دیہی پوسٹ ماسٹروں کی مشکلات
مکرمی! حکومتِ پاکستان ہر سال سرکاری غیر سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشنوں میں اضافہ کرتی ہے،لیکن دیہی پوسٹ ماسٹر کو ہر سال نظر انداز کیا جاتا ہے جو کہ مُلک کی80فیصد آبادی کو ڈاک کی سہولت پہنچاتا ہے۔ محکمہ ڈاک دیہی پوسٹ ماسٹر کو2012 سے 1560/- روپے ماہوار ادا کر رہا ہے جو کہ ایک مذاق کے مترادف ہے اس کی تنخواہ نہیں ہے یہ جزو وقتی چار گھنٹہ کا ملازم ہے۔ ڈاک کا کام اپنے گھر میں کرتا ہے، کوئی مکان، دکان اور فرنیچر کا کرایہ نہیں ہوتا۔ محکمہ رجسٹر اور فارم مہیا نہیں کرتا، بلکہ یہ بھی اپنی گرہ سے خرید کر ڈاک کا کام چلاتا ہے۔ برانچوں میں تھیلیاں نہیں ہیں۔ رات کو دروازہ کھٹکھٹایا جاتا ہے کہ رجسٹری یا منی آرڈر بک کروانا یا لفافہ چاہئے یا میری ڈاک تو نہیں ہے۔ بعض دیہی پوسٹ ماسٹر کے ذمہ ایک سے زائد دیہات ہیں۔ الاؤنس وہی1560روپے ماہوار ہے۔ حکومتِ پاکستان تمام ملازمین سے ایک جیسا سلوک کرے، کسی کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک کرنا کسی طرح درست اور موزوں نہیں ہے۔ حکومت مہنگائی اور ذمہ داری کے مطابق الاؤنس کا تعین کرے یا سکیل نمبر1دیا جائے۔( نذیر احمد برانچ پوسٹ ماسٹر چک نمبر111ج ب تحصیل و ضلع فیصل آباد)
مکرمی!آج کل آپ کسی جنرل سٹور یا کسی بیکری سے روزمرہ استعمال کی اشیاء خریدنے جائیں تو عام طور پر بل کی رقم کی ادائیگی کے بعد آپ کے ہاتھ میں گولیاں یا ٹافیاں تھما دی جاتی ہیں۔ استفسار پر بتایا جاتا ہے کہ بقایا ادا کرنے کے لئے سکے موجود نہیں۔ لوگوں کو نہ چاہتے ہوئے بھی گولیاں ٹافیاں قبول کرنی پڑتی ہیں اور دکانداروں کی بغیر تگ و دو کے گولی ٹافی کی خوب سیل ہوتی ہے۔ اس سے آگے سنیے۔ اگر آپ نے پٹرول پمپ سے گاڑی میں پٹرول ڈلوایا ہے تو یہاں تو بقایا دینے کا رواج ہی نہیں۔ پٹرول پمپ والے تو کرنسی نوٹس کے علاوہ ٹوٹے پیسے(ریزگاری) رکھتے ہی نہیں اور بقایا رقم ہڑپ کر جاتے ہیں۔ اس طرح شہریوں کو ایک سے نوروپے تک کا نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے جو روزانہ کے حساب سے لاکھوں روپے تک پہنچ جاتا ہے۔ اس میں بے چارے شہریوں کا کیا قصور ہے؟