامنے اتنی تیزی سے سرنڈر کردینا کسی بھی طرح ایک کامیاب حکمتِ عملی نہیں۔ ایران ابھی تک نہیں مان رہا کہ ملا اختر منصور ایران میں رہتا تھا یا وہاں آتا جاتا تھا، حالانکہ جس ولی محمد کوہم ملا اختر منصورتسلیم کرچکے ہیں، وہ اس دن بھی ایران ہی سے آرہا تھا۔ خرابی ایک نہیں کئی جگہ موجود ہے اور اگر ہم نے اسی طرح بد حواسی کے عالم میں فیصلے کئے اور اقدامات اٹھائے تو ہمارے دیکھے اَن دیکھے دشمن ہم پر غالب آتے جائیں گے اور معذرت خواہی ہمارا مقدر بن جائے گی۔

مزید :

کالم -