غیر ملکیوں کے خلاف سعودی عرب کا وہ اقدام جس سے وہ خود ہی مشکل میں پھنس گیا
ریاض(مانیٹرنگ ڈیسک) سعودی حکومت نے اپنے شہریوں کو زیادہ سے زیادہ برسرروزگار کرنے کے لیے نیشنلائزیشن پروگرام شروع کر رکھا ہے۔ اس پروگرام کے تحت حکومت ٹیلی کام سیکٹر میں تارکین وطن کے نوکری کرنے پر پابندی عائد کر چکی ہے۔ حکومت نے یہ اقدام اپنے سعودی شہریوں کو نوکریاں دے کر معیشت کو سہارا دینے کے لیے کیا تھا مگر اس سے ملک کا ٹیلی کام سیکٹر انتہائی بری طرح متاثر ہوا ہے اور غیرملکیوں کو اس سیکٹر سے نکال کر سعودی حکومت خود ہی مشکل میں پھنس گئی ہے۔ عرب نیوز کی رپورٹ کے مطابق حکومت کی طرف سے اس سیکٹر سے تارکین وطن کو نکالے جانے پر موبائل فون کی دکانوں کے کرایوں میں 83فیصد تک کمی واقع ہو گئی ہے۔ جس دکان کا کرایہ پہلے 3ہزار ریال (تقریباً83ہزار 600روپے) تھا اب 500ریال (تقریباً 13ہزار 900روپے) ماہانہ کی سطح پر آ گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ سرمایہ کار حکومت کے نیشنلائزیشن پروگرام پر عملدرآمد نہیں کرنا چاہتے کیونکہ جس تنخواہ میں انہیں غیرملکی ملازم میسر ہوتے ہیں اس میں سعودی شہری کام نہیں کرتے۔ اسی لیے بہت سے سرمایہ کاروں نے اس سیکٹر سے اپنا سرمایہ نکال لیا ہے جس سے دکانوں کے کرائے گر گئے ہیں۔حکومت کے اس اقدام کے بعد موبائل فون کی مارکیٹوں میں صرف25فیصد دکانیں تاحال چل رہی ہیں، باقی تمام بند ہو چکی ہیں۔ سعودی وزارت محنت کے ترجمان خالد ابالخیل (Khaled Abalkhail) کا کہنا تھا کہ ”ٹیلی کام سیکٹر کو نیشنلائز کرنے کا فیصلہ متعلقہ وزارتوں اور حکام نے مل کر کیا تھا۔ اس میں سیکٹر میں کام کرنے والے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں سے بھی مشاورت کی گئی تھی۔ہم اس سیکٹر کے تاجروں سے کیے گئے وعدے پورے کرنے کے لیے تندہی سے کام کر رہے ہیں۔‘ ‘