معترضین سے خوف زدہ حکومت بجٹ پرکوئی ابہام نہیں چھوڑنا چاہتی

معترضین سے خوف زدہ حکومت بجٹ پرکوئی ابہام نہیں چھوڑنا چاہتی
 معترضین سے خوف زدہ حکومت بجٹ پرکوئی ابہام نہیں چھوڑنا چاہتی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تجزیہ :- سعید چودھری
وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف عارضہ قلب کے علاج کے لئے برطانیہ مقیم ہیں جہاں منگل کو ان کی اوپن ہارٹ سرجری ہو گی ۔دوسری طرف سالانہ بجٹ کی آمد آمد ہے ۔وزیر اعظم کی ملک میں عدم موجودگی کے باعث بجٹ اور دیگر انتظامی معاملات کے حوالے سے مختلف حلقوں کی جانب سے آئینی سوالات اٹھائے جانے کا سلسلہ جاری ہے ۔ان میں سے زیادہ تر سوال برائے سوال ہیں ،حتیٰ کہ سابق چیف جسٹس پاکستان افتخار محمد چودھری نے تو یہاں تک فرما دیا کہ وزیر اعظم کی عدم موجودگی سے کئی انتظامی معاملات پر آئینی بحران کی کیفیت ہے اور نیا وزیر اعظم منتخب کرنا ضروری ہے ۔اس حوالے سے ایک روز قبل روزنامہ پاکستان تفصیلی تجزیہ پیش کر چکا ہے کہ وزیر اعظم کی عدم موجودگی سے کوئی آئینی بحران پیدا ہوا نہ ہو گا ۔جہاں تک سالانہ قومی بجٹ میں وزیر اعظم کے کردار کا تعلق ہے ،وہ ملک کے چیف ایگزیکٹو اور کابینہ کے سربراہ ہونے کی حیثیت سے مجوزہ بجٹ بل کی اس حوالے سے منظوری دینے کے ذمہ دار ہیں کہ آئین کے تحت بجٹ بل صرف حکومت ہی پیش کر سکتی ہے ۔ آئین کے آرٹیکل 90کے تحت حکومت سے مراد وزیر اعظم اور وفاقی وزراءہیں ۔ آرٹیکل (2)90 کے تحت وزیر اعظم اپنے کارہائے منصبی وفاقی وزراءکے ذریعہ ہی عمل میں لا سکتے ہیں تاہم کسی قانونی اور آئینی ابہام سے بچنے کے لئے فیصلہ کیا گیا ہے کہ وزیر اعظم خود کابینہ کے اس اجلاس کی ویڈیو لنک کے ذریعے صدارت کریں گے جس میں بجٹ بل کی منظوری دی جائے گی ۔بجٹ بل وزیر اعظم کی طرف سے نہیں بلکہ حکومت کی طرف سے پیش کیا جاتا ہے ۔آئین بجٹ بل پر وزیر اعظم کے دستخط یا ان کی اسمبلی میں موجودگی کا تقاضہ نہیں کرتا ۔لگتا ہے حکومت وزیر اعظم کی عدم موجودگی پر تنقید سے خوف زدہ ہے اور وہ کوئی ایسا ابہام نہیں چھوڑنا چاہتی جو آگے چل کر مسائل پیدا کرے اس لئے حکومت نے بجٹ بل کو اسمبلی میں پیش کرنے سے قبل اس کی منظوری کی بابت وزیر اعظم سے دستخط حاصل کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ایک حلقہ کی طرف سے یہ نکتہ اٹھایا گیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 83کے تحت بجٹ بل پر وزیر اعظم کے دستخط ہونا ضروری ہیں ۔یہ نکتہ آئینی طور پر درست نہیں ہے آئین کے آرٹیکل 83کے تحت وزیر اعظم اپنے دستخطوں سے سالانہ بجٹ دستاویز کے اس مخصوص حصے کی توثیق کرتے ہیں جو قومی اسمبلی منظور کر چکی ہوتی ہے یا پھر یہ تصور کر لیا جاتا ہے کہ قومی اسمبلی نے اسے منظور کر لیا ہے ۔وزیر اعظم اس حوالے سے جس شیڈول پر توثیقی دستخط ثبت کرتے ہیں ان میں گرانٹس اور وہ رقوم شامل ہوتی ہیں جو اخراجات پورے کرنے کے لئے وفاقی اجتماعی فنڈ کے لئے مختص کی جاتی ہیں اور قومی اسمبلی ان کی پہلے ہی منظوری دے چکی ہوتی ہے اس لئے یہ کہنا درست نہیں کہ بجٹ بل پیش کرنے سے قبل اس پر وزیر اعظم کے دستخط ضروری ہیں ۔بجٹ بل حکومت کی طرف سے وزیر خزانہ اسمبلی میں پیش کرتے ہیںجس کی منظوری کے بعد مصارف کے شیڈول کی وزیر اعظم کے دستخطوں سے توثیق کا مرحلہ آتا ہے ۔آئین کے آرٹیکل 83کے ذیلی آرٹیکل 2میں یہ بھی واضح کر دیا گیا ہے کہ وزیر اعظم کے توثیق شدہ شیڈول کو قومی اسمبلی کے روبرو رکھا تو جائے گا مگر اس پر رائے شماری یا بحث کی اجازت نہیں ہو گی ۔یہاں یہ بتانا ضروری نہیںکہ وفاقی اجتماعی فنڈ کے شیڈول میں سپریم کورٹ کے جج صاحبان ،چیف الیکشن کمشنر ،سینٹ کے چیئر مین و ڈپٹی چیئر مین ،قومی اسمبلی کے سپیکر و ڈپٹی سپیکر ،ایڈیٹر جنرل ،اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج صاحبان اور وفاقی اداروں کے افسروں و ملازمین کی تنخواہوں کے علاوہ وفاقی حکومت کے دیگر اخراجات شامل ہوتے ہیں ۔علاوہ ازیں بعض آئینی ماہرین کی طرف سے یہ تاثر بھی دیا جا رہا ہے کہ بجٹ بل کی قومی اقتصادی کونسل سے منظوری ضروری ہے جبکہ آئین اس تاثرکی نفی کرتا ہے ،آئین میں کہیں بھی اس بات کا ذکر نہیں کہ بجٹ بل اسمبلی میں پیش کرنے سے قبل اس کی قومی اقتصادی کونسل سے منظوری لینا ضروری ہے ۔آئین کے آرٹیکل 156کے تحت قومی اقتصادی کونسل ایک پالیسی ساز مشاورتی ادارہ ہے جو وزیر اعظم کی سربراہی میں کام کرتا ہے چاروں وزراءاعلیٰ اور ہر صوبہ سے وزیر اعلیٰ کا نامزد کردہ ایک شخص اس کا ممبر ہوتا ہے علاوہ ازیں اس میں چار دیگر ارکان بھی شامل ہوتے ہیں جن کو وزیر اعظم نامزد کر تاہے ۔اقتصادی کونسل کا اجلاس سال میں کم از کم دو مرتبہ ہونا ضروری ہے اس کا کام ملک کی اقتصادی حالت کا جائزہ لے کر وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو مشورہ دینے کے لئے مالیاتی ،تجارتی ،سماجی اور اقتصادی پالیسیوں کے ضمن میں منصوبہ جات تشکیل دینا ہے ۔قومی اقتصادی کونسل پارلیمنٹ کو جواب دہ ہے ۔آئین کے آرٹیکل 156کے ذیلی آرٹیکل 5کے تحت قومی اقتصادی کونسل قومی اسمبلی اور سینیٹ کو سالانہ رپورٹ پیش کرنے کی بھی پابند ہے ۔جس کا مطلب ہے کہ قومی اقتصادی کونسل کا بجٹ یا بجٹ بل کی منظوری سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہے اگر ایسا ہوتا تو اس کی رپورٹ صرف قومی اسمبلی میں پیش کی جاتی جو کہ مالیاتی بل یا بجٹ کی منظوری کا واحد فورم ہے ۔لگتا ہے قومی اقتصادی کونسل کے اجلاس سے بھی وزیر اعظم کے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کا فیصلہ اس لئے کیا گیا ہے کہ بجٹ کی منظوری کے حوالے سے کسی طرف سے کوئی انگلی نہ اٹھائی جا سکے۔جہاں تک آئین کے آرٹیکل 83کے تحت اسمبلی سے منظور شدہ مصارف کے شیڈول پر وزیر اعظم کے توثیقی دستخطوں کا تعلق ہے اس کے لیے ضروری نہیں کہ وزیر اعظم ارکان اسمبلی کے سامنے یا پھر پاکستان میں موجود رہ کر اس پردستخط کریں ۔وہ بیرون ملک بھی مصارف کے شیڈول کی دستاویز طلب کر کے اس پر دستخط کر سکتے ہیں۔ مصارف کے شیڈول پر وزیر اعظم کے توثیقی دستخط ہونا اس لئے ضروری ہے کہ آئین کے آرٹیکل 83کے ذیلی آرٹیکل 3کے تحت اسمبلی سے منظوری کے باوجود انہیں اس وقت تک منظور شدہ تصور نہیں کیا جا سکتا جب تک کہ وزیر اعظم اس پردستخط نہ کردیں۔

مزید :

قومی -