نواز شریف کی جانشینی
مشاہدے اور تجزیے میں معروضی تناظرفراموش کر دیا جائے تو پھر وہ سب کچھ ہو سکتا ہے۔۔۔مشاہدہ یا تجزیہ نہیں۔بڑے سے بڑے عبقری کے لئے بھی اپنے عہد کے سماجی اثرات سے بچنا ممکن نہیں۔کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے چشم بینا کو دور پڑی چیز تو صاف دکھائی دے لیکن قریب کی حقیقت اسے سجھائی نہ دے۔گاہ گاہ نگاہ خاص رخ پر آکر ٹک جاتی ہے اور ناگاہ نگاہ عام جہت کو بھی خاص زاویے سے دیکھا کئے۔خاص اور عام مشاہدے و تجزیے میں بسا اوقات وہی فرق ہوتا ہے جو کسی چیز کے اندرون اور بیرون میں ۔کسی چیز کے مشاہدے یا تجزیے کے لئے خاص اور عام دونوں رخوں سے اس کو دیکھا چاہئے۔پھر ہی جاکر ملفوف حقیقت کسی قدر منکشف ہوتی ہے بصور ت دیگر سب سراب ہے۔خواص حقیقت کی ایک سطح کودیکھتے ہیں جہاں تک عام کی رسائی نہیں ہوتی اور جو چیز عام کے حصے میں آیا کئے۔۔۔خواص اس کے مشاہدے سے محروم رہتے ہیں۔تکلف برطرف ایک کالم نگار کے کالم میں نوازشریف کی جانشینی کا سوال فیصل ہو نہ سکا۔مغل تاجداروں کے واقعات و حالات کے تانے بانے سے کیا گیا تجزیہ اپنے خاکے میں رنگ توخیر بھر گیا۔ماہر مصور کی طرح مہ رخ کا پری پیکر مگر موقلم کھینچ نہ سکا،سنگ تراش مجسمہ ساز کی مانند کوئی مورت مگر متشکل ہو نہ سکی۔
دیکھئے باتیں دو ہیں۔اولاًبقول تجزیہ نگار’’نواز شریف نے جب میڈیا کے معاملات مریم کو سونپے تو حکومت کا توازن بہتر ہونے لگا۔مریم نے جانفشانی سے کام کیا تو وہ جانشین کے طور پر سامنے آئی‘‘۔ثانیاًوہ خود کہتے ہیں ’’مجھے یقین ہے جانشینی کے مسئلہ پرمغلیہ خاندان کی طرح اس خاندان میں جنگ نہیں ہوگی‘‘۔اصولی طورپر پھر جانشینی کے معاملے میں فیض عام کی بجائے فیض تام ہوا ہوتا کہ ابہام تمام ہوتا۔مخمصہ اور مسئلہ یہ کہ سیاست کے مسئلے موسیٰ خوارزمی کے الجبرا یا عمر خیام کے کسر اعشاریہ نہیں ہوتے کہ جواب معروف ہو۔سیاسیات کا ثقہ اصول کہ عمارتوں کی طرح حکومتوں میں بھی ایک تبدیلی سے دوسری تبدیلی کی گنجائش رہتی ہے۔نظر بظاہر تو تجزیہ نگار نے جانشینی کو موضوع بنایا لیکن بین السطور انہوں نے شریف خاندان میں اختلاف کی خبر دی ہے۔سمندر کے سینے اور دل کی تہہ میں جھانک کر تو کسی نے بھی نہیں دیکھا ،البتہ معروضیت کی شہادت حقیقت کے اریب قریب ہوا کئے۔کیا واقعی شہباز شریف اور حمزہ کی پانامہ پر خاموشی بڑے میاں صاحب پر گراں گزرتی رہی؟کیا پانامہ کیس میں شہباز شریف نے نواز شریف کا دفاع نہیں کیا؟ایک دو نہیں،بے شمار بیانات ریکارڈ پر ہیں کہ انہوں نے پانامہ کے اباطیل واساطیر کو مسترد کیا۔حمزہ شہباز نسبتاًپس منظر میں ہیں اوران کی خاموشی کو زرخیز مغز کوئی بھی معنی پہنا سکتا ہے۔
تسلیم و تائید کہ اکثر حقیقت وہ نہیں ہوتی جو نظر آتی ہے۔مشاہدے ،تجزیے، قیاس اور گماں پر اگر مسائل فیصل ہوں تو پھر جانشینی کوئی مسئلہ نہیں۔نواز شریف کی سیاسی وراثت کا امیں وہی ہو گا جسے وہ خود امانت سونپ دیں گے۔درون خانہ اگر کوئی ارتعاش،ہلچل یا اتھل پتھل ہو تو پھر ہو نہیں سکتا کہ بڑے میاں صاحب بے خبر ہوں۔منجھے سیاست دان ،مقدر کے سکندر اور بحرانوں سے سرخرو اور سرفراز ہو کر نکلنے والے کی خاموشی پھر بڑی معنی خیز رہی۔نظام الملک طوسی نے اپنی ’’ سیاست نامہ‘‘میں برملا لکھا۔۔۔’’لڑائی سے بچنے کی خاطر ناقابل اطمینان حالات کو جاری رہنے دینا ٹھیک نہیں۔اس لئے کہ مملکت اور جانشینی کی لڑائی ہمیشہ کے لئے ٹلتی نہیں،ہاں تھوڑی دیر کے لئے ملتوی ہو سکتی ہے‘‘۔کیا تجربہ کار سیاست دان ایک مدبر سیاست دان کی آرا وافکار سے بے خبر ٹھہرا؟
عجیب اور حیرت کی بات کہ سیاست کے سحر گزیدہ اور صحافت کے چشم دیدہ بھی اگر مغالطے میں مبتلا ہو جائیں۔لکھا گیا ’’2013ء کے عام انتخابات میں شہباز شریف نے نواز شریف کو وزارت عظمیٰ کا تاج طشتری میں رکھ کر پیش کیا‘‘۔اللہ اکبر!بقول ابن خلدون عصبیت کی حمایت کے بغیر کوئی آدمی حکمران بن ہی نہیں سکتا،کجا کہ باقی و برقرار رہے۔یہ کیسے ممکن ہے کہ ووٹ بنک۔۔۔جسے ابن خلدون عصبیت سے تعبیر کرتا ہے۔۔۔تو کسی اور کا ہو اور حکمران کوئی اور بن جائے۔گزشتہ انتخابات میں پنجاب میں امیدواروں کاانتخاب،انتخابی منصوبہ بندی،92 ارب کے فنڈز کی تقسیم اور سب کچھ شہباز شریف کی نگرانی میں ہونا۔۔۔ٹھیک ٹھیک کہ جیت میں اس کی تائید و تحسین کی جانی چاہئے۔لیکن یہ ساری ذمہ داری کس نے سونپی؟شہباز شریف کی پشت پرکون کھڑا تھا؟یہ وہ سامنے کی حقیقت ہے جو تاڑنے والوں کو بھی دکھائی نہ دے۔
فرانس کی تاریخ سے انقلاب اور فنون لطیفہ نکال دیجئے تو پھر پیچھے باقی کیا بچے گا؟کہا جاتا ہے کہ پھر ایک بوٹے سے قد کے ڈکٹیٹرنپولین پر اکتفا کرنا پڑے گا۔پی ٹی آئی سے کپتان کو منہا کر دیجئے تو پھر اس تحریک میں کیا رہے گا؟خدارا شیریں مزاری کا نام نہ لیجئے کہ خواجہ آصف کی یاد آتی ہے۔بعینہٖ ن لیگ سے نواز شریف کی تفریق کر دیجئے تو پھر پیچھے اللہ کا نام رہے گا بس۔میکا ولی اپنی نظری پراگندگی اور فکری پامالی کے باعث خاصا مطعون رہا ہے۔یہ الگ بات کہ اس کی بادشاہ(پرنس)سیاست کی امہات کتب میں شمار ہوتی آئی ہے۔اس کی دریدہ دہنی اور بے ہودگی اپنی جگہ لیکن گاہے ماہے وہ کمبخت ٹھیک بات بھی کہہ گزرا ۔اس نے لکھا ’’فن سپاہ گری سے ناواقفیت اور چیز ہے اور امور مملکت سے کورا ہونا دوسری چیز ہے۔امور مملکت سے شناسائی اسی کی بہتر ہوتی ہے جس کی تربیت ایک کامیاب حکمران کرے‘‘۔اب اہل فکرو نظر کواختیار ہے کہ نواز شریف کی جانشینی پر جو نام اچھا لگے اسے قبول کرتے پھریں۔
ہماری سیاست میں ایک کلیہ و قاعدہ تقریباًیقین کی حد تک اصول کے درجے پر پہنچا ہوا ہے۔کہا جاتا ہے کہ سیاست اور جمہوریت میں لوگ ایک ہی چہرے سے اکتا جایا کئے۔اس میں بھی سچائی رہی ہو گی مگر میکا ولی تو اس کے بالکل برعکس بات کرتا ہے۔زیادہ نہ سہی،تھوڑی بہتی تو شاید اس بات میں بھی سچائی چھپی ہو گی۔کوئی آدمی سچ کو دائیں جانب تلاش کرتا ہے اورکوئی بائیں طرف۔یہ تو سچ اور حقیقت کو تلاش کرنے کا بہرطور ایک طریقہ ٹھہرا۔اس نے لکھا ’’نئی حکومتوں کی نسبت موروثی حکومتوں کو چلانا زیادہ آسان ہے ۔وجہ یہ کہ لوگ ایک خاص خاندان کی حکومت کے عادی ہو جاتے ہیں‘‘۔چلئے چھوڑیئے اس بات کو البتہ جانشینی کے مسئلہ کو بھی سیاست اور حکومت کے خطرات میں شمار کیا گیا اور اسے تپ دق ایسی مرض سے تشبیہ دی گئی ہے۔حکیم حاذق اور طبیب صادق کے بقول شروع میں اس بیماری کی تشخیص مشکل ہوتی ہے مگر علاج سہل۔بعد میں تشخیص آسان سہی لیکن علاج آساں نہیں رہتا۔چلتے چلتے آخری تجزیے میں جانشینوں نے بھی کامیاب حکومتیں چلائیں اور کی ہیں۔کہا جاتا ہے سکندر کے جانشینوں نے عرصہ دراز تک اپنے مفتوحہ علاقوں پر چین سے حکومت کی۔شیر شاہ سوری کا مغلوں سے حکومت چھین لینا اور ہمایوں کو لوہے کے چنے چبوانا۔۔۔یہ حقیقت سہی لیکن اس کے اندر بھی ایک حقیقت رہی۔قسمت نے یاوری کی تو بعد میں بابر کے اسی جانشین نے کامیاب فرمانروائی کامزہ پایا۔